تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     12-01-2023

کچھ بھی اچھا نہیں ہے!

ملکی حالات کا جائزہ لیں تو کسی کے لیے بھی اِس میں حیرت کا عنصر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دہائیوں سے جو کھلواڑ اِس ملک کے ساتھ ہوتا رہا ہے‘ اُس کا حتمی نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ داخلی اور خارجہ سطح پر مسائل میں اتنا اضافہ ہوچکا ہے کہ بہتری کی اُمیدیں تک دم توڑتی چلی جارہی ہیں۔ اُس کولے آؤ‘ اُس کو گھر بھیج دو‘ کے کھیل نے سب کچھ اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے اور آج مسائل ہیں کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہے۔ ایک ایٹمی طاقت چندارب ڈالر کی خاطر پوری دنیا کے دروازے کھٹکھٹارہی ہے۔ آج جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمارا کوئی ایک بھی ہمسایہ ہم سے خوش نظر نہیں آتا۔ اگست 2021ء سے کابل میں طالبان کی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں کے دوران دہشت گردی کے عفریت میں مزید تیزی آئے گی جس کا سدباب کرنے کے لیے نئے آپریشن کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ دریں حالات پاکستان اور افغانستان کے رہنماؤں کے بیان بازی کے سلسلے نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کے بیانات نے افغان حکومت کو سیخ پا کردیا ہے۔ وزیردفاع کی طرف سے قرار دیا گیا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ افغان حکومت کی طرف سے اِس بیان کا مطلب یہ لیا گیا ہے کہ اگر کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی آپریشن ہوا تو ممکنہ طور پر افغانستان کے اندر بھی کارروائی کی جاسکتی ہے جس طرح کی کارروائی اس سے قبل عمران خان کے دورِحکومت میں کی گئی تھی۔ اِسی تناظر میں افغان حکومت نے اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اِن دنوں ایک افغان طالبان رہنما‘ جنرل مبین کی ایک وڈیو وائرل ہے جس میں وہ خصوصی طور پر وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری سے متعلق انتہائی متنازع زبان استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں ممالک کے اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے جسے بہرصورت تشویش ناک قرار دیا جاسکتا ہے۔ تعلقات کی یہ بگڑتی ہوئی صورت نئے مسائل کو جنم دے گی۔ گویا پہلے سے بے شمار مسائل کے شکار ہمارے ملک کے لیے مزید سنگین نوعیت کے مسائل پید اہوسکتے ہیں۔ مغربی سرحد پر ایران کے ساتھ بھی معاملات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔
داخلی محاذ پر دیکھا جائے تو ہرطرف مایوسی کی کیفیت واضح طور پر نظرآرہی ہے۔ حکومت بنانے اور گرانے کے کھیل کے باعث ہمارا ملک انتہائی سنگین مسائل میں گِھر چکا ہے۔ سب سے بڑ ا خطرہ تو ڈیفالٹ کی صور ت میں ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ایک مرتبہ پھر یقین دلایا ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا یا ہے، نئی پالیسیوں کے باعث حساباتِ جاریہ کے کھاتوں کے خسارے میں 57 فیصد اور تجارتی خسارے میں 26.2 فیصد کی نمایاں کمی آئی ہے۔ اگر حکومتی دعوے کے مطابق تجارتی خسارے میں نمایاں کمی آئی ہے تو اِسے یقینا اچھی علامت قرار دیا جائے گا کیونکہ تجارتی خسارے میں اضافہ معیشت کے لیے خطرناک ہوتا ہے اور یہ خسارہ جاری کھاتوں کے خسارے کو بڑھا کر شرحِ مبادلہ پر انتہائی منفی اثر ڈالتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ خوردنی تیل، جان بچانے والی ادویات، ضروری طبی سامان اور دیگر اہم اشیا کی درآمد پر پابندیاں کب تک لگا کر رکھی جا سکتی ہیں؟ امپورٹ بل کم کرنے کی خاطر لگائی گئی یہ پابندیاں ایک نئے بحران کو دعوت دے رہی ہیں۔ البتہ ان حالات میں سعودی عرب اور چین سے اچھی خبریں ملنے کی نوید سنائی گئی ہے۔ موجودہ سخت معاشی حالات کے لیے حسبِ روایت ایک مرتبہ پھر سابق حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر معاشی حالات میں نمایاں بہتری آ رہی ہے تو معاشی اشاریے اِس طرف اشارہ کیوں نہیں کر رہے۔ گزشتہ سال کے اختتام پر ہونے والا پانچ سالہ کرنسی ڈیفالٹ سویپ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ 75 فیصد کی سطح تک جا پہنچا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ آئندہ چند ماہ کے دوران بیرونی ادائیگیوں کی مد میں کم از کم 30 ارب ڈالر جو ادا کرنے ہیں‘ اِن کا انتظام کیسے ہو گا؟ مان لیتے ہیں کہ حکومت ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لے گی لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ جس ملک نے آئندہ چند ماہ میں 30 ارب ڈالر کے قریب ادائیگیاں کرنی ہوں اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے چار ارب ڈالر ہوں‘ وہ اتنی بڑی ادائیگیوں کا بندوبست کہاں سے کرے گا۔ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ اس وقت زرمبادلہ کے نام پر جو چند ارب ڈالرز موجود ہیں‘ اُن کا بڑا حصہ بھی سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے اِس شرط پر ملا تھا کہ یہ خرچ نہیں کیے جائیں گے۔ بہرحال ایک اُمید اب بھی باقی ہے کہ پاکستان اپنی پچھتر سالہ تاریخ میں کبھی ڈیفالٹ نہیں ہوا‘ حالانکہ کئی مواقع پر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اِس سے بھی کم رہے‘ لہٰذا اب بھی کوئی امداد میسر آ جائے گی، دوسری توقع یہ ہے کہ جو قرضے ادا کرنے ہیں‘ وہ رُول اوور ہوجائیں گے، یعنی اِن کے ادا کرنے کی مدت میں اضافہ ہوجائے گا۔
قصہ مختصر یہ کہ خطرات کی موجودگی کے باوجود چاہے ڈیفالٹ نہ ہو‘ تو بھی اپنے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ہمیں طویل عرصہ درکار ہوگا۔ وہ بھی اِس صورت میں جب نیک نیتی سے سارے کام کیے جائیں۔ خدا کرے کہ یہ عرصہ اُتنا طویل نہ ہو کہ جتنے عرصے سے ملک کو لُوٹا جارہا ہے۔ بات تو تلخ ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہاں ہرکسی کا دامن داغدار دکھائی دیتا ہے‘ چاہے اُس کا تعلق خواص سے ہو یا عوام سے۔ ہرکوئی اپنی اپنی سطح پر مفادات کا کھیل کھیل رہا ہے اور ہر خرابی کے لیے دوسروں کو موردِا لزام ٹھہرا رہا ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی ہمارا شمار دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں ہوتا ہے‘ تو حالات کا یہ موجودہ رخ اختیار کرنا‘ کیا اچنبھے کی بات ہے؟ دیکھا جائے تو ملک کی یہ حالت چند ایک دہائیوں کے دوران نہیں ہوئی بلکہ اِ س کے لیے ہمیں پچھتر سالوں تک ''سخت محنت‘‘ کرنا پڑی ہے اور ہر کسی نے اس میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالا ہے، بھلے آج اِس کا سارا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جگہ جگہ روتے‘ بلکتے افراد اپنی محرومیوں کے بار ے میں بات کر رہے ہیں جن کی بے بسی اُن کے لہجوں سے ٹپک رہی ہے۔ کہیں بھی چلے جائیں‘ صرف مہنگائی اور بس مہنگائی کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ انصاف ہے تو اُس کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ عدالت نے 1944ء میں شروع ہونے والے اراضی کے ایک کیس کا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالتوں‘ کچہریوں میں چلے جائیں تو سائلین کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں بچا جو تنزلی کا شکار نہ ہو لیکن دعوے اور باتیں سنیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم جیسی شاندار قوم روئے زمین پر کوئی دوسری نہیں۔حقیقت کے منافی ایسی باتیں سنا سنا کر ہی ہماری کچھ ایسی برین واشنگ ہوئی ہے کہ ہم خود کو دنیا بھر سے برتر سمجھنے لگے ہیں۔ سب کچھ ہرا دیکھنے کی عادت نے آج ہمیں اِس حال کو پہنچا دیا ہے کہ خارجہ محاذوں سے کوئی خیر کی خبر آتی ہے نہ داخلی طور پر کہیں سے سکون کا سانس نصیب ہوتا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ جہاں طاقتور اشرافیہ کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ قانون ہو‘ وہاں یہ سب کچھ ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ آج نہیں تو کل‘ حالات اس نہج تک آنا ہی تھے۔ اس کے باوجود ذمہ داران اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ اب بھی اپنی غلطیوں کا بوجھ دوسروں پر لاد پر رہے ہیں۔ سیاسی ایوانوں پر ایک نظر ڈال کر دیکھ لیں، کیا کہیں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اُس ملک کے سیاسی ایوان ہیں جس کے دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم جھوٹی باتوں سے دل بہلانے کے بجائے حقیقت کا ادراک کریں؟کچھ تو ایسا کرجائیں گے کہ آنے والی نسلوں کی لعن طعن سے بچنے کا کچھ سامان ہوسکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved