کیا عمران خان کے ساتھ صرف وہ نوجوان ہیں جو جذباتی ہیں اور ناتجربہ کار؟ کیا یہ صرف ایک Cultکا مسئلہ ہے؟ کیا یہ صرف ہیرو پرستی ہے؟ کیا یہ محض کرکٹ کا طلسم ہے جس نے اب تک لوگوں کے دلوں میں خان کو جاگزین کیا ہوا ہے؟
یہاں اس بات کو دہرانا ضروری ہے کہ یہ لکھنے والا‘ جس نے خان کی پُرزور حمایت کی تھی‘ اُن کی حکومت کے آغاز ہی میں دل شکستہ ہو گیا تھا۔ بزدار صاحب کی تعیناتی ہی سے امیدوں کے محل مسمار ہو گئے تھے۔ دیگر وجوہات کا ذکر کئی بار کیا جا چکا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہت سے سنجیدہ اور متین لوگ بھی عمران خان کے ساتھ تھے اور آج بھی ساتھ ہیں۔ یہ معقول لوگ ہیں۔ منطق کی بات کرتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنا کچھ سامنے آنے پر بھی یہ لوگ عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں؟ گجر خاندان‘ توشہ خانہ‘ عمران پروجیکٹ‘ ناگفتنی آڈیوز اور بہت کچھ اور بھی! مگر پھر بھی خان کی حمایت بہت زیادہ ہے! اتنی زیادہ کہ الیکشن میں واضح برتری صاف دکھائی دے رہی ہے!
خان کے جتنے سمجھدار حامیوں سے بات ہوئی ہے‘ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خان دیانت دار ہے نہ اصولی سیاستدان! مگر وہ اسے Lesser Evilیعنی کمتر برائی گردانتے ہیں۔ مسئلے کی جڑ اُن کے نزدیک خان نہیں‘ شریف خاندان اور زرداری خاندان ہیں! شریف خاندان اور زرداری خاندان کی مخالفت کی تہہ میں دو اسباب ہیں۔ ایک ان خاندانوں کا لائف سٹائل! دوسرے‘ پی پی پی اور مسلم لیگ نون پر دونوں خاندانوں کی مضبوط گرفت! کڑی اجارہ داری!
ان دونوں خاندانوں کا لائف سٹائل‘ پاکستانی عوام کو ذہنی طور پر کچل کے رکھ دیتا ہے۔ کیا کسی کو اشفاق احمد مرحوم کا ڈرامہ ''فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی‘‘ یاد ہے؟ اس کا لب لباب کیا تھا؟ یہی کہ دولت کی Vulgarاور بے مہار‘ بے تحاشا‘ بے محابا نمائش‘ گناہ تو یقینا ہے‘ جرم بھی ہے۔ اس نمائش کو دیکھ کر دوسرے لوگ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ محلے میں کوئی امیر ہو اور اسراف اور تبذیر کا ارتکاب کر رہا ہو تو صرف اڑوس پڑوس کے رہنے والے ذہنی اذیت کا شکار ہوں گے۔ لیکن اگر سیاسی پارٹیوں پر قابض خانوادے اپنی بے کنار دولت کو اچھالیں گے تو پورے ملک کے عوام رنجیدہ خاطر ہوں گے اور متنفر بھی! تجزیہ کرکے دیکھ لیجیے۔ پہلے تو میاں نواز شریف کا یہ انداز دیکھیے کہ عملاً ان کا وطن لندن ہے۔ شاید ایک آدھ عید کے سوا‘ جو مجبوراً پاکستان میں کرنا پڑی‘ وہ‘ کم و بیش‘ ہر عید پر لندن ہوتے تھے۔ صاحبزادوں نے برملا کہا کہ وہ برطانیہ کے شہری ہیں‘ ان پر پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جسے انگریزی میں At home کہتے ہیں‘ تو میاں صاحب لندن میں At home محسوس کرتے ہیں‘ پاکستان میں نہیں۔ پھر جب لوگ دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب خاندان کے ساتھ یورپ کی سیر کو گئے۔ اب سرجری کے لیے محترمہ مریم نواز کو برطانیہ بھی مناسب نہیں لگا‘ سوئٹزر لینڈ گئیں۔ تو عوام باپ بیٹی اور صاحبزادوں کے اس لائف سٹائل کو نوٹ کرتے ہیں۔ اس لائف سٹائل کا پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے آخر کیا تعلق ہے؟ عمران خان جب کہتا ہے کہ شریفوں کا جینا مرنا پاکستان سے باہر ہے تو یہ بات لوگوں کے دل پر اثر کرتی ہے۔ یہ اربوں کا نہیں کھربوں کا لائف سٹائل ہے۔ عمران نے کتنا پیسہ کمایا یا بنایا ہو گا؟ شریف خاندان کی دولت کے سامنے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں! محترمہ مریم نواز کے صاحبزادے کی شادی پر تبذیر کا جو انداز اپنایا گیا‘ اس کے پیش نظر یہ مناسب نہیں کہ وہ غریبوں کی بات کریں۔ زرداری خاندان کے پاس جتنی دولت ہے‘ اس کا بھی شمار نہیں مگر نمود و نمائش میں شریف خاندان اس سے بہت آگے ہے۔ زرداری نے‘ جو بھی حالات سامنے آئے‘ پاکستان کی زمین کو نہیں چھوڑا۔ میری چھٹی حس کہتی ہے کہ میاں نواز شریف اگر پاکستانی عدالتوں میں دائر مقدموں سے چھٹکارا پا بھی گئے تو پھر بھی رہیں گے لندن ہی میں۔ وہ اب وہیں کے طرزِ زندگی‘ وہیں کی شاپنگ اور وہیں کے ریستورانوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ صاحبزادوں کا بزنس بھی وہیں ہے۔
اب دوسرے پوائنٹ کو لے لیجیے۔ یہ خاندان پارٹیوں پر مارِ سرِ گنج کی طرح مسلط ہیں۔ زرداری صاحب کہہ چکے ہیں کہ بلاول وزیراعظم ہو گا۔ میاں صاحب کو پارٹی کی نائب صدارت کے لیے‘ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال تو دور کی بات ہے‘ شہباز شریف بھی منظور نہیں! انسان سوچتا ہے تو حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ یہ کیسے لیڈر ہیں؟ کیسے سیاستدان ہیں؟ اپنی اولاد کے علاوہ انہیں کوئی اور بندہ بشر نظر ہی نہیں آتا! جیسے پارٹی اور ملک پر ان کا اور ان کی ذریت کا حق مسلّمہ ہے!
یہ ہیں وہ وجوہ جن کی بنیاد پر عمران خان کی مقبولیت کم نہیں ہو رہی! جس سے بھی عمران خان کی کمزوریوں‘ غلطیوں اور سکینڈلز کا ذکر کریں‘ وہ جواب میں ایک ہی بات کہتا ہے ''آپ کو شریف اور زرداری نہیں نظر آتے؟‘‘ ایک صاحب سے بات ہو رہی تھی۔ ان سے کہا کہ عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں ہیلی کاپٹر سے آمد و رفت کا اتنا بوجھ قومی خزانے پر ڈالا۔ تنک کر کہنے لگے‘ آپ شریف خاندان کو ووٹ دیجیے گا جنہوں نے کروڑوں کی تو صرف چار دیواری رائے ونڈ کے محلات کے گرد قومی خزانے سے کھڑی کر دی اور کئی کئی محلات کو وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعلی ہاؤس قرار دے دیتے ہیں۔
مارے تو ہم جیسے لوگ گئے۔ ساری زندگی کسی کو ووٹ نہ ڈالا۔ سب سے مایوس ہو کر عمران خان کی طرف لپکے تھے۔ عمران خان کے دعوے اور عمل میں قطبین کا فرق دیکھ کر اب انہیں بھی ووٹ دینا کھلی خیانت لگتا ہے! تو پھر یہی ہے کہ پہلے کی طرح منہ سر چھپا کر کسی کونے میں بیٹھ جائیں۔ ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا! قارئین بھی سادہ دل ہیں۔ کہتے ہیں‘ ووٹ نہ ڈال کر آپ اپنے قومی فرض سے پہلو تہی کرتے ہیں! انہیں کون بتائے کہ قومی فرض یہ بھی تو کہتا ہے کہ اہل کو ووٹ دو! نا اہل کو نہ دو! رہی یہ تھیوری کہ کم تر برائی کو منظور کر لو! تو سوال یہ ہے کہ کیوں منظور کریں؟ برائی کم ہو یا کمتر ہو یا کمترین‘ برائی ہی تو ہے! کیا سانپ یا بچھو کے بڑا یا چھوٹا ہونے سے ان کے موذی پن میں فرق پڑے گا؟ ممکن ہے کمتر برائی والا نظریہ درست ہو مگر آنکھوں دیکھی مکھی کس طرح نگلی جا سکتی ہے؟ ڈاکو بڑا ہو یا چھوٹا‘ ڈاکو ہی ہے۔ کسی کو سب سے بڑا ڈاکو کہا جائے‘ پھر اس کے ساتھ یک جان دو قالب والا معاملہ کر لیا جائے تو مجھ جیسا کم عقل یہ بات نہیں سمجھ سکتا! ہاں! جو عقل مند ہیں‘ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ کسی کو بڑا ڈاکو کہہ کر اسے جپھی ڈال لینے میں دیانت اور سچائی کو کوئی گزند نہیں پہنچتا تو یہ ان کی اپنی سوچ ہے! میں‘ بشرطِ زندگی‘ ان تینوں پارٹیوں میں سے کسی کو ووٹ نہیں دوں گا! اس کے بجائے‘ اُس دن‘ لسّی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھاؤں گا۔ بستر پر نیم دراز ہو کر شفیق الرحمان یا مشتاق احمد یوسفی کو پڑھوں گا۔ پوتوں پوتیوں‘ نواسی اور نواسوں کو پارک لے جاؤں گا۔ کم از کم ضمیر کچوکے تو نہیں دے گا!!! کسی Nincompoopکو ووٹ دینا کون سا قومی فریضہ ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved