تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     12-01-2023

’میثاقِ پاکستان‘ کیوں ضروری ہے؟

اس بار دنیا نے کرم کیا اور ہمیں نظرِ التفات کا مستحق سمجھا۔ ہمارا کاسہ خالی نہیں رہا۔ اب اس میں کچھ پیسے ہیں‘ کچھ وعدے ہیں اور کچھ دعائیں۔ وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ یہ غیبی امداد ہے۔ گویا اسباب کی دنیا میں ایسے امکانات موجود نہیں تھے۔ خدا نے لوگوں کے دلوں کو ہمارے طرف پھیر دیا۔ انہوں نے ترس کھایا اور یوں امید کی کھیتی ایک بار پھر ہری ہو گئی۔ بجھتے چراغ جل اُٹھے۔
میرے لیے یہ طے کر نا مشکل ہے کہ یہ خوشی کا موقع ہے یا تاسف کا۔ اس پر رونا چاہیے کہ ہنسنا۔ یہ مری عزت افزائی ہے یا کسی نے میری برہنگی پہ چادر ڈالی ہے؟ اس سے ایک خود مختار اور باوقار ریاست کے تصور کو تقویت ملی ہے یا اسے دھچکا لگا ہے؟ میں اپنی سیاسی قیادت کی بصیرت کو داد دوں یا اس کا ماتم کروں؟ ایک مرثیہ لکھوں یا قومی ترانہ: ہم زندہ قوم ہیں۔ ہم پائندہ قوم ہیں...
یہ چھ سات ماہ کی کہانی نہیں ہے۔ ان مہینوں میں تو اس کا ایک باب لکھا گیا۔ یہ داستان تو برسوں سے مسلسل لکھی جا رہی تھی۔ تادمِ تحریر جو آخری باب رقم ہوا‘ اس میں یہی کچھ لکھا جا سکتا تھا کہ کہانی کسی اور طرح آگے بڑھ ہی نہیں سکتی تھی۔ داستان گو کا یہ کمالِ ہنر ہے کہ اس نے کہانی میں موجود امکانات کو ایک نکتے میں سمیٹ دیا تھا۔ دنیا کا بڑے سے بڑا افسانہ نگار اس کہانی کو کسی دوسرے نہج پر نہیں چلا سکتا تھا۔ کشکول اٹھانے سے پہلے‘ حمیت کو نیچے رکھنا پڑتا ہے کہ انسان کے ہاتھوں میں دونوں کو ایک ساتھ تھامنے کی سکت نہیں ہوتی۔
آج کوئی اور ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔ اس کے سوا راستہ تھا ہی نہیں۔ اسحاق ڈار صاحب نے چاہا کہ کہانی میں کوئی ڈرامائی موڑ آجائے۔ ان کی چاہت پوری نہ ہو سکی۔ پچھلے کئی مناظر سے اس کہانی کا مرکزی کردار کشکول بدست تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اگلے منظر میں اسے خلعتِ فاخرہ پہنا کر تخت پر بٹھا دیا جاتا۔ کہانی تسلسل مانگتی ہے۔ بصورتِ دیگر اس پر کہانی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ علامتی افسانے میں بھی ایک نظم ہوتا ہے۔ تجریدی آرٹ بھی معنویت رکھتا ہے۔ مضحکہ خیز تھیٹر (Theatre of the Absurd) میں بھی بین السطور ایک پیغام ہوتا ہے۔ حقیقی زندگی تو یوں بھی جبر سے عبارت ہے۔ کہانی نگار دیے گئے پلاٹ کا پابند ہوتا ہے۔
قومی قیادت کے سامنے آج سوال ایک ہی ہے: ملک کے مستقبل کو اگلے الیکشن کے تناظر میں دیکھنا ہے یا اگلی نسل کے حوالے سے؟ ایک 'میثاقِ پاکستان‘ کے تصور پر اتفاقِ رائے ناگزیر ہے۔ کم از کم پچیس سال کے لیے ایک معاشی و سماجی اصطلاحی منصوبے پر عمل کا عہدو پیمان۔ جو سیاسی جماعت الیکشن میں کامیاب ہو‘ وہ اس کو آگے بڑھانے کی پابند ہو۔ قلیل المدتی منصوبوں سے صرف گنے چُنے دن کاٹے جا سکتے ہیں‘ زندگی نہیں۔
معاشی اصلاح کا کوئی پروگرام کامیاب نہیں ہو سکتا جب کہ معاشرتی رویوں میں اصلاح نہ ہو۔ معاشرتی رویے ہمارے مذہبی و تہذیبی تصورات سے جڑے ہوئے ہیں۔ گویا ان پر بھی نظر ثانی ناگزیر ہے۔ ایک مثال سے بات واضح کرتا ہوں۔ معیشت کی اصلاح کے لیے پاکستان کے زرعی تشخص کو زندہ کرنا ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہے زرعی زمینوں کو رہائشی سکیموں اور لینڈ مافیا سے محفوظ کرنا۔ یہ تب ممکن ہوگا جب نئے گھروں کی طلب کم ہو۔ یہ طلب اسی وقت کم ہو سکتی ہے جب آبادی کم ہو۔ آبادی میں کمی کے لیے خاندان کی منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ یہ خاندان میں اضافے کے روایتی مذہبی تصورات کو بدلے بغیر ممکن نہیں۔ چین کی طرح پانچ دس سال کے لیے خاندانی تحدید کا قانون بنانا ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ معاشی سرگرمیوں کا پھیلاؤ اور نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ۔
یہ ایک مثال بتا رہی ہے کہ کوئی معاشی منصوبہ‘ کاغذ پر قابلِ عمل دکھائی دینے کے باوجود‘ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا اگر اس کی پشت پر سماجی اصلاحات نہ ہوں۔ یہ اصلاحات ہو نہیں سکتیں جب تک ہمارے مذہبی اور سماجی خیالات تبدیل نہ ہوں۔ پھر یہ کہ یہ نتیجہ خیزی اسی وقت ممکن ہے جب اس پالیسی میں تسلسل ہو۔ اس تسلسل کی ضمانت تب ملے گی جب سیاسی قیادت اس پر متفق ہو اور وہ زبانِ قال ہی سے نہیں‘ زبانِ حال سے بھی اسے قبول کرنے کا اعلان کرے۔
زندگی ہو یا سماج‘ اسے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اصلاح کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا اگر اس کا دائرہ محض ایک شعبۂ حیات تک محدود رہے۔ یورپ اور چین میں سماجی تشکیلِ نو اِسی وقت ممکن ہوئی جب سماج کا پورا ڈھانچہ تبدیل ہوا۔ کسی اصلاحی پروگرام پر اجماع ممکن نہیں ہوتا۔ اس پر عمل کے لیے بڑے پیمانے پر اتفاقِ رائے کافی ہوتا ہے۔ یہ اتفاق عام طور پر سول سوسائٹی یا پھر ریاست کا کوئی ادارہ پیدا کرتا ہے‘ اگر عوام کی نظروں میں اس کا کوئی وقار ہو۔ جمہوری معاشروں میں یہ کام پارلیمان کرتی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پارلیمان ادھوری ہے اور ریاست کا کو ئی ایسا ادارہ نہیں ہے جس پر سب کو بھروسا ہو۔
میرا خیال ہے کہ اس بارے میں حکومت کو پہل کرنی چاہیے۔ وہ پہلے مرحلے میں قوم کے سامنے سماجی و معاشی اصلاح کا ایک جامع منصوبہ رکھے اور دوسرے مرحلے میں اس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ حکومت میں ملک کی اکثر جماعتیں موجود ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی اس کے تعلقات دوستانہ ہیں۔ وہ سول سوسائٹی کو بھی ساتھ ملا سکتی ہے۔ تحریکِ انصاف کو بھی دعوت دینی چاہیے کہ وہ اس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ساتھ دے۔
اس کی حکمتِ عملی یہ ہونی چاہیے کہ حکومت ایک منصوبہ قوم کے سامنے رکھے اور پھر اس پر مشاورت کا آغاز کرے۔ مختلف طبقاتِ زندگی کے نمائندوں سے کہا جائے کہ وہ اگر اس منصوبے کے کسی حصے سے اختلاف کرتے ہیں تو اس کی نشاندہی کریں اور اصلاح کے لیے متبادل تجاویز سامنے لائیں۔ یہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا فطری طریقہ ہے۔ تحریکِ انصاف اگر اس مشاورت میں شریک نہ ہو تو اسے چاہیے کہ قوم کے سامنے کوئی متبادل منصوبہ رکھے۔
حکومت میڈیا اور رائے عامہ کے دوسرے ریاستی اور سماجی اداروں کو اعتماد میں لے کہ وہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں حکومت کی معاونت کریں۔ یہ لازم نہیں کہ حکومت کے منصوبے کو پوری طرح قبول کر لیا جائے۔ اس میں ایسی ترامیم ہو سکتی ہیں جن سے زیادہ لوگ اتفاق کرتے ہوں۔ اگر یہ مشق نتیجہ خیز نہ ہو تو پھر میری تجویز ہوگی کہ اس پر عدلیہ سے درخواست کی جائے اور اس کی منظوری سے ریفرنڈم کرایا جائے۔
اس کا احساس لازم ہے کہ خرابی قومی وجود کے رگ و پے میں سرایت کر چکی اور اصلاح کے لیے ہمارے پاس کوئی حل موجود نہیں۔ اس وقت ڈوبتی معیشت کو بچانا فوری ضرورت ہے جس کے لیے قرض اور امداد لی جا رہی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ بات واضح ہو چکی کہ اس پالیسی کا مزید جاری رکھنا اب ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہم چند سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرنا۔ اس کے لیے ایک 'میثاقِ پاکستان‘ لازم ہے جس پر قومی اتفاقِ رائے ہو۔
اصلاحات کے ہمہ جہتی پروگرام کو کسی وقتی مصلحت کے پیشِ نظر اگر مزید ٹالا گیا تو ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ مستقل کاسہ برداری‘ خانہ بدوشی میں تو ممکن ہے‘ مستقل بستیوں میں نہیں۔ وقت مُصر ہے کہ وہ اب یہ بات بزور منوائے۔ یہ اب ہم پہ ہے کہ ہم اس بات پر کان دھرتے ہیں یا خانہ بدوشی کے لیے تیار ہوتے ہیں‘ جو نوشتۂ دیوار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved