جب آپ کسی گہری سوچ و بچار میں ہوں‘ کسی کام میں مصروف ہوں‘ کچھ پڑھ لکھ رہے ہوں یا آرام کررہے ہوں اور اچانک کہیں سے شور کا طوفان اٹھے تو آپ فطری طور پر ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہاں سے یہ آوازیں آرہی ہیں‘ کون ہیں جو غل غپاڑہ کر رہے ہیں اور اگر کوئی لڑائی جھگڑے کی کیفیت ہے تو متحارب کون ہیں؟ ہم اچانک کسی ارتعاش کی صورت میں اپنے ارد گرد سے کبھی لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ یہ بھی ہماری فطرت میں ہے کہ حالات کا جائزہ فوراً لینا شروع کر دیتے ہیں اور تیزی سے اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنی ساری توجہ مرکوز کرلیتے ہیں۔ معاملات کو کوشش کے باوجود جب سمجھ نہیں پاتے تو ہر سامنے دکھائی دینے والے پر سوال داغ دیتے ہیں ''یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ آج کل سیاسی منظر نامہ اتنا پیچیدہ نہیں کہ آپ سامنے اور پس پردہ کرداروں‘ ان کے مقاصد‘ مفادات اور حکمت عملی کا ادارک نہ کر پائیں۔ جب کھیل ایک ہی ہو‘ وقت کے ساتھ صرف کردار تبدیل ہوتے رہیں تو ہماری سیاست کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطونی عقل کی ضرورت نہیں۔ تمام ملک اور ہماری نسلوں کا مستقبل صرف چند محترم حضرات نے داؤ پر لگا رکھا ہے۔ کسی شک و شبہ کی گنجائش رہ گئی ہے کہ وہ کون ہیں؟ کس کس کا نام لیں؟ اور پھر ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں‘ پارلیمان‘ صوبائی اسمبلیاں گنے چنے مخصوص افراد کے اشاروں پر چلتی ہیں۔
ہم ایک عرصہ سے سیاسی تماشا دیکھ رہے ہیں اور ساری قوم اپنے آپ کو بے بس پاتی ہے۔ گروہ بندی‘ سیاسی جماعتیں اور مقابلہ بازی ہر جمہوری ملک میں رہتی ہے مگر سب کچھ آئین‘ قانون اور کچھ طے شدہ سیاسی روایات کی حد میں ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کسی بھی ملک میں استحکام پیدا نہیں ہو سکتا۔ عجیب بات ہے کہ موجودہ سیاسی کشمکش میں ہر گروہ‘ جماعت‘ رہنما اور ان کے کارندے ملک کو اقتصادی دیوالیہ پن اور سیاسی دلدل میں پھنساتے جا رہے ہیں۔ سیاسی بحران پیدا کر دیے جائیں یا ہو جائیں تو واحد راستہ نئے انتخابات ہوتے ہیں۔ دوسری صورت سب سیاسی جماعتوں کا مل بیٹھ کر قومی حکومت بنانا یا تمام قومی مسائل کے حل کے لیے کوئی مشترکہ منشور تیار کرنا ہوتا ہے۔ یہاں مسئلہ کچھ اور بھی ہے۔ ہماری سیاست میں ایک تیسرا فریق بھی رہا ہے جس کی طرف ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت اپنی قسمت کا ستارہ چمکانے کے لیے دیکھتی رہی ہے۔ سیاست اگر اپنا نظری رنگ اختیار نہ کر سکے تو توازن اور استحکام تو دور کی بات ہے‘ الیکشن کمیشن جیسے آئینی اداروں اور انتخابات کی صحت سے عوام اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اب تو ہم غیرجانبدار ہیں تو ماضی کی دھول اور اس کے اثرات کچھ الفاظ کی ادائیگی سے تو نہیں دھل جائیں گے۔ موجودہ بندوبستی نظام جو کسی صورت چلتا دکھائی نہیں دے رہا‘ ذرا سوچیں تو کہ کس طرف اشارہ کر رہا ہے۔ گزشتہ دس ماہ کے اندر معیشت کا کیا حال ہوا ہے‘ مہنگائی کہاں سے کہاں تک چلی گئی ہے۔ میرے خیال میں کسی بھی غلطی کا نہ احساس ہے اور نہ اس کو درست کرنے کی طرف کوئی مائل ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے کے عمل کا مقصد ملک کو کسی پٹری پر چڑھانا تھا‘ لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ آپ کسی بھی شعبے کی دستیاب شماریات اٹھا کر دیکھ لیں‘ گراف خطرے کی حد سے نیچے جاتا صاف دکھائی دے گا۔ اگر مقصد تیرہ جماعتوں کو اکٹھا کرکے ملک میں استحکام لانا اور ترقی کی منازل طے کرنا تھا تو وہ ناکام ہو چکا۔ کپتان تابعداری میں ایک حد سے آگے جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ میرے ادارے میں ایک اعلیٰ ترین افسر نے تقریباً سات گھنٹے تک سیشن کیا جوکہ ہماری جامعہ کی تاریخ میں ایک مثال ہے۔ درویش کچھ غیر معمولی مصروفیات کے باعث شریک نہ ہو سکا۔ غالباً گزشتہ سال اکتوبر کا مہینہ تھا۔ سیشن کے دوران ایک سوال ہوا کہ آپ عمران خان کو سمجھاتے کیوں نہیں؟ جواب یہ تھا کہ وہ کب میری بات سنتا ہے؟ سوال اور جواب‘ دونوں ہمارے سیاسی نظام کی عکاسی کرتے ہیں کہ کسی ریاستی ادارے کے سربراہ کا‘ جو آئینی طور پر منتخب حکومت کے ماتحت کے طور پرکام کرتا ہے‘ وزیر اعظم کو سمجھانا بجھانا کیا اس کی ذمہ داری ہے؟ اگر کپتان وہی کرتا جو وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پہلے دن سے ہی کرنا شروع کردیا تو شاید کسی ایکشن کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ جونیجو صاحب کو ایوانِ صدر سے کوئی ہدایت آتی‘ کوئی تقرری‘ تبادلے کی سفارش کی جاتی تو وہ اپنے پرنسل سیکرٹری کو کہتے ''وزیر اعظم کون ہے؟‘‘ اور فیصلے اپنے آئینی اختیار کے مطابق کرتے۔ کپتان کو کسی کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرا اندازہ یہ تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے مگر وہ اقتدار کی خواہش کی رو میں تیزی سے بہہ گئے۔ اب یہ دہرانے کا کیا فائدہ کہ بہتر تھا کہ میں اپوزیشن میں بیٹھتا۔ ہمارے سیاسی مہربانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا دوسرا تازہ دم دستہ فرمانبرداری کے لیے تیار بلکہ مستعد ہوتا ہے۔ سایوں میں رہ کر سیاست اور حکومت کرنے کی یہ روایت جاری رہی تو سیاست میں فطری توازن پیدا ہوگا نہ گھیراؤ‘ بھگاؤ کی سازشیں ختم ہوں گی۔
ہٹائے جانے کے بعد البتہ کپتان کا کردار مثالی رہا۔ اُنہوں نے اپنا بیانیہ عدم اعتماد کے ووٹ سے پہلے ہی اسلام آباد کے پہلے جلسے میں بنا لیا تھا۔ تیرہ جماعتوں کا گٹھ جوڑ بنانے اور ملک پر مسلط کرنے والے ماہرینِ سیاست کا خیال تھا کہ کپتان گھر بیٹھ کر کرکٹ پر رواں تبصرے کرے گا‘ عوام جس قدر اس کی حکومت سے ناخوش تھے‘ اس کے ساتھ باہر سڑکوں پر نہیں نکلیں گے جبکہ مسلط کیے جانے والے اقتدار سنبھال کر دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں گے۔ اس طرح کپتان تو صرف ماضی کی دھندلی سی تصویر بن کر رہ جائے گا۔ کمال کے ماہرین تھے‘ کمال کی سیاسی گہرائی ان کی سوچ میں تھی اور کمال کے حربے انہوں نے استعمال کیے اور یوں کاغذی گھوڑے انہوں نے میدان میں اتار دیے۔ وہ انہیں عوام میں سرخرو کس طرح کریں؟ یہ سوال البتہ تشنہ رہ گیا۔ کاش کوئی تاریخ کے جبر سے سیکھ سکتا۔ کوئی عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اندازہ لگانے کی زحمت کرتا۔ ہم ملک اور قوم کے مستقبل کے بارے میں خود کو تسلی دینے کے لیے یہ فضول باتیں کرتے رہتے ہیں۔ مسلط کیے جانے والے ٹولے کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ سیاسی سیلاب جو اٹھا تو ان کے لیے خطرے کے آخری نشان سے بھی اوپر تھا۔ ان کی حکومت میں ہونے والے ضمنی انتخابات نے انہیں بتا دیا کہ وہ سب مل کر بھی کپتان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حالات معمول کے مطابق ہوتے‘ کچھ عوام سے امید ہوتی تو انتخابات کے لیے تیار ہو جاتے۔ خوف سر پر سوار یہ ہے کہ کہیں کپتان کا سیاسی طوفان انہیں بہا کر نہ لے جائے اور گدی نشینوں کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے نہ رہ جائیں۔ دیکھیں گجراتیوں کے اونٹ کی نکیل کس کے ہاتھ میں ہے۔ اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں تو انتخابات ناگزیر ہو جائیں گے۔ اب تو قبل از وقت بھی نہیں رہے۔ کیا یہ بہترنہ ہوگا کہ تیرہ جماعتیں اور تحریک انصاف مل کر ہی فیصلہ کر لیں۔ اس سے پہلے کہ ٹانگ کا زخم بھرنے پرکپتان پھر سڑکوں پر ہو اور طاقت کا رہا سہا نشہ بھی اتر جائے اور عوامی جذبات موروثیوں کی سیاست کو بہا لے جائیں۔ حضورِ والا‘ سیاست اور عوام کسی طاقتور کی خواہش کے غلام نہیں ہوتے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ آپ نہیں بدلیں گے تو وہ آپ کو بدل دے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved