سیاست کا کھیل بھی عجب کھیل ہے۔ جس طرح بھوک مداری کو لگتی ہے اور وہ سارا دن بندر کا تماشا دکھا کر اپنی بھوک مٹاتا ہے‘ بالکل اسی طرح سیاستدان عوام کا تماشا بنا کر اپنے ایجنڈوں اور دھندوں پر اس طرح فوکس کیے ہوئے ہیں کہ تا دیر پتا نہیں چلتا کون کس کے ساتھ مل کر کھیل رہا ہے۔ آئین اور قانون توڑنے والے ہوں یا اسمبلیاں توڑنے والے‘ سبھی اپنی اپنی ضرورتوں اور بوئے سلطانی کے مارے‘ پون صدی سے عوام کو دکھائے جانے والے خواب اور آس برابر توڑے چلے آ رہے ہیں۔ خاصے وقفے کے بعد اسمبلیاں توڑنے کی رِیت ایک بار پھر بحال ہوتی نظر آرہی ہیں۔ زمانۂ رپورٹنگ میں وہ منظر بھی دیکھا ہے کہ آج اسمبلی ٹوٹتی تھی تو اگلے دن بحال ہو کر پھر ٹوٹ جاتی تھی۔ ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل نیا نہیں ہے۔ جس طرح دلیل ختم ہونے کے بعد لوگ بدزبانی اور گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں‘ اسی طرح سیاستدان بند گلی میں پھنسنے کے بعد اسمبلیاں توڑ کر راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ ماضی کے ادوار سے لے کر لمحۂ موجود تک اسمبلیاں ٹوٹنے کے اسباب و عوامل کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات طے ہے کہ یہ اسمبلیاں ذاتی خواہشات اور ایجنڈوں کے تحت توڑی جاتی رہی ہیں۔ مفادِ عامہ اور عوام الناس کا ان اقدام سے کوسوں دور کا واسطہ نہیں ہے۔ خطیر رقومات سے الیکشن کیا اسی لیے کرائے جاتے ہیں؟ عوام انہیں ووٹ دے کر اسمبلیوں میں کیا اسی لیے بھیجتے ہیں کہ یہ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں عوامی مینڈیٹ کو ہی فراموش کر ڈالیں؟ بھاری قرضوں کے کوہِ ہمالیہ تلے دبے اس ملک میں انتخابی اخراجات کو مذاق سمجھنے والوں نے ہر دور میں اسمبلیوں کو مذاق ہی بنایا ہے۔ ماضی کے انتخابات میں جو چاند انہوں نے چڑھائے ہیں‘ اس سے پورا ملک ہی گہنا ڈالا ہے۔ نئے الیکشن کے بعد یہ کون سی توپ چلالیں گے؟ کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں گے۔ عوام کے نصیب میں کل بھی دھتکار اور پھٹکار تھی اور آئندہ بھی یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آتا۔ہمارے ہاں ماضی سے سیکھنے کے بجائے اس کی لکیر کو پیٹنے کا رواج ہے۔ ماضی کے حالاتِ بد کا ماتم کرنے والے برابر کے ذمہ دار ہونے کے باوجود ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے۔ پرویز مشرف کو سو بار صدر منتخب کروانے کے دعوے کرنے والے اب عمران خان کو دوسری بار وزیراعظم بنانے چلے ہیں۔ ماضی میں بھی وہ' قاتل لیگ‘ جیسے طعنوں اور الزامات کے باوجود نہ صرف شریکِ اقتدار ہوئے بلکہ ڈپٹی پرائم منسٹر بھی بن گئے۔ اب پھر یہی خواہش ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
کالم کی اشاعت تک پنجاب میں نگران سیٹ اَپ کے نام سامنے آنا شروع ہو جائیں گے اور سبھی اگلے انتخابات کے لیے کمر بستہ نظر آئیں گے۔ ان سبھی کے پاس نہ کوئی ایجنڈا ہے نہ جادو کی چھڑی۔ بس وہی بیانیے‘ وہی جھانسے‘ وہی وعدے‘ وہی لارے۔ کچھ بھی تو نیا نہیں ہے ان کے پلے۔ ان سبھی کی حکمرانی عوام برابر بھگت چکے ہیں۔ خدا جانے یہ کس گمان میں ہیں؟ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ ہتھیانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ عوام ہر الیکشن میں انہیں مینڈیٹ دے کر ثابت کرتے چلے آئے ہیں کہ انہیں گمراہ کن نعروں اور جھوٹے وعدوں کی لت لگ چکی ہے۔
اس موقع پر چے گویرا کا ایک قول بے اختیار یاد آرہا ہے کہ وسائل پر قابض لوگ غریب کو بتاتے ہیں کہ بھوک خدا کی آزمائش ہے۔ عوام کو روٹیوں کے لالے ڈال کر اپنی نسلیں سنوارنے والوں نے بھوک کو عوام کا مقدر ہی بنا ڈالا ہے۔ کئی دہائیوں سے نسل در نسل شوقِ حکمرانی پورا کرنے والوں نے عوام کو آٹا‘ چینی اور گھی جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ میں ایسا الجھایا ہوا ہے کہ ان کی عمریں ہی روزمرہ کے اخراجات پورے کرتے کرتے گزرتی جا رہی ہیں۔ ساری آزمائشیں‘ مجبوریاں اور سمجھوتے صرف عوام کے لیے محض اس لیے ہیں کہ ہمارے سیاستدان ہی ان سمجھوتوں اور مجبوریوں کے اصل بینی فشری ہیں۔ عوام کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل کر ہی تو مال و دولت اور لمبے چوڑے اثاثے بنتے ہیں ورنہ کون نہیں جانتا کہ کس کا مالی و سماجی پس منظر کیا تھا۔ پورے ملک میں مباحثے کا سماں ہے۔ کہیں دانشوری بگھاری جا رہی ہے تو کہیں دور کی کوڑی لائی جا رہی ہے۔ سیاسی اشرافیہ دھوکوں اور جھانسوں کے نئے ایڈیشن تیار کر رہی ہے۔ اسمبلی کتنے دنوں میں خود بخود تحلیل ہو جائے گی؟ نگران وزیراعلیٰ کون اور کیسا ہوگا؟ انتخابات کتنے مہینوں میں کرائے جائیں گے؟ اس طرح ہوگا تو کیا ہو گا؟ اُس طرح ہوگا تو پھر کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ کیسی کیسی کسوٹی کھیلی جا رہی ہے لیکن تعجب ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں بتا رہا کہ آنے والے حالات کس قدر بھیانک اور مزید جان لیوا ہوں گے۔ یہ طے ہے کہ الیکشن جب بھی کرائے جائیں گے اور اقتدار کسی کے بھی ہتھے لگ جائے‘ طرزِ حکمرانی ماضی کے بدترین ادوار کی بدصورت ترین شکل ہوگی کیونکہ سبھی سیاستدان ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پر دہلا ہیں۔
نئے الیکشن کے بعد زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا‘ یہی کہ ماضی کے ادوار کا ایکشن رِی پلے کئی اضافوں کے ساتھ عوام کو حالاتِ پریشان سے یونہی دوچار رکھے گا۔ خاطر جمع رکھیے! نہ ماضی میں کوئی تبدیلی آئی تھی اور نہ آئندہ کوئی امکان نظرآتا ہے۔ قرضوں اور امداد پر لڑکھڑاتی معیشت حکمرانوں کے اللے تللوں اور ذاتی مفادات پر مبنی فیصلوں کا بوجھ کب تک اٹھا سکتی ہے؟ غربت کا خاتمہ خیرات سے نہیں انصاف سے کیا جا تا ہے۔ سماجی انصاف اور قانون کی بالا دستی جن معاشروں میں ناپید ہو جائے وہاں نہ غربت ختم ہوتی ہے اور نہ ہی خیرات کی طلب۔ عوام کے لیے عالمی برادری سے خیرات طلب کرنا ہو یا عوام کو گروی رکھ کر کڑی شرائط پر قرضے حاصل کرنا‘ یہ سبھی اقدامات گورننس کی ضد ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کے منیجروں سے انقلابی نتائج کی امیدیں وابستہ کرنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟ جہاں ماچس کی ڈبی سے لے کر بجلی اور پٹرول سمیت سبھی کچھ قرض خواہوں کے کنٹرول میں ہو تو وہاں کیسی گورننس اور کہاں کی حکمرانی؟
پون صدی میں ہونے والے انتخابات ہوں یا ان کے نتیجے میں آنے والے حکمران‘ ان سبھی کا جائزہ لیا جائے تو بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مملکتِ خداداد پر کسی حکمران کی نہیں‘ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی حکمرانی ہے۔ سبھی کا طریقہ مختلف لیکن ایجنڈا یہی رہا ہے کہ خواص کا ضمیر مار دو اور عوام کی مت مار دو؛ تاہم تحلیل ہونے والی اسمبلیاں ہوں یا متوقع انتخابات‘ ماضی کے حکمران ہوں یا آنے والے‘ سبھی وہی چہرے ہیں۔ وہی مائنڈ سیٹ ہے۔ وہی ایجنڈے اور وہی دھندے ہیں۔ کچھ بھی بدلنے والا نہیں۔ عوام کے حالاتِ بد مزید بدتر ہوتے نظر آتے ہیں۔ پچھلی طرزِ حکمرانی کا حساب دینے سے قاصر یہ سبھی کس طرح نئے انتخابات اور پھر اقتدار میں آنے کے دعوے کرتے ہیں۔ انہوں نے عوام کے پلے چھوڑا ہی کیا ہے؟ ان کے اقدامات اور پالیسیاں گورننس کی ضد بن کر دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی بن چکی ہیں۔ خدا جانے ایسے حالات میں سیاسی اشرافیہ چین کی بانسری کس طرح بجائے جا رہی ہے۔
چلتے چلتے صدرِ مملکت کا ایک تازہ بیان شیئر کرتا چلوں‘اس کا مزہ لینا ہے یا آنسو بہانا ہیں‘ یہ فیصلہ آپ پر ہے‘ بیان ہے: باجوہ صاحب اور عمران خان کے درمیان دوری کی بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved