تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     12-01-2023

جنیوا کانفرنس اور پاکستانی سیاست

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد جنیوا میں ہونے والی عالمی ڈونرز کانفرنس میں 9 ارب ڈالر سے زائد کی کمٹمنٹ روشنی کی ایک کرن ہے جو سیلاب متاثرین کیلئے آس اور امید کا سبب بن سکتی ہے۔ ہمارے قائدین اور رہنماؤں سے بہتر تو یہ غیر ممالک اور عالمی ایجنسیاں نکلیں جنہوں نے پاکستانیوں کے اس درد کو سمجھا‘ ورنہ ہمارے ملک میں تو سیلاب متاثرین کا نام لیوا بھی کوئی نہ بچا تھا۔ یونیسف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اب بھی 40لاکھ بچے سیلاب کے کھڑے پانی کے پاس رہنے پر مجبور ہیں‘ وہ اس ٹھٹھرتے موسم میں کھلے آسمان یا خیموں کے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ جو بیک وقت سردی‘ بھوک اور بیماریوں سے لڑنے پر مجبور ہیں لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ ان غریب پاکستانیوں کے مسائل سے قطع نظر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ آپ نے آخری دفعہ کس پاکستانی سیاستدان کے منہ سے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے آگے بڑھنے کی اپیل سنی؟ جب سیلاب آیا تو ہمدردی کا ایک وقتی ابال اٹھا‘ لوگوں نے دل کھول کر مدد بھی کی لیکن پھر یہ سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ سسکتی ہوئی انسانیت کے بجائے ہماری ترجیح اقتدار اور اپنا پیٹ پالنا رہ گیا ہے۔ کیسے اقتدار میں آیا جائے‘ کیسے سیاسی مخالفین کو زچ کیا جائے‘ اسمبلی کیسے توڑی جائے‘ ملک میں عدم استحکام کیسے لایا جائے‘ مخالفین کو اندر کیسے کیا جائے‘ مرضی کی تعیناتیاں کیسے کی جائیں۔ اس سے زیادہ ہمارے سیاسی قائدین کا نہ وژن ہے اور نہ ہی ذہنی استعداد۔ عام شہریوں کو تو چھوڑ ہی دیں‘ جب آپ نے انہیں آٹے جیسی بنیادی ضرورت کے لیے گھنٹوں لائنوں میں کھڑا رکھنا ہے‘ بے روزگاری اور مہنگائی عام کرنی ہے‘ گیس اور بجلی کو خواب و خیال بنا دینا ہے تو وہ بیچارا تو ویسے ہی گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہا ہے‘ اس نے کسی کی مدد کیا کرنی ہے؟
اپنوں سے بہتر تو پھر غیر ہیں‘ جنہیں انسانیت اور پاکستانیوں کی زیادہ فکر ہے۔ پاکستان کو عالمی برادری کی جانب سے پیسہ دینے کی جو کمٹمنٹ دی گئی ہے‘ اس میں سے زیادہ تر مالیاتی ایجنسیوں کی جانب سے کی گئی جو قریباً آٹھ اعشاریہ سات ارب ڈالر بنتی ہے‘ جو اگلے تین برسوں میں مہیا کی جائے گی اور اس میں امداد کتنی ہو گی اور قرضے کتنے‘ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے ایک بار پھر دوست ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے اور سعودیہ نے پاکستان کے سٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر بڑھا کر اب پانچ ارب ڈالر رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے‘ جس کے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان میں 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر بھی غور شروع کردیا ہے۔ بہرحال‘ اس تمام تر امداد اور انویسٹمنٹ کا ہماری معیشت پر کتنا اثر پڑے گا‘ اس پر دو آرا موجود ہیں۔ حکومتی زعما کا خیال ہے کہ اس سے ملکی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور رُکا ہوا معیشت کا پہیہ کسی حد تک دوبارہ چل پڑے گا اور آئی ایم ایف بھی پاکستان کو اگلی قسط بہ آسانی دینے پر راضی ہو جائے گا۔ دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ ان عالمی وعدوں سے آپ کے ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سٹیٹ بینک نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے دو بینکوں کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ لوٹایا ہے جس کے بعد ہمارے ذخائر محض ساڑھے چار ارب ڈالر رہ گئے ہیں‘ اس لیے ہمیں مسائل سے بچنے کے لیے فوری طور پر ڈالرز کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت صرف آئی ایم ایف کی اگلی قسط ہی پوری کر سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے ساتھ سیلاب زدگان کی مدد کے جو وعدے کیے گئے ہیں‘ وہ بھی اسی صورت میں عملی شکل اختیار کریں گے جب پاکستان آئی ایم ایف سے تعلقات بہتر کرے گا۔ ماہرین معیشت اور حکومتی عہدیداروں کا بھی یہ ماننا ہے کہ جب تک آئی ایم ایف نہیں کہے گا‘ ہمارے دوست ممالک بھی ہماری مدد کو آگے نہیں بڑھیں گے۔ فرانس اور کئی مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے وفود نے جنیوا کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر پاکستان پر زور دیا کہ وہ جلد آئی ایم ایف کے معاشی ریفارمز کے مطالبے کو مانے تاکہ آئی ایم ایف اگلی قسط جاری کرے۔ اس سے پاکستان کے پاس بھی اتنے پیسے ہوں گے کہ وہ سیلاب زدگان کی اپنی جیب سے مدد کرنے کے قابل ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان سے جن 9.7 ارب ڈالرز کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بھی آئی ایم ایف کے پروگرام سے مشروط ہے۔ دنیا آپ کو اس شرط پر پیسے نہیں دے گی کہ آپ اپنی جیب سے اپنے ملک کیلئے‘ متاثرین کیلئے کچھ نہ کریں اور باقی سب سے پیسے جمع کرتے پھریں۔
ان حقائق کو سامنے رکھیں تو مسائل گمبھیر ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے درخواست کی ہے کہ پاکستان کی تعمیر نو جاری ہے‘ کم از کم اس دوران اپنی شرائط مثلاً سنگل ایکسچینج ریٹ‘ بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے کے علاوہ ٹیکس بڑھانے کی شرط کو مؤخر کریں تاکہ سیلاب متاثرین کی مدد کی جا سکے‘ لیکن مالیاتی اداروں کے سینوں میں دل نہیں ہوتا‘ وہ کاروبار کرتے ہیں‘ خیرات یا خدا واسطے کام نہیں کرتے۔ اس لیے آئی ایم ایف کو اپنے مؤقف سے ہٹانا مشکل ہے‘ خاص طور پر اسحاق ڈار نے وزارت سنبھالنے کے بعد جس طر ح آئی ایم ایف کو ڈیل کیا‘ اس سے دونوں فریقوں میں بداعتمادی عود کر آئی۔ دوسری جانب مفتاح اسماعیل‘ جنہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سخت فیصلے کیے‘ وہ ڈار صاحب کی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں جس سے ملکی معاشی استحکا م پر بُرا اثر پڑا ہے۔ سونے پر سہاگا‘ ڈار اور مفتاح کی لڑائی روکنے میں (ن) لیگ کی قیادت نے خاص دلچسپی نہیں دکھائی‘ جس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ مفتاح‘ شہباز شریف کی چوائس تھے اور ڈار صاحب نواز شریف کی۔ حکومت اب بھی سمجھتی ہے کہ مفتاح ہوتے تو نویں جائزے کے بعد آئی ایف ایم سے قسط کب کی مل چکی ہوتی اور اب 10ویں جائزے پر مذاکرات جاری ہوتے۔ مگر نواز شریف کو لگتا ہے کہ ان کے سمدھی معاشی جادوگر ہیں اور ملک کو مسائل سے ویسے ہی نکال لیں گے جیسے انہوں نے 1998ء کے ایٹمی دھماکوں اور پھر 2013ء کے خراب حالات میں سنبھال لیا تھا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معیشت کو ڈار صاحب چلائیں یا مفتاح اسماعیل‘ جب تک یہ لوگ ملک کو معاشی ریفارمز کی طرف نہیں لے جائیں گے‘ تب تک نہ عالمی قوتیں ہماری مدد کو آئیں گی اور نہ ہی ہم خود اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں گے۔ اس لیے ان عالمی وعدوں کو غنیمت جانیں اور اپنا گھر ٹھیک کریں تاکہ اس امداد کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved