کون سی چیز ہمیں جگاتی ہے، کسی بھی خطرے سے آگاہ کرتی ہے؟ ماہرین کی زبان میں کہیے تو ESP یعنی حواسِ خمسہ سے بالا واقع ہونے والا اِدراک۔ عمومی زبان میں کہیے تو چھٹی حِس۔ چھٹی حِس کیا ہے؟ یہ کچھ ہوتی بھی ہے یا نہیں؟ چھٹی حِس کسی ظاہری حِس کا نام نہیں بلکہ پانچ حواس (دیکھنا، سننا، سُونگھنا، چکھنا اور چھونا) کی مدد سے ماحول کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات کے تجزیے کی شکل میں رونما ہونے والا نتیجہ ہے۔ ہم جو کچھ بھی دیکھتے، سنتے، چھوتے، سونگھتے اور چکھتے اُس کے تجزیے کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ یہ رائے اس بات کا اظہار ہوتی ہے کہ ہم نے حواسِ خمسہ کی مدد سے جو کچھ جانا ہے اُسے کس حد تک سمجھا ہے۔ انسان حواسِ خمسہ کی مدد سے حاصل ہونے والی معلومات کے تجزیے کی بنیاد پر جو نتیجہ اخذ کرتا ہے وہی اُس کی فکری ساخت کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہم حواسِ خمسہ سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد ہی پر تو سوچتے ہیں۔
تو پھر چھٹی حِس؟ چھٹی حِس اصلاً نہیں ہوتی۔ انگریزی میں اِسے extra- sensory perception یعنی حواسِ خمسہ سے بالا پایا جانے والا ادارک کہتے ہیں۔ یہ ادراک انسان کے لیے ویک اَپ کال کی طرح ہوتا ہے یعنی اِس کی بنیاد پر انسان کو چوکس ہونا پڑتا ہے۔ جب ہم کسی اجنبی ماحول میں ہوتے ہیں تب چھٹی حِس ہمیں بتاتی ہے کہ وہاں کوئی خطرہ بھی ہوسکتا ہے اس لیے احتیاط برتی جائے، ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھا جائے۔ گویا چھٹی حِس اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے جس کی مدد سے ہم کسی بھی پریشان کن صورتِ حال سے نمٹنے کی تیاری کرتے ہیں یا پھر کسی مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے ہی اُس کے بارے میں کوئی نہ کوئی اندازہ قائم کرلیتے ہیں۔ انسان اگر اپنے ماحول پر اچھی نظر رکھتا ہو، معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہو، دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہو، اپنے آپ کو دوسروں کے لیے زیادہ قابلِ قبول بنانے کی کوشش کرتا ہو، ماحول کے تقاضوں کو نبھانے پر متوجہ رہتا ہو تو بہت کچھ بہت تیزی سے سمجھ سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کس بات سے کیا سمجھنا چاہتے ہیں یا کیا سمجھ سکتے ہیں۔ ماحول ہمیں بہت سے معاملات میں بہت کچھ بتا رہا ہوتا ہے مگر ہم پوری طرح متوجہ نہیں ہوتے۔ اِس کے نتیجے میں ہم بروقت اور درست فیصلے بھی نہیں کر پاتے۔ ماحول میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات اور معاملات ہمیں کچھ نہ کچھ بتاتے ہیں۔ جن باتوں کا تعلق ہماری ذات سے ہو اُنہیں تو ہم آسانی سے شناخت کرلیتے ہیں مگر جب کوئی معاملہ بظاہر سب کا محسوس ہوتے ہوئے بھی اپنا معلوم نہ ہو رہا ہو تب ہم خاطر خواہ حد تک متوجہ نہیں ہو پاتے۔ اب افلاس ہی کو لیجیے۔ کسی بھی ماحول میں پایا جانے والا افلاس عمومی سطح پر مایوس کن ثابت ہوتا ہے۔ کوئی بھی افلاس کو پسند نہیں کرتا۔ سبھی تونگری چاہتے ہیں۔ مادّی خوش حالی یا آسودگی کسے پسند نہیں ہوتی یا کس کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہوتی؟ سبھی تو یہ چاہتے ہیں کہ اِتنی دولت میسر ہو کہ کچھ کرنا ہی نہ پڑے۔ کم و بیش ہر انسان کا بنیادی مزاج یہ ہے کہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ مل جائے اور یوں ہاتھ پیر ہلانے کے بارے میں سوچنا بھی نہ پڑے! ایسے میں افلاس کو بھلا کون پسند کرے گا، اور کیوں؟ کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ افلاس در حقیقت ہے کیا؟
جرمن کہاوت ہے کہ افلاس چھٹی حِس ہے۔ غور کیجیے تو حقیقت یہی ہے۔ کسی بھی انسان کو صرف اور صرف مشکلات ہی کچھ نیا، کچھ زیادہ کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔ جب سب کچھ اچھا چل رہا ہو تب انسان کو کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ تونگری کی حالت میں انسان مطمئن ہو رہتا ہے۔ یہ اطمینان دھیرے دھیرے اُس کی خوش حالی کو کمزور کرتا جاتا ہے۔ اِس کا علم البتہ دیر سے ہو پاتا ہے۔ ہر اعتبار سے خوش حالی کی کیفیت انسان کو مجموعی طور پر بدمست سا کردیتی ہے۔ ایسے میں وہ کسی بھی حوالے سے کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ انسان کو کچھ بھی نیا اور زیادہ کرنے کی ضرورت کب محسوس ہوتی ہے؟ مشکل لمحات میں! جب کوئی مصیبت سر پر آن پڑتی ہے تب انسان اُس سے نجات پانے کے بارے میں سوچتا ہے، کچھ کرنے کی ٹھانتا ہے، حکمتِ عملی تیار کرتا ہے۔ ہر مشکل انسان کو للکارتی ہے۔ اگر انسان حواس باختہ نہ ہو، ذہن کو کام کرنے دے تو ہر مشکل صورتِ حال چیلنج بن کر کوئی نہ کوئی نئی راہ سجھاتی ہے۔ افلاس سے بڑھ کر کون سی چیز ہوسکتی ہے جو انسان کو للکارے؟ مالی خرابی انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ اچھی زندگی کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے؛ تاہم مالی آسودگی سب سے بڑھ کر ہے۔ افلاس برقرار رہے تو انسان بہت سے اچھے بلکہ سنہرے مواقع بھی ضائع کر بیٹھتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ افلاس کے ہاتھوں لوگ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ افلاس کو بوجھ سمجھنے کی صورت میں فکری ساخت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ مالی مشکلات برقرار رہیں تو انسان شدید ذہنی الجھن میں مبتلا رہتا ہے۔
افلاس کو ویک اَپ کال سمجھنا چاہیے یا پھر چھٹی حِس۔ یہ کیفیت کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی تحریک دینے والی ہونی چاہیے۔ پس ماندہ معاشرے افلاس کو پچھاڑنے ہی پر تو کامیاب اور خوش حال کہلاتے ہیں۔ ترقی کی راہیں انتہائی نوعیت کی کمزوریوں کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد ہموار ہو پاتی ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار کے ریکارڈ پر اچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ کامیاب وہی معاشرے ہوئے جنہوں نے انتہائی درجے کی ناکامی کا سامنا کیا اور اپنے آپ کو اصلاحِ احوال کے لیے تیار کیا۔ بھرپور افلاس عمومی سطح پر انتہائی مایوس کن ثابت ہوتا ہے۔ افلاس کے نتیجے میں صرف مایوسی پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کیفیت انسان کو تحریک بھی تو دیتی ہے۔ سوال رویے کا ہے۔ ہم اپنی طرزِ فکر و عمل ہی کی بنیاد پر طے کر پاتے ہیں کہ کسی کیفیت کو کس طور لینا ہے۔ افلاس کو مصیبت اور بوجھ سمجھنے کی صورت میں ہم صرف مایوس ہو پاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اصلاحِ احوال کی طرف ذہن جاتا ہے نہ کام کرنے کی لگن ہی پیدا ہوتی ہے۔ ہاں‘ افلاس کو ویک اَپ کال سمجھنے کی صورت میں ہم کچھ نہ کچھ کرنے کا سوچتے ہیں، راہِ عمل پر گامزن ہونے کی فکر میں غلطاں ہوتے ہیں۔ ہر مشکل گھڑی ہمارے لیے ویک اَپ کال اور چھٹی حِس کا درجہ رکھتی ہے۔ مسائل ہی تو ہمیں کچھ کرنے کی مہمیز دیتے ہیں۔ مسائل کو محض مسائل نہیں بلکہ چیلنج سمجھنے کی صورت میں معاملات کو بہتر بنانے کی ذہنیت پروان چڑھتی ہے۔ جب سب کچھ اچھا چل رہا ہوتا ہے تب انسان غفلت کے گڑھے میں بھی گرسکتا ہے اور عمومی سطح پر ایسا ہوتا ہی ہے۔ آسانیاں بڑھتی رہیں تو ہم مشکلات سے لڑنے کا ہنر بھولتے جاتے ہیں۔ اِس دنیا کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ مشکلات سے لڑنے کے صِلے کے طور پر ملا ہے۔ جب کسی بھی معاملے میں کوئی الجھن دامن گیر ہوتی ہے تب انسان کچھ نیا کرنے کا سوچتا ہے۔ الجھن کو سلجھانے کا عمل ہی انسان کو اس بات کی توفیق عطا کرتا ہے کہ وہ زندگی کو رفعت سے ہم کنار کرنے کے بارے میں سوچے، کچھ کرنے کی تحریک پائے۔
کئی زمانے اس بات کے گواہ ہیں کہ انتہائی مشکل حالات ہی نے انسانوں کو عمومی سطح سے ہٹ کر کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی تحریک دی اور یوں دنیا کو نئی ایجادات ملیں اور زندگی کو آسان بنانے کی راہ ہموار ہوئی۔ بچوں کو یہ بات سمجھانے کی خاص ضرورت ہے کہ کوئی بھی مشکل محض مشکل نہیں ہوتی بلکہ آسانی کی طرف لے جانے والا راستہ بھی ہوتی ہے۔ بچوں کو جب مشکل میں آسانی تلاش کرنا سکھایا جاتا ہے تب وہ ہر پریشان کن صورتِ حال کے بطن سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی عادت اپناتے ہیں اور بھرپور لگن کے ساتھ محنت کرتے ہیں۔ بچوں کو زندگی کے حوالے سے دیا جانے والا بہترین سبق یہ ہے کہ وہ کسی بھی مشکل کو محض بوجھ نہ گردانیں بلکہ رحمت و برکت کا ذریعہ بھی سمجھیں۔ کسی بھی مشکل کو چیلنج سمجھنے کی صورت میں مثبت طرزِ فکر و عمل کے ساتھ محنت کرنے کی توفیق عطا ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved