تحریر : ڈاکٹر امجد ثاقب تاریخ اشاعت     14-01-2023

سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا … (35)

(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
حاجی مورہ گاؤں میں ہم نے کچھ ہی دیر میں زندگی کے بیسیوں رنگ دیکھ لیے۔ غربت‘ تباہی‘ مایوسی‘ امید‘ ایثار‘ ہمت اور پھر سکون اور مسکراہٹ۔ آصف اور شہزاد ہمیں سب سے پہلے احسان اللہ کے گھر لے گئے جو ایک دیہاڑی دار مزدور ہے۔ وہ روزانہ بارہ سو روپے کماتا ہے۔ مہینے میں اوسطاً پچیس دن کام ملتا ہے۔ بس اسی میں گزر بسر ہوتی ہے۔ سیلاب کے دنوں میں وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے بھکر اپنی بہن کے گھر چلا گیا۔ اس نے اپنا نو تعمیر شدہ دو کمروں پہ مشتمل گھر دکھایا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔ خواتین نے کچھ دیر کے لیے پردہ کیا اور ہمیں کمروں کے اندر داخل ہونے کی دعوت دی گئی۔ سوائے چند برتنوں اور چارپائیوں کے وہا ں اور کچھ نہ تھا۔ اس بے سرو سامانی کے باوجود سراپا شکر‘ احسان اللہ ہمارے لیے دعا کرتا رہا۔ یہی کہانی حفیظ اللہ‘ تنویر حسین اور گاؤں کے اور لوگوں کی بھی تھی۔ سیلاب سب کچھ بہا کے لے گیا لیکن کسی اجنبی دوست نے انہیں پھر سے آباد کر دیا۔ یہ سارے گھر دیکھ کے دلی مسرت کا احساس ہوا۔ لوگوں نے تعمیر میں بھی بہت سمجھ داری کا مظاہرہ کیا اور نئے گھروں کو مٹی ڈال کر پانچ سے چھ فٹ اونچا کردیا۔ یہ سب بہت سادہ لوح تھے۔ غریب ضرور تھے لیکن عزت اور وقار سے زندہ رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے حکومت سے مدد طلب کی۔ یہ ان کا حق ہے لیکن اخوت سے صرف قرضِ حسن کی درخواست کی۔ کاش کوئی ڈیرہ اسماعیل خان کے نواح میں واقع حاجی مورہ نامی اس گاؤں میں جائے اور مواخات کے اس جذبے کی چمک دمک بھی دیکھے۔ مواخات کا یہ عظیم مظاہرہ پورے پاکستان کی جانب سے تھا۔ یہ ایک سو پینتالیس گھر‘ یوں ہی تو نہیں بنے۔ کئی کروڑ روپے کی یہ رقم اہلِ وطن نے ہی دی‘ اُن لوگوں نے جو اپنے رزق کو خدا کا انعام سمجھتے ہیں۔ جن کے نزدیک نیکی سجدہ ریز ہونے میں بھی ہے اور کسی زیردست کو اپنا بنانے میں بھی۔
حاجی مورہ سے نکل کر ہم نے ایک اور چھوٹی سی بستی‘ قریشی موڑ میں واقع عائشہ مسجد میں پڑاؤ کیا۔ نواحی دیہات‘ فتح شہر اور بستی ٹھٹھ سولہڑ سے تقریباً ایک سو خاندانوں کے سربراہ وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اپنے مشکل دنوں کی کہانی بھی سنائی اور انسانی ہمدردی اور ایثار کے واقعے بھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے مقامی مخیر افراد نے بھی ابتلا کے دنوں میں دل کھول کے مدد کی اور الحمدللہ کوئی شخص ایک رات کے لیے بھی بھوکا نہیں سویا۔ مسجد میں جمع ہونے والے ان خاندانوں کو نقد رقوم اور تحفے پیش کیے گئے۔ یہ بہت خوبصورت مسجد تھی۔ سخت سردی میں پیدل چل کر آنے والے یہ لوگ‘ ان لوگوں نے جب مواخات کی بات کی تو ہم نے ایک بار پھر چاہا کہ سجدۂ شکر ادا کریں۔ مواخات کا تصور اب زبان زدِ عام ہونے لگا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ ہمارے ہر دکھ کا علاج اسی تصور میں پنہاں ہے۔
مقامی ایریا منیجر محمد شہزاد‘ برانچ منیجر الطاف حسین‘ اس ساری ٹیم کے سربراہ محمد آصف‘ ان لوگوں نے اپنے حصے سے کہیں بڑھ کر کام کیا۔ ہم اس توفیق پہ خدا کے شکر گزار ہیں کہ ہمیں جگہ جگہ جانے کا موقع ملا لیکن اصل کام تو ان لوگوں کا تھا۔ مواخات کے یہ سپاہی جو موسم کی سختی اور راستوں کی صعوبت سے بے نیاز اپنے بہن بھائیوں کی مدد کے لیے صبح و شام پیش پیش رہے۔ اصل مجاہد یہی ہیں۔ انہی کی وجہ سے انسانیت کا نام بلند ہے۔ قیامت کے روز خدائے بزرگ و برتر کے قریب اور کون ہوگا۔ اس روز اللہ پاک ان کے سوا بھلا اور کس سے کہیں گے ''تم نے دنیا میں میری مخلوق کے دکھ بانٹے آج میں تمہارے دکھ بانٹتا ہوں‘‘۔
لوگوں کے رخصت ہونے کے بعد ہم نے کچھ وقت سٹاف کے ساتھ گزارا۔ انہوں نے دل کو گرما دینے والی کئی اور کہانیاں سنائیں۔ غربت اور مایوسی میں بہت سے چراغ نظر آئے۔ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘۔ سٹاف سے رخصت ہونے سے پہلے جی چاہا ان کی تعریف کریں لیکن یہ لوگ کسی اور مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ داد و تحسین سے بے نیاز صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے خواہاں۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد اور پھر واپس لاہور۔ واپسی کا طویل سفر۔ وہ بھی ایک ہی دن میں۔ حاجی مورہ اور احسان اللہ کی یاد نے تھکنے نہ دیا۔ اگلے روز دفتر پہنچے تو میز پر پاک فیڈریشن سپین اور بارسلونا میں پاکستان کی کونسل جنرل شازیہ منیر کی طرف سے کئی روز پرانا دعوت نامہ پڑا تھا۔ پاک فیڈریشن کی خواہش تھی کہ ہم سپین آئیں۔ دکھ اور درد کی وہ تصویر دکھانے جو ہم نے پاکستان کے طول و عرض میں دیکھی اور جس میں بے بسی کے آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپین میں بسنے والے پاکستانیوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ابھی وہ کاروبار کی بلندیوں کو نہیں پہنچے لیکن دینے کی لذت سے وہ آشنا ہیں۔ وطن کی محبت بے چین و بے قرار رکھتی ہے۔ زیادہ تر گجرات‘ کھاریاں‘ سیالکوٹ اور وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ بڑی تگ و دو سے سپین پہنچے اور پھر اپنی محنت سے مقامی لوگوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اب تک یہ لوگ چار لاکھ یورو سے زائد رقم مختلف اداروں کے ذریعے سیلاب زدہ علاقوں میں بھیج چکے ہیں لیکن ابھی ان کی یہ خواہش ختم نہیں ہوئی۔ ان کا جی چاہتا ہے کہ خدا کی راہ میں دیتے چلے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ سپین آ سکیں تو ان عطیات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ خط و کتابت کئی روز سے چل رہی تھی۔ سفارت خانہ کے ایک خط کی بدولت ہمارا سپین کا ویزا بھی لگ چکا تھا۔ دعوت نامے اور اس تفصیلی پروگرام نے تو گویا فرار کا ہر راستہ بند کردیا۔ اظہر حمید اور عارف انیس سے مشاورت ہوئی اور رختِ سفر باندھنے میں کچھ دیر نہ لگی۔ اس سے قبل برطانیہ کے کئی شہروں میں سفینۂ دل لنگر انداز ہوا اور اب اہلِ سپین کی باری تھی۔ سپین جو کبھی ہسپانیہ تھا‘ مسلمانوں کی عظمت اور جاہ و جلال کا منہ بولتا ثبوت۔ بقولِ اقبال جس کی خاک پہ سجدوں کے نشان بھی ہیں اور بادِ سحر میں خاموش اذانوں کی صدا بھی۔
نو دسمبر سے چودہ دسمبر کے دن طے ہوئے۔ گو یہ دن بہت کم تھے لیکن وقت کی اپنی بندشیں ہیں۔ ملک کے عظیم فنکار افتخار ٹھاکر نے ساتھ جانے کی ہامی بھر لی۔ روتے ہوؤں کو ہنسانا اور ہنستے ہوؤں کو رُلانا ایک انوکھا فن ہے۔ اس فن میں افتخار ٹھاکر کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی ایک طرح کا ''تبلیغی چلہ‘‘ ہے۔ ہم نے سارے کام چند دنوں میں سمیٹے اور ایک طویل ہوائی سفر کے بعد نو دسمبر کو سہ پہر بار سلونا کے خوبصورت شہر میں جا اترے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved