امداد؛ میں تو اس لفظ پر احساسِ شرمندگی کے باوجود اسے اچھی خبر ہی کہوں گا کہ مالدار دنیا نے ہمارے لیے ساڑھے نو ارب ڈالر سے زائد کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ جنیوا ڈونرز کانفرنس میں متمول ممالک نے جن رقموں کے وعدے کیے ہیں‘ ان کی مجموعی مالیت تقریباً 11ارب امریکی ڈالر ز کے لگ بھگ بنتی ہے۔ سرکاری حلقوں کے مطابق اس کانفرنس میں آٹھ ارب ڈالرز امداد کی امید کی جا رہی تھی جبکہ رقم ا س سے زیادہ ملی ہے۔ اب یہ باتیں مسلسل گردش میں ہیں کہ یہ رقوم‘ جن کے وعدے کیے گئے ہیں‘ قرض کی کوئی نئی صورت ہے‘ یا امداد؟ وفاقی وزرا کہہ رہے ہیں کہ یہ قرض نہیں‘ امداد ہے‘ تو گویایہ رقم واپس نہیں کرنی پڑے گی۔ سرکاری حلقے‘ جن میں پی ڈی ایم کی مرکزی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی زیادہ فعال ہیں‘ اسے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دے چکی ہیں اور بیانات کا وہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو ایسی صورتوں میں ہوا کرتا ہے۔ حسبِ توقع وزیراعظم اور دیگر وزیروں نے اس کانفرنس کو اتحادی حکومت کی بڑی کامیابی اور اس پر دنیا کے اعتماد کی دلیل بتایا ہے۔ دوسری طرف شیریں مزاری اسے ناکام قرار دے کر کانفرنس میں حاضری کو مایوس کن بتا چکی ہیں۔ مخالفین نے کہنا شروع کردیا ہے کہ رقم تو بعد میں ملے گی‘ ابھی سے اتحادی جماعتوں نے بندر بانٹ طے کرنی شروع کر دی ہے۔ جواب در جواب کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو ابھی چلتا رہے گا۔ ہم یہ بیانات پڑھتے رہیں گے اور حسبِ معمول فیصلہ نہیں کر پائیں گے کہ زیادہ بڑا جھوٹا کون ہے۔ ہمیں کنگلے پن کے اس حال تک پہنچانے میں جن کا سب کیا دھرا ہے‘ وہی ہمارے کرتا دھرتا ہیں اور یہی ہمارا مقدر ہے۔
ذرا ایک نظر ان وعدوں پر ڈال لیں۔ سب سے بڑی رقم کا وعدہ اسلامی ترقیاتی بینک نے کیا ہے جس کے مطابق تین سال کے اندر 4.2ارب ڈالرز دیے جائیں گے۔ عالمی بینک نے دوارب ڈالرز کا وعدہ کیا۔ یورپی یونین نے 97ملین ڈالر‘ امریکہ نے 100ملین ڈالرز‘ فرانس نے 408 ملین ڈالرز‘ برطانیہ نے 43.5ملین ڈالرز‘ جرمنی نے 90ملین ڈالر‘ جاپان نے 77ملین ڈالرز‘ چین نے 100ملین ڈالرز‘ سعود عرب نے ایک ارب ڈالرز‘ ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے ایک ارب ڈالرز اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 500ملین ڈالرز کے وعدے کیے ہیں۔ سعودی ولی عہد کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری 10 ارب ڈالرز تک بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔ کانفرنس میں وعدوں کی رقوم کب اور کس ترتیب سے ملنی شروع ہوں گی‘ یہ تفصیل ابھی سامنے نہیں آئی۔اُدھر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے سعودی عرب اور امارات کا دورہ کیا ہے۔ وہ ماضی میں سعودی عرب میں کافی وقت گزار چکے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ عربی دان ہونے کے ساتھ سعودیہ میں اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ تو کیا سعودی عرب کی یہ نئی امداد انہی کے دورے کے ثمرات ہیں؟ باجوہ صاحب تو علی الاعلان کہا کرتے تھے کہ میں نے سعودی عرب اور امارات سے عمران حکومت کی فلاں فلاں مالی مدد کروائی‘ جبکہ اب صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔
کانفرنس کی طرف ہی لوٹتے ہیں۔ جیسا کہ سب کو علم ہے یہ امداد پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالنے کے لیے نہیں بلکہ اس قدرتی آفت اور اس کی تباہ کاریوں پر قابو پانے کے لیے ہے‘ جسے سیلاب کہتے ہیں۔ 2022ء کے مون سون میں پاکستان بد ترین سیلاب سے گزرا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد متاثرین میں شامل تھے۔ 1700سے زیادہ لوگ جانوں سے گئے اور ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے۔ سندھ اور بلوچستان میں اب بھی لاکھوں انسان کھلے آسمان تلے یا خیموں وغیرہ میں رہنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان نے جنیوا کانفرنس میں اس تباہی سے بحالی کے لیے 16.3 ارب ڈالرز کا تخمینہ پیش کیا تھا۔ 40سے زیادہ ممالک‘ مخیر افراد اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے لوگ اس میں شریک تھے۔
حکومت اور اس کے ادارے خواہ کتنا ہی اس کا کریڈٹ لیں‘ سچ یہ ہے کہ کریڈٹ صرف پاکستانیوں کو جاتا ہے جنہوں نے اس آزمائش میں اپنے بھائیوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا اور ہر طرح سے ان کی مدد کے لیے پہنچ گئے۔ یہ جذبہ سب نے دیکھا۔ پاکستانیوں کے بعد اگر کسی کو کریڈٹ جاتا ہے تو وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کو‘ جو اس آفت کے موقع پر پاکستان پہنچے تھے اور تمام دنیا کی توجہ اس طرف دلائی تھی۔ اس طرح دل کھول کر بات کرنے والے کم کم لوگ ہوتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے دورے پر بھی یہی کہا تھا اور بعد میں بھی کہ پاکستان دہری مشکل میں گھرا ہوا ملک ہے۔ ایک طرف یہ قدرتی آفت‘ جو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے اور جس کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے‘ اور دوسری طرف عالمی مالیاتی نظام کی ناکامی۔ پاکستان ہرگز اس کا حق دار نہیں ہے کہ وہ یہ سب بھگتے۔
ماحولیاتی تبدیلی کی وجوہات میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن وہ ان دس ممالک میں شامل ہے جو اس تبدیلی کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ پاکستان نے دنیا کے سامنے اپنا 4RFپروگرام رکھا ہے۔ یعنیResilient Recovery, Rehabilitation, and Reconstruction Framework پروگرام۔ اور وزیراعظم شہباز شریف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم یہ اکیلے نہیں کر سکتے۔ تکلیف تو ہوتی ہے یہ سوچ کر اور شرمندگی اس سے بھی زیادہ کہ ہمیں ایسی ناگہانی آفا ت پر ہر بار دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی یہ سیلاب ایسے موقع پر آیا ہے جب پاکستان معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ اور اسے زرِمبادلہ کی ایسی ضرورت ہے جیسی پیاسے کو پانی کی۔ اس لیے کم از کم یہ ضرور ہوگا کہ حکومت کو کچھ سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ اور ڈالر کا ریٹ بھی نیچے آنے کا بہت امکان ہے۔
امداد دینے والے آڈٹ کا بھی اہتمام کر رہے ہیں اور حکومت نے بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ کی بات کی ہے تاہم یہ فنڈز تقسیم کس طرح ہوں گے۔ اور ان کی نگرانی کیسے ہوگی۔ کیا ویسے ہی جیسے اب تک ہوتی آئی ہے؟ اور جس نگرانی کے ہوتے ہوئے خاص طور پر اندرونِ سندھ کے چھوٹے کیا‘ بڑے شہر تک جنگ زدہ علاقوں کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ تو کیا یہ پیسہ واقعی ضرورت مندوں اور مواصلاتی نظام کی بحالی پر خرچ ہو سکے گا؟ سندھ حکومت پر خاص طور پر سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ وہاں فنڈز بہت خورد برد کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں بہت بدنصیبی ہوگی کہ یہ پیسہ بھی اسی نظام کی جیب اور پیٹ میں چلا جائے اور اس امداد سے ان علاقوں کی قسمت نہ بدل سکے۔
امداد کا لفظ ہی شرمندہ کردینے والا ہے۔ کوئی بات اسے کم کرتی ہے تو وہ پاکستانیوں کا فلاحی اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ یہ مناظر ہم نے ہی نہیں‘ پوری دنیا نے بار بار دیکھے ہیں۔ کوئی شک نہیں اور یہ بات قابلِ فخر ہے کہ 2005ء کا زلزلہ ہو یا 2022ء کا سیلاب یا دیگر آزمائشیں‘ پاکستانی قوم نے ہمیشہ اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنوں کی تکلیف کے ازالے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ کوئی بھی آفت آن پڑے‘ جتنی فلاحی رفاہی تنظیمیں‘ افراد ہمارے بیچ ہیں‘ ان سب کا مرکز و محور وہ آفت زدہ علاقہ بن جاتا ہے۔ اور صرف پاکستان ہی کی بات نہیں‘ پاکستانیوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ہمیشہ دنیا بھر میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی ہے۔ اس لیے جنیوا کانفرنس کے بارے میں سچ یہ ہے کہ دنیا کے امداد کرنے والوں نے پاکستان کے امداد کرنے والوں کا ہاتھ تھاما ہے۔ اور مصیبت میں ہاتھ تھامنے والوں کا شکریہ ادا نہ کیا جائے تو اسے احسان فراموشی کہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved