تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     14-01-2023

پنجاب:کیا 90روز میں انتخابات ممکن ہیں؟

وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے ایک دستخط شدہ خط گورنر پنجاب کو ارسال کر دیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے گورنر کو بھیجا گیا یہ خط شایدسمری کے زمرے میں نہیں آتا۔ بہرحال قانونی تقاضے پوری کرنے کے لیے بھیجا جانے والا یہ خط جمعرات ہی کو گورنر پنجاب کو موصول ہو گیا اورگورنر پنجاب اسمبلی تحلیل کی یہ سمری واپس نہیں بھجوا سکتے کیونکہ آئین میں اٹھارہویں اور انیسویں ترامیم کے بعد صدر اور گورنروں کے پاس کسی سمری یا تجویز کو روک کر رکھنے یا ریویو کے لیے واپس بھجوانے کے اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں۔اس لیے آئین کے مطابق گورنر پنجاب کو 48 گھنٹوں کے اندر وزیر اعلیٰ کی طرف سے بھیجی گئی سمری کی منظوری دینا ہو گی اور اگر وہ 48 گھنٹوں میں اس سمری پر عملدرآمد نہیں کرتے تو آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل تصور کی جائے گی اور یہ 48گھنٹے آج رات دس بجے پورے ہو جائیں گے۔ اس لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ آخری لمحات میں کوئی انہونی نہ ہو گئی تو آج رات تک پنجاب اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔ ممکن ہے مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب اپنی سیاسی قیادت سے مشاورت کے بعد اس ڈیڈ لائن سے پہلے ہی اسمبلی تحلیل کرنے کا آرڈر جاری کر دیں۔
تاہم وزیراعلیٰ پنجاب کے اس خط میں اسمبلی کی تحلیل کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا۔ کیا وزیراعلیٰ پنجاب کا اسمبلی کی تحلیل کا اقدام عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے‘ اس حوالے سے بھی رائے تقسیم ہے۔ غالب رائے یہی ہے کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ وزیراعلیٰ کی جانب سے آئینی تقاضے پورے کیے گئے ہیں‘ بہرکیف یہاں بھی آخری وقت کی کسی انہونی صورتحال کو ذہن میں رکھنا پڑے گا کیونکہ ملک عزیز کی سیاست ایک طویل عرصے سے جس طرح چل رہی ہے‘ اس میں آخری دموں کی انہونی صورتحال عموماً فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچانے کے لیے آئین کے آرٹیکل(3) 184 کا قانونی راستہ موجود ہے کیونکہ 12جنوری کو ہی رات گئے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے 186 اراکین کا اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے آئین کے آرٹیکل (7)130کے تحت گورنر پنجاب کے نوٹس کی تعمیل کرتے ہوئے قانونی کارروائی مکمل کر دی تھی۔ اس دوران اپوزیشن حکومت کو ڈرانے یا محض دکھاوے کے لیے مسلسل یہ دعویٰ کرتی رہی کہ وہ چودھری پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دے گی لیکن رات گئے تک تحریک عدم اعتماد پیش نہ کی جا سکی۔ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی صوبائی اور وفاقی قیادت کو لندن سے بھی پیغامات موصول ہورہے تھے کہ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا راستہ روکا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی اس دوران اپنی پریس کانفرنسوں میں یہ کہتے نظر آئے کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا راستہ ہر صورت روکا جائے گا لیکن وہ اس حوالے سے کسی عملی منصوبہ بندی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ دراصل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی عمران خان کی مقبولیت سے خوف زدہ ہو کر پسپائی کا راستہ اختیار کرتی نظر آ رہی ہیں۔ اسی وجہ سے اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت برقرار رہنے کا قوی امکان ہے۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد کے منظر نامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے‘ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے پنجاب کے انتظامی ڈھانچے میں کی گئی تبدیلیوں کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔چودھری پرویز الٰہی کے اس دور میں پنجاب میں پانچ نئے اضلاع بننے سے الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیاں تبدیل ہو چکی ہیں؛چنانچہ نئے اضلاع اور تحصیلوں کے اضافے کے بعد صوبے میں از سر نو حلقہ بندیاں کرانا ہوں گی کیونکہ نئے اضلاع اور تحصیلوں کی تشکیل کرتے وقت الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیوں کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ عمران خان صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90روز میں پنجاب میں قانون کے مطابق الیکشن کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن نئے اضلاع بننے سے حلقہ بندیوں کا وہ نظام جو الیکشن کمیشن نے اکتوبر 2022ء میں وضع کیا تھا‘ زمین بوس ہو چکا ہے‘ لہٰذا صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90روز میں انتخابات کرانا عملاً ممکن نظر نہیں آتا۔ الیکشن کمیشن کو پنجاب کے صوبائی انتظامی ڈھانچے میں ہونے والی اس تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے متاثرہ اضلاع کی از سر نو حلقہ بندی کرانا ہو گی اور اس دوران نئی مردم شماری جس کے حتمی نتائج رواں برس 30اپریل تک آنے کے قومی امکان ہیں‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 51کے تحت مردم شماری کے گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد حلقہ بندیوں کا نئے سرے سے آغاز کرنا ہو گا۔ اس وقت جبکہ یہ سطریں تحریر کی جا رہی ہیں پاکستان تحریک انصاف کے نائب صدر فواد چودھری پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے بھی سمری تیار کر لی گئی ہے اور پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے نام پر مشاورت کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے لیکن عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90روز میں انتخابات کا جو خواب دیکھ رہے ہیں اس کی راہ میں چودھری پرویز الٰہی کے فیصلوں سے کافی رکاوٹیں کھڑی نظر آتی ہیں۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے حکومت سندھ کی جانب سے 15 جنوری کو کراچی‘ حیدرآباد اور دادو میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات 15 جنوری ہی کو ہوں گے۔ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے کراچی‘ حیدر آباد اور دادو میں مقامی حکومتوں کے انتخابات مقررہ تاریخ پر کروانے کا فیصلہ جاری کر کے اپنی رِٹ کو مستحکم کر دیا ہے جس سے تحریک انصاف کو بھی تقویت ملی ہے اور جماعت اسلامی بھی اس سے فائدہ اٹھائے گی۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ ان اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مرحلہ بخیرو خوبی طے پائے گا اور یہ انتخابات کراچی میں باوقار‘ فعال‘ ایماندار‘ دیانت دار قیادت سامنے لائیں گے۔گوکہ ایم کیو ایم کی طرف سے اس فیصلے کی مخالفت کی گئی لیکن وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ اب بلدیاتی انتخابات نہیں روکے جا سکتے اور یہ انتخابات الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق 15 جنوری کو ہوں گے۔
اطلاعات ہیں کہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط کرنے سے پہلے تک چودھری پرویز الٰہی کی یہی خواہش رہی کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی جائے تاکہ اسمبلی تحلیل نہ ہو سکے لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ ممکن ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادیوں کی حکمت عملی یہ ہو کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران سیٹ اَپ‘ جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذریعے ہی تشکیل پاتا ہے‘ کی تشکیل کے بعد پرویز الٰہی عمران خان سے علیحدگی کا اعلان کر دیں کیونکہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد وفاقی حکومت عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کر سکتی ہے لیکن اس کے برعکس عمران خان وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے اور وہ عوامی دباؤ کے تحت قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے پر مجبور ہو جائے گی جس کے بعد صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کی اسمبلیوں کو بھی برخاست کرنا ہی پڑے گا۔ مجھے تو مستقبل قریب میں قومی اسمبلی تحلیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved