پاکستان اس وقت شدید اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، حکومت ہاتھ پائوں مار رہی ہے، آئی ایم ایف سے بھی مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے، لیکن ایک منتخب حکومت کے لیے جو عوام کے سامنے جوابدہ ہو، اُن کی کڑی شرائط کو قبول کرنا آسان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا فارمولا سیدھا سادہ ہے: وہ اُس صورت میں امداد دے سکتا ہے کہ حکومت ٹیکسوں کی شرح اس حد تک بڑھائے کہ ملکی اخراجات کے مقابلے میں قومی آمدنی زیادہ ہو اور حکومت قرض کی اقساط مع سود ادا کر سکے، اندھے کنویں میں زر و جواہر کے انبار کوئی بھی پھینکنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ اس معاشی بحران کی ساری ذمہ داری صرف موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی، اس میں پچھلی حکومتوں کی ناکام اقتصادی پالیسیوں، غیر دانشمندانہ فیصلوں اور آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں سے انحراف کا بھی بڑا دخل ہے، سو اس کی ذمہ داری سابق اور موجودہ‘ ساری حکومتوں پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے؛ اگرچہ اُن میں سے ہر ایک اپنا دامن جھاڑ کر سارا ملبہ دوسرے پر ڈالنا چاہتی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روس یوکرین جنگ اور بعض عالمی محرّکات کے سبب اس وقت پوری دنیا میں ناقابلِ برداشت منہگائی کی لہر آئی ہوئی ہے، امریکہ؍ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اُن کی معیشتیں ہماری طرح بے حال نہیں ہیں، بلکہ مستحکم ہیں اور وہ اپنے عوام کو خاطر خواہ نہیں تو مناسب حد تک ریلیف دینے کی پوزیشن میں رہتی ہیں، جبکہ ہمارے قومی خزانے اور آمدنی کے وسائل میں ایسی سکت نہیں ہے؛ تاہم یہ سوال پیدا ہوتا ہے: وہ اشیاء جن کا انحصار درآمد پر ہے، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر غیر معمولی رفتار سے گرنے کے سبب اُن کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ تو قابلِ فہم ہے، لیکن اشیائے خوراک یعنی آٹا، دال، سبزیاں اور گوشت و دیگر اشیائے صَرف جن کا انحصار درآمد پر نہیں ہے، وہ مارکیٹ سے کیوں غائب ہو رہی ہیں، اُن کی اچانک غیر معمولی قلت اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کا جواز کیا ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے اور کسی معاشی ماہر نے اس کے اسباب کی نشاندہی بھی نہیں کی، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نظام پر حکومت کی گرفت کمزور پڑنے کے سبب تاجر حضرات بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کر کے رسد اور طلب میں توازن کو بگاڑ رہے ہیں تاکہ غیر فطری رفتار سے قیمتوں کو بڑھایا جا سکے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، امن وامان کا قیام، قیمتوں پر کنٹرول، اشیائے ضرورت کی رسد کا انتظام اور ان پر نظر رکھنا صوبائی حکومتوں کے دائرۂ کار میں آتا ہے، لیکن چونکہ پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومتیں پی ٹی آئی کی ہیں، اس لیے وہ وفاق کے ساتھ تعاون پر آمادہ نہیں ہیں، بلکہ صورتِ حال کو وفاق کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ صوبائی رابطے کی وزارت فعال نظر نہیں آ رہی، یہ بھی دیکھنے میں نہیں آ رہا کہ وفاقی وزیر خوراک و پیداوار کی سربراہی میں تمام صوبائی وزرائے خوراک و پیداوار کے اجلاس ہو رہے ہوں اور کوئی متفقہ اور جامع حکمتِ عملی تیار کی جا رہی ہو۔ توانائی کا بحران بھی قومی مسئلہ ہے، لیکن نہ صوبے وفاق کے فیصلوں کی تائید و حمایت کر رہے ہیں اور نہ اُن کے نفاذ میں مُمِدّ و معاون بن رہے ہیں، یہ صورتِ حال انتہائی حد تک تشویش ناک ہے۔ عقل و دانش اور حکمت و تدبر کا تقاضا یہ ہے کہ گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھ کرقومی مسائل کو ترجیح دی جائے۔ پس قومی سطح پر پالیسیوں کو مربوط، منضبط اور قابلِ عمل بنانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطۂ کار ضروری ہے۔ اگر سیاست دانوں کی ایک دوسرے سے نفرتیں حد سے بڑھ گئی ہیں اور آمنے سامنے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو کم از کم صوبائی چیف سیکرٹریوں اور متعلقہ محکموں کے سیکرٹریوں کو یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام اجلاسوں میں شریک ہوں، اتفاقِ رائے سے فیصلے کریں اور عوام کے مفاد میں اُن پر عمل درآمد کرنے میں تعاون کریں، کیونکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، لیکن وطنِ عزیز پاکستان نے ان شاء اللہ العزیز تاقیامت قائم رہنا ہے اور اس کی بقا، فلاح، سلامتی اور مفاد سب کو عزیز ہونا چاہیے۔
ماضی میں صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ملک میں راشننگ کا نظام رائج رہا ہے، محلے‘ محلے میں راشن ڈپو کھلے ہوتے تھے اور راشن کارڈ پر خاندان کے افراد کی تعداد کے تناسب سے راشن کا سامان حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر دیا جاتا تھا، بعد میں جب حالات بہتر ہوئے تو راشننگ کا نظام ختم کر دیا گیا۔ لیکن اگر حالات بے قابو ہو گئے ہیں اور اشیائے خوراک و اشیائے ضرورت کی طلب و رسد میں توازن قائم نہیں رہا تو حکومت پر لازم ہے کہ عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرے۔ ہمارے قومی میڈیا کو بھی چاہیے: عوامی مسائل و مشکلات کی ضرور نشاندہی کرے، لیکن ایسا منظر پیش نہ کرے کہ ملک میں ہیجان برپا ہو جائے، سراسیمگی پھیل جائے اور لوگ اشیائے صرف کو ضرورت سے زیادہ مقدار میں خرید کر گھروں میں سٹاک کرنے لگ جائیں۔ ہم نے بارہا لکھا ہے: ہم ایک خود ملامتی قوم بن کر رہ گئے ہیں، اپنی انفرادی اور اجتماعی خامیوں کو آشکار کرنا اور اُن کی تشہیر کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے، کیونکہ ایسا تو نہیں ہے کہ تئیس کروڑ کی آبادی میں ہر چیز ہر لحاظ سے بری ہی بری ہو، معاشرے میں کئی اچھے پہلو بھی ہوتے ہیں، اچھے افراد اور ادارے بھی ہوتے ہیں، اچھے رویے اور رجحانات بھی ہوتے ہیں، اچھے مثالیے بھی ہوتے ہیں، اُن کو بھی سامنے لایا جائے تاکہ ہمارا ایک اچھا قومی و ملّی تشخّص دنیا کے سامنے آئے۔
9 جنوری کو جنیوا میں پاکستان کے سیلاب زدگان کی اعانت اور بحالی کے لیے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے اشتراک سے ''عالمی ڈونرز کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی ہے اور اُس میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، ایشین انفراسٹرکچر انویسمنٹ بینک، یو ایس ایڈ، فرانس، یورپی یونین، جرمنی، چین، جاپان، برطانیہ وغیرہ کی جانب سے بحالی اور تعمیرِ نو کے لیے مجموعی طور پر تقریباً نو ارب ڈالر سے زائد کے وعدے کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے یہ رقم یکمشت نہیں ملے گی، کئی برس پر محیط ہو گی، زیادہ تر منصوبوں کی صورت میں ہو گی، لیکن اس سے پاکستان کی معیشت کو یقینا سہارا ملے گا۔ اس بات کا بھی امکان ہے: آئی ایم ایف بھی اپنی شرائط میں کچھ نرمی دکھائے، پاکستان کے معاشی جائزے کے عمل کو تیز کرے اور اگلی اقساط کا اجرا کر دے۔ وزیراعظم پاکستان کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اس کانفرنس کے شریک صدر تھے، اُنہوں نے پاکستان کے حق میں ہمدردانہ اور حوصلہ افزا باتیں کیں، عالمی برادری اور عطیہ دہندہ اداروں کو ترغیب دی اور اس بات کا احساس دلایا کہ پاکستان اُن موسمیاتی و ماحولیاتی تباہیوں کا شکار ہے، جس کی ذمہ داری پاکستان سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے نوّے فیصد متاثر ہوا ہے، جبکہ ماحولیاتی تباہ کاری کے اسباب پیدا کرنے میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ ماحول کو برباد کرنے والی گیسوں کا اخراج زیادہ تر ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک کی طرف سے ہوتا ہے، لیکن متاثر سب سے زیادہ پاکستان ہوا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ''عالمی عطیہ دہندگان‘‘ کو یقین دلایا ہے کہ اس رقم کو دیانت و امانت سے خرچ کیا جائے گا اور تھرڈ پارٹی یعنی غیر جانبدارانہ آڈٹ بھی کرایا جائے گا تاکہ اُن کا اعتماد قائم رہے۔ بظاہرعالمی مالیاتی اداروں اورحکومتوں کی اعلان کردہ امدادی رقوم میں زیادہ حصہ نرم شرائط کے طویل المدتی قرض پر مشتمل ہے جس کی ادائیگی کرنی ہو گی اور کچھ حصہ عطیات کی صورت میں ہے۔
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قومی المیے کے موقع پر داخلی اور خارجی سطح پر پاکستان کے تاثر کو خراب کرنے میں بعض سیاسی جماعتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہم سب کا وطن ہے، آنے والے انتخابات کے نتیجے میں موجودہ حکومت کو اقتدار کا تسلسل ملے یا نئی حکومت اقتدار میں آئے، اُس کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، حالات کا بگاڑ اُس کے لیے بھی نقصان دہ ہو گا۔ اگرچہ ہم سیاسی نفرتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، لیکن قومی اور ملّی مفادات کو سیاسی خلافیات سے بالاتر رکھنا چاہیے، حُبُّ الوطنی کا تقاضا یہی ہے۔ ہم بارہا لکھ چکے ہیں: اگر ہم نے ایک باحمیت اور غیور قوم کی حیثیت سے جینا ہے اور اقوامِ عالَم کے درمیان اپنا مقام بنانا ہے تو اس کا راستہ ایک ہی ہے: اپنی آمدنی کے وسائل میں اضافہ، برآمدات پر مبنی صنعتوں کا قیام اور اُن کی حوصلہ افزائی، پُرتعیّش ساز و سامان کی درآمد پر مکمل پابندی اور اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اپنا قومی بجٹ بنانا اور اس کی پابندی کرنا ہے۔ اس وقت تو ہم نے ایک ہی حکمتِ عملی اختیار کی ہوئی ہے: ''موجودہ قرضوں کی ادائی کے لیے نئے قرض لینا‘‘ اور اگر یہی شعار خدانخواستہ جاری رہا تو خاکم بدہن وہ وقت دور نہیں کہ یہ قرض ہماری پوری قومی آمدنی پر محیط ہو جائیں گے اور پھر ہمیں اپنے قومی اثاثے گروی رکھنا پڑیں گے۔
ابھی تو ایک دوسرے کو ملامت کرنا ہمارا شِعار بن گیا ہے۔ جنابِ عمران خان اب بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہی ملک کے نَجات دہندہ ہیں اور ملک کو بحران سے نکال سکتے ہیں، حالانکہ اُن کے ساڑھے تین سالہ دور میں قرضوں کا تناسب ماضی کے بہتّر سالوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہا ہے، جبکہ اُن کے کریڈٹ پر ملک کے اندر کوئی قابلِ ذکر معاشی منصوبہ بھی نہیں ہے، سو دوبارہ آنے کی صورت میں بھی اُن سمیت کسی بھی سیاسی قیادت سے کسی بڑے انقلابی اقدام کی توقع نہیں ہے۔ شروع میں انہوں نے نمود و نمائش کے لیے وزیراعظم ہائوس کی پرانی گاڑیاں نیلام کیں، لیکن پھر اپنے اقتدار کے پورے دورانیے میں ہیلی کاپٹر اور جہازوں پر سفر کرتے رہے، حتیٰ کہ وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے بعد بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ہیلی کاپٹر استعمال کر رہے ہیں، اس کے باوجود دوسروں کو مقابلے میں حقیر سمجھتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے تکبر کی تعریف میں فرمایا تھا: ''تکبر حق کے انکار اور لوگوں کو اپنے مقابلے میں حقیر جاننے کا نام ہے‘‘ (صحیح مسلم: 91)۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved