جمیع انسانیت کی سب سے بڑی خواہش پریشانیوں اور مشکلات سے کامل نجات حاصل کرنا ہے۔ پریشانیوں اور غموں سے نجات حاصل کرنے کے لیے لوگ اپنے مادی وسائل کو بھی استعمال کرتے ہیں اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لاتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی کثیر تعداد زندگی میں وقفے وقفے سے پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرتی رہتی ہے۔ مختلف علوم کے ماہرین نے پریشانیوں کے اسباب کے حوالے سے اپنی اپنی آرا کو پیش کیا اور ان کے تدارک کے لیے تجاویز اپنے مطالعے کی روشنی میں قلمبند کیں یا لوگوں کے سامنے بیان کیں۔ اسلام اور کتاب وسنت کا مقدمہ اس حوالے سے نہایت واضح ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مصائب کی تین بنیادی وجوہات کا ذکر کیا ہے۔ جو درج ذیل ہیں:
1۔ آزمائش: اللہ تبارک وتعالیٰ کے نیکو کار بندوں پر مصیبتیں اور تکالیف آزمائش کی وجہ سے آتی ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ ان آزمائشوں کے نتیجے میں نیکو کار لوگوں پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیات 155 تا 157میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اورالبتہ ہم ضرور آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبرکرنے والوں کو۔ وہ لوگ (کہ) جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ مذکورہ بالاآیات میں جہاں تکالیف کے ایک اہم سبب کا ذکر کیا گیا وہیں ان تکالیف سے چھٹکارے کے راستے کا بھی ذکر کیا گیا جو صبر کا راستہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجیدکے بعض دوسرے مقامات پر بھی صبر کے ذریعے مدد طلب کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سور ہ بقرہ کی آیت نمبر 153 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے‘ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ آیت مذکور ہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صبر کے ساتھ نماز کے ذریعے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصرت کو حاصل کرنا چاہیے۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے بعض دیگر تدابیر بھی سامنے آتی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان ان مصیبتوں اور آزمائشوں سے باہر نکل سکتا ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم نکات درج ذیل ہیں:
(الف) دُعا: کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی فریاد رسی فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سور ہ بقرہ کی آیت نمبر 186میں ارشا دفرماتے ہیں: ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتا دیں کہ) بے شک میں قریب ہوں‘ میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے۔ پس چاہیے کہ (سب لوگ) حکم مانیں میرا اور چاہیے کہ وہ ایمان لائیں مجھ پر تاکہ وہ راہِ راست پا لیں‘‘۔ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر کیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر جب بھی کوئی تکالیف یا پریشانیاں آئیں تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعائیں کرتے رہے اور ان دعاؤں کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی پریشانیوں اور تکالیف کو دور فرما دیا۔
(ب) ذکرِ الٰہی: جب انسان کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی زندگی کے اندھیروں کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حوالے سے سورہ احزاب کی آیات 41 تا 43 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یاد کرو اللہ کو‘ (اور) بہت زیادہ یاد کرو۔ اور تسبیح (پاکیزگی) بیان کرو اُس کی صبح وشام۔ وہی ہے جو رحمتیں بھیجتا ہے تم پر اور اُس کے فرشتے (دعائے رحمت کرتے ہیں) تاکہ وہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور وہ ہے مومنوں پر بہت رحم کرنے والا‘‘۔
(ج) انفاق فی سبیل للہ: جب انسان کسی آزمائش میں مبتلا ہو جاتاہے تو اسے جہاں دعا اور ذکرِ الٰہی کے راستے پر کاربند ہونا چاہیے وہیں اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنا مال بھی خرچ کرنا چاہیے۔ انفاق فی سبیل للہ کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے غموں اور دکھوں کو دور فرما دیتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274 میں ارشاد ہوا: ''وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن کو‘ چھپا کر اور علانیہ طور پر‘ تو ان کے لیے اس (کام) کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
2۔ گناہ: کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تکلیف کا دوسرا اہم سبب انسان کے گناہ ہیں۔ ان گناہوں کی وجہ سے اسے زندگی میں مصائب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو (بھی) تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے‘‘۔
جب انسان گناہوں کی وجہ سے تکالیف کی زدّ میں آ جائے تو اس کو مذکورہ بالا تدابیر کے ساتھ ساتھ تین مزید اہم تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے:
(الف) توبہ و استغفار: جب انسان اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر اپنے آنسوؤں کو بہاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زمرکی آیت نمبر 53میں ارشاد فرمایا : ''آپ کہہ دیجئے اے میرے بندو! جنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر‘ نااُمید نہ ہو جاؤ اللہ کی رحمت سے بے شک اللہ بخش دیتا ہے سب گناہوں کو ‘ بے شک وہ بہت بخشنے والا‘ بڑا رحم کرنے والا ہے‘‘۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر110 میں اس حقیقت کا ذکر فرمایا : ''اور جو کر لے کوئی برائی یا ظلم کرلے اپنے نفس پر پھر بخشش مانگے اللہ سے‘ وہ پائے گا اللہ کو بخشنے والا‘ رحم کرنے والا‘‘۔
جب انسان صدقِ دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر رحمتوں کا نزول فرماتے اور اس کی زندگی کے مصائب دور ہو جاتے ہیں۔ استغفار کے فوائد کے حوالے سے سورہ نوح میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے قول کو بیان فرمایا۔ سورہ نوح کی آیات 10 تا 13 میں ارشاد ہوا: ''تو میں نے کہا: بخشش مانگو اپنے رب سے‘ بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار۔ اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ (پیدا) کرے گا تمہارے لیے نہریں۔ کیا ہے تم کو (کہ) نہیں تم اعتقاد رکھتے اللہ کے لیے عظمت کا‘‘۔
(ب) ارکانِ اسلام کی بجا آوری: جب انسان اپنے اعمال کی اصلاح کرکے نمازوں کو قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی زندگی سے مصائب کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 277 میں ارشاد فرماتے ہیں : بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی‘ ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
(ج) اللہ کی خشیت کی وجہ سے گناہوں سے اجنتاب: جب کوئی انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے گناہوں سے اجتناب کرنا شروع کر دیتا یعنی متقی بن جاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تکالیف کو دور فرما دیتے ہیں۔ سورہ طلاق کی آیات 2 تا 3 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا‘‘۔
3۔ اللہ کا عذاب: تکالیف کا ایک سبب آزمائش اور دوسرا بڑا سبب انسانوں کے گناہ ہیں۔ اسی طرح کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی پر اصرار کرتا ہے اور باقاعدہ طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بغاوت پر اتر آتا ہے تو مصیبتیں اور تکالیف کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کا کوڑا بن کر اترپڑتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ نوح پر آنے والے عذابوں کا بھی ذکر کیا اور آلِ فرعون پر برسنے والے ٹڈیوں، مینڈکوں، جوؤں، خون اور طوفانوں کا بھی ذکر کیا۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب اور گرفت مجرموں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو مجرموں کے لیے بچنے کا کوئی راستہ نہیں بچتا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی گرفت اور پکڑ دیکھنے والوں اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے اس میں سامانِ عبرت ہوتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات دے اور ان راستوں کو اختیار کرنے کی توفیق دے جو مصائب اور مشکلات کے خاتمے پر منتج ہوں، آمین !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved