تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     09-09-2013

ایک منزل اور ہے

کس قدر مسرت اور شادمانی کا لمحہ ہے۔ یہ قوم اب ترقی یافتہ، ذی ہوش اور عقل و دانش سے آراستہ ہونے کا ثبوت دینے لگی ہے۔ ہم کتنے مہذب ہوگئے ہیں کہ ہم نے اقتدار کے خونخوار بھیڑیوں کے دانت نکال دیے ہیں۔ بھیڑیے بھی ایسے جنہیں نسل درنسل پالا گیا ہو۔ لوگوں پر حکومت کرنے کی چُوریاں دے کر جوان کیا گیا ہو۔ کسی کے باپ کو آنریری مجسٹریٹ بنا دیا تو کسی کے باپ کو آنریری کیپٹن۔ جس نے ذرا صلاحیت دکھائی اسے چُوری سے راتب ملنے لگا اور وہ مالک کی وفاداری میں طاق ہوگیا۔ ایسے وفادار اور نسلی طور پر آزمائے اور سدھائے شخص کو دور بیٹھ کر اپنی باجگزار ریاست کا نگران بنانا ہو تو اس میں سدھائے ہوئے بھیڑیے کی صفات ہونا ضروری ہوتی ہیں۔ ظالم، بے رحم اور سفاک… نہ اسے چیخیں سنائی دیتی ہیں اور نہ آہیں اور سسکیاں۔ اسے شکار کی آنکھوں کی التجائیں تک نظر نہیں آتیں۔ بھیڑیوں کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اوائل عمری میں شکار پر لڑتے ہیں اور لڑتے لڑتے ایک دوسرے کو زخمی کرلیتے ہیں اور اکثر شکار ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے اور اسے جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھا گھات لگائے چیتا یا شیر آ کر دبوچ لیتا ہے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ سیکھ جاتے ہیں۔ اس لیے غول کی صورت شکار پر حملہ کرتے ہیں اور پھر مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔ کبھی کبھی شکار زور آور ہوجائے، بڑا ہو اور اس کے سینگ نکل آئیں تو اسے گھیر گھار کر شیر کی کچھار میں لے جاتے ہیں۔ شیر کا خوف اس شکار کو بھیڑیوں کی دستبرد سے نکالتا ہے لیکن پھر شیر خود اسے زیر کرلیتا ہے۔ بھیڑیے اس تاک میں ہوتے ہیں کہ شیر کا پیٹ بھرے اور وہ اس کا بچا کھچا کھا جائیں۔ اقتدا رکی ہوس میں مست لوگوں کے لیے بھیڑیے کا لفظ میں نے خود استعمال نہیں کیا بلکہ یہ تشبیہ اور استعارہ ہادیٔ برحق، سید الابنیا اور رسولِ رحمت حضرت محمد مصطفےﷺ نے استعمال کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’دو خونخوار بھیڑیے معصوم بھیڑوں کے گلے میں اتنا نقصان نہیں پہنچاتے‘ جتنا اقتدار اور دولت کی ہوس میں ڈوبے ہوئے انسان تباہی مچاتے ہیں‘‘۔ (نسائی، ترمذی، مسند احمد بن حنبل، ابن حباّن)۔ ہادی برحقؐ کا ارشاد کیا گیا یہ قول تاریخ کی عظیم ترین سچائی ہے۔ اسی لیے آپ نے امت کے لیے ایک قاعدہ اور کلیہ بتا دیا کہ ہم اقتدار یا اختیار اس کو نہیں دیں گے جو اس کی خواہش رکھتا ہو۔ آپؐ کی یہ حدیث بھی تمام احادیث کی کتابوں میں ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت سے موجود ہے۔ اقتدار اور اختیار کی خواہش جمہوریت کا ’’حسن‘‘ ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو قوم کا نجات دہندہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ ہر کسی کے پاس ملک کو سنوارنے اور سدھارنے کا ایک جامع منصوبہ ہوتا ہے۔ اس کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ترانے لکھے جاتے ہیں۔ اس کی مدح میں کتابیں اور عوام کے لیے پوسٹر اور پمفلٹ تحریر ہوتے ہیں۔ پھر اقتدار اور دولت کی ہوس میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ اقتدار کی کرسی پر جا بیٹھتے ہیں اور دولت کی ہوس ان میں کرسی سے چمٹے رہنے کی آرزو پیدا کرتی ہے۔ یہی وہ ہوس ہے جو جمہوری طورپر منتخب ایک وزیراعظم یا سربراہ مملکت کو دوسرے سے خونخوار لڑائی میں مصروف کردیتی ہے اور شکار ان کی آپس کی لڑائی میں ہاتھوں سے نکل جاتا ہے اور سرکنڈوں کے پیچھے بیٹھا شیر تاک کر اس پر حملہ کرتا ہے اور یہ بھیڑیے پھر اس کے شکار کے بچے کھچے حصے میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ جمہوریت کی معراج یہ ہے کہ یہ بھیڑیوں کو مل بانٹ کر کھانا سکھاتی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی جمہوریت مستحکم ہوئی اس کی ایک پہچان ہے… ’’پرامن انتقالِ اقتدار‘‘۔ قوم کتنی بالغ نظر ہوگئی ہے، اس میں جمہوری اقدار کس قدر رچ بس گئی ہیں کہ ایک پارٹی، ایک گروہ، ایک صدر، ایک وزیراعظم دوسرے کے لیے اقتدار چھوڑتا ہے اور پھر اگلے پانچ سال تک انتظار کرتا ہے۔ کبھی کبھی اور کہیں کہیں یہ باری لمبی بھی ہوجاتی ہے‘ اس لیے کہ بھیڑیں یعنی عوام کسی ایک سے لٹنے یا اس کے طریقہ واردات کی گرویدہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ ہم بالغ نظر ہوگئے ہیں، ہم جمہوری راستے پر چل نکلے ہیں، عالمی سطح پر ہم ایک مہذب قوم کہلانے کے قابل ہوگئے ہیں اور آہستہ آہستہ اگر یہ سسٹم چلتا رہا تو پھر ایک استحکام آجائے گا۔ ہم نے سسٹم کو بچا لیا۔ ہم نے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈال دیا‘ لیکن اس پٹڑی پر ہزاروں لوگوں کا خون اور کروڑوں لوگوں کی آرزوئیں اور امنگیں کچلی پڑی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو کچھ عرصے بعد ہمیں بہترین قیادت میسر آجائے گی۔ کئی سوسال الیکشن کرانے کے بعد امریکہ میں ہر چار سال بعد صاف ستھری، ایماندار اور لوگوں کی رائے سے چنی ہوئی قیادت سامنے آتی ہے۔ یہ عام سے لوگ نظر آتے ہیں لیکن دولت کی ہوس میں گم یہ نقلی بھیڑیے ایسے ہیں کہ امریکہ کا کُل جی ڈی پی 15ٹریلین ڈالر (پندرہ ہزار ارب ڈالر) ہے اور امریکہ کا کل قرضہ 16ٹریلین ڈالر (سولہ ہزار ارب ڈالر) ہے، یہ ہوگئے کُل 31ٹریلین ڈالر (اکتیس ہزار ارب ڈالر) لیکن امریکہ کی جمہوریت کے سرپرست سرمایہ داروں نے 32ٹریلین ڈالر ’’کیمین‘‘ جزیرہ پر چوری کرکے رکھا ہوا ہے اور کوئی ایک آواز بھی بلند نہیں ہوتی کہ ہمارے عوام کے خون پسینے کا سرمایہ ٹیکس بچانے کے لیے کیوں رکھا ہوا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب کے سب جمہوری قائدین ان بڑے بھیڑیوں کے سرمایے سے چلتے ہیں اور ان کے سرمایے سے منتخب ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک منزل طے کرلی ہے۔ پُرامن انتقال اقتدار کی منزل‘ لیکن ابھی ایک اور منزل باقی ہے۔ جمہوری اور ’’مہذب‘‘ دنیا میں بظاہر اقتدار میں نظر آنے والا بھیڑیا دولت نہیں کماتا، مال جمع نہیں کرتا۔مال جمع کرنے والے اور دولت کمانے والے اور ہوتے ہیں جو پارٹی فنڈ کے ذریعے اس سامنے اور بظاہر نظر آنے والی قیادت کو مالا مال کرتے ہیں۔ یہ سامنے کی قیادت خون چوسنے اور ہڈیاں نوچنے کے لیے ایک پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ ہوتی ہے ۔ اسے برسراقتدار لایا جاتا ہے اور پیچھے بیٹھے بھیڑیے لوٹ مار کرتے ہوئے تباہی پھیلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی تک دونوں ایک ہیں۔ دولت لوٹتے ہیں اور اقتدار پر قبضہ بھی کرتے ہیں۔ ملیں بھی بناتے ہیں اور الیکشن بھی لڑتے ہیں۔ جمہوریت کی اگلی منزل کمال کی ہے۔ دولت لوٹنے اور مال بنانے والے اور ہوں گے اور اقتدار میں آکر ان کے اشاروں پر ناچنے والے دوسرے۔ پھر دیکھنا‘ سب کہیں گے‘ اب جمہوریت مزید مستحکم ہوگئی ہے۔ عام آدمی اسمبلیوں میں جاپہنچا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں جا بیٹھا ہے۔ لیکن اس عام آدمی کے ہاتھ، منہ، زبان اور دماغ تک کسی دوسرے کے قبضے میں ہوں گے۔ اسے کہتے ہیں جمہوریت کی معراج۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved