لگتا یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی صاحب کی آخری اننگز تمام ہوئی۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر ممکن ہے کہ وہ بارہویں کھلاڑی کے طور پر ٹیم کا حصہ رہیں۔ بارہواں کھلاڑی‘ ہمیں معلوم ہے کہ صرف فیلڈنگ کر سکتا ہے۔ بلابازی اور باؤلنگ نہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ آخری اننگز میں ان کی کارکردگی متاثر کن رہی۔ 186ناٹ آؤٹ۔ کپتان ڈکلیئر نہ کرتا تو شاید وہ ڈبل سنچری کر جاتے۔ کپتان مگر اپنی ذات کے حوالے سے کھیلتا ہے۔ اس نے ایک بار جاوید میاں داد کی ٹرپل سنچری بھی نہیں بننے دی تھی۔ جتنی داد میاں داد کو ملی‘ اتنی چودھری صاحب کو بھی مل گئی۔ اب وہ اس سرخوشی میں بقیہ زندگی گزار سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عہد کے 'قائداعظم‘ کا ساتھ دیا تھا۔
وقت اگر ہمیں اگلے انتخابات تک لے گیا تو تین ہی منظر نامے متوقع ہیں۔ ایک یہ کہ تحریکِ انصاف جیت جائے۔ دوسرا منظر یہ ہے کہ (ن) لیگ کامیاب رہے۔ پہلی صورت میں عثمان بزدار جیسا کوئی وزیراعلیٰ ہو گا۔ دوسری صورت میں شریف خاندان کاکوئی فرد۔بظاہر پرویز الٰہی صاحب کے لیے اب کچھ نہیں ہے۔ ان کی قسمت اُس وقت جاگتی ہے جب ہوا میں معلق اسمبلی وجود میں آئے اور ان کے ذریعے توازن پیدا کر دیا جائے۔ اس تیسرے منظر نامے کی توقع اگرچہ کم ہے مگر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ووٹ گننے والی مشینیں رات گئے کام کرنا چھوڑ دیں۔
مجھے اس سے اتفاق نہیں کہ وہ نظام اب ختم ہو چکا جو ان مشینوں پر سایہ فگن تھا۔ وہ باقی ہے اور ابھی رہے گا۔ اس لیے میں ان امکانات کو پوری طرح رد نہیں کرتا کہ مستقبل کی اسمبلی بھی معلق ہو۔ توازن کی ضرورت باقی رہ سکتی ہے لیکن یہ لازم نہیں کہ اس بار یہ توازن پرویز الٰہی صاحب ہی کے مبارک ہاتھوں سے قائم کروایا جائے۔ یہ کام کسی اور سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جہانگیر خان‘ علیم خان یا کوئی اور 'خان‘۔
گجرات کے چودھری خاندان کی سیاست‘ میرا تاثر ہے کہ ختم ہونے کو ہے۔ کم و بیش پینتیس سال سے انہوں نے ایک ہی طرح کی سیاست کی۔ وہی توازن قائم کرنے والی! اس سیاست کا اب خاتمہ ہو گیا ہے۔ ہماری سیاست جوہری طور پر تبدیل نہیں ہوئی لیکن اس کی ساخت بدل گئی ہے۔ کھلاڑی پرانے ہیں مگر جال نئے ہیں۔ چودھری خاندان اس تبدیلی کا پوری طرح ادراک نہ کر سکا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو نئی سیاست کے لیے تیار نہیں کیا۔
بہت سے روایتی سیاست دانوں نے ان تبدیلیوں کو سمجھا اور اپنی سیاست کو تبدیل کیا۔ وہ نئی بوتلوں میں پرانی شراب لے کر آئے۔ مثال کے طور پر شاہ محمود قریشی۔ ان کا خاندان انگریزوں کے دور سے سیاست کرتا آیا ہے۔ انہوں نے مگر یہ جان لیا کہ قدیم دور میں جو حیثیت انگریزوں کی تھی‘ عہدِجدید میں وہی حیثیت امریکہ کی ہے۔شاہ محمود قریشی صاحب نے‘اس لیے اپنے بچے کا اتالیق‘ امریکہ کے سینیٹر جان کیری کو بنایا۔یوں انہوں نے اہتمام کیا کہ ان کا خاندان نئے سیاسی نظم کا حصہ بننے کے لیے اہل شمار ہو۔انگریزی زبان اور مغربی تعلیم کی اہمیت تو شاہ صاحب کے والدِ گرامی بھی جان گئے تھے۔اب مگر یہ کافی نہیں تھی۔انہیں چند قدم اور آگے جانا تھا اور وہ گئے۔یوں آنے والے دنوں میں بھی‘ دکھائی یہی دیتا ہے کہ ان کے خاندان کا ایک کردار ہوگا۔
ایسی کوئی تیاری گجرات کے چودھریوں نے نہیں کی۔انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت بھی روایتی سیاست ہی کے پس منظر میں کی۔ اسٹیبلیشمنٹ‘ جوڑ توڑ‘ ساز باز‘ تھانہ کچہری‘ ایس پی‘ ایس ایچ او‘ وغیرہ وغیرہ۔ چودھری ظہور الٰہی صاحب کے دور سے ہماری سیاسی لغت یہی ہے اور پرویز الٰہی یا چودھری شجاعت حسین صاحب نے بھی اپنے بچوں کو یہی زبان سکھائی ہے۔سیاست کی بولی مگر اب بدل رہی ہے‘اگرچہ سیاست وہی ہے۔ 'مٹی پاؤ‘ اور 'روٹی شوٹی کھاؤ‘ جیسے الفاظ سیاسی لغت میں شامل تو ہیں مگر متروک ہوتے جا رہے ہیں۔ نئے عہد کے ووٹر کو اب صرف روٹی سے نہیں لبھایا جا سکتا۔ اس کے مطالبات بدل گئے ہیں۔ یہ خاندان اس کو جان نہیں سکا۔ یہ غلطی کچھ اور لوگوں نے بھی کی۔ جیسے کے پی کے میں ولی خان کا خاندان۔ نئے سیاسی منظر نامے میں ان کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں۔
پرویز الٰہی صاحب کے لیے ایک ہی سیاسی مستقبل ہے: مونس الٰہی پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں۔ عمران خان صاحب نظرِ التفات کریں اور ان کو پارٹی کا ٹکٹ جاری کر دیں۔ میں اس کے امکانات بھی اگرچہ کم دیکھتا ہوں۔ پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کے بعد خان صاحب کے لیے شاید اس خاندان کی اہمیت ختم ہو گئی ہے۔ پہلے بھی وہ انہیں بادلِ نخواستہ گوارا کر رہے تھے۔ سب جانتے ہیں باپ بیٹے کے لیے ان کے جذبات کیا ہیں؟ پرویز الٰہی خان صاحب کو قائداعظم سے بڑا لیڈر ہی کیوں نہ کہتے رہیں‘ چودھری صاحب ان کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتے‘ درست تر الفاظ میں ان کی سیاست میں چودھری صاحب کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جسے آپ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے رہے ہوں‘ اسے کسی مجبوری ہی میں ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ یہ مجبوری اب ختم ہو گئی ہے۔
کیا چودھری پرویز الٰہی تنہا اپنا سیاسی وجود باقی رکھ سکیں گے؟ میرا خیال ہے اب یہ مشکل ہوگا۔ ان کے خاندان کی وحدت باقی نہیں رہی۔ مقتدرہ اگر نیوٹرل نہ بھی ہو‘ تو بھی اس بار ان کا ہاتھ نئے گھوڑوں پر ہو گا۔ یہ خود مقتدرہ کے مفاد میں ہے۔ نقوشِ کہن سے وابستگی کسی کے حق میں نہیں۔ اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں پرانے چہرے بے و قعت ہو گئے ہیں۔ نون لیگ کی ناکامی کا ایک سبب یہی چہرے ہیں۔ وقت کا مطالبہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کا بیانیہ ہی نہیں‘ اس کو بیان کرنے والے چہرے بھی نئے ہوں۔ یہی بات مقتدرہ کے لیے بھی درست ہے۔ اس کا بیانیہ تو نہیں بدلا مگر چہرے بدلنا‘ اس کے لیے ناگزیر ہے۔
پرویز الٰہی صاحب تنہا سیاست نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس اپنا کوئی سیاسی بیانیہ نہیں ہے۔ نون لیگ جیسی جماعت ایک بیانیے کی عدم موجودگی میں اپنے وجود کو بکھرنے سے نہیں روک سکی تو پرویز الٰہی کیسے اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے؟ وہ کس نعرے یا پیغام کے ساتھ عوام کے پاس جائیں گے؟ معلوم نہیں‘ ان کو کتنا اندازہ ہے کہ اپنی سیاسی جماعت کے فورم سے‘ کسی دوسری سیاسی جماعت کے لیڈر کو اپنا لیڈر قرار دینے کے بعد‘ آدمی شیخ رشید بن جاتا ہے۔ کیا پرویز الٰہی شیخ رشید بننا چاہتے ہیں؟
سیاست اب بدل گئی ہے۔ یہ مگر وہ تبدیلی نہیں جو عوام کی زندگیوں کو بدل دے۔ یہ تبدیلی اقتدار کے مراکز پر قابض عناصر نے اپنے مفادات کے لیے اختیار کی ہے۔ ان عناصر کو معلوم ہو چکا کہ عوام ان کی اُس حکمتِ عملی سے واقف ہو چکے جو پچھتر سال سے جاری تھی۔ دس بارہ سال پہلے‘ ایک 'تیسری قوت‘ کو متعارف کروا کر ایک نیا پن پیدا کیا گیا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ ابلاغی قوت سے عوام کو باور کرایا گیا کہ ان کے سب دکھوں کے ذمہ دار روایتی سیاست دان ہیں۔ ملک کو اب 'تیسری قوت‘ کی ضرورت ہے۔ یہ پروجیکٹ چند سال ہی چل سکا۔ آج کے نئے پروجیکٹ کا عنوان ہے 'نیوٹرل‘۔ اس کے لیے پرویز الٰہی صاحب جیسے کرداروں سے لاتعلقی کا تاثر دینا ضروری ہے۔ اسی لیے میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ پرویز الٰہی صاحب نے اپنی آخری اننگز کھیل لی۔ ان کی افادیت اب باقی نہیں رہی۔ نہ عمران خان صاحب کے لیے‘ نہ قوت کے کسی دوسرے مرکز کے لیے۔ آخری اننگز بہرحال انہوں نے خوب کھیلی '186 ناٹ آؤٹ‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved