تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-01-2023

یہ غلطی مت کیجئے گا

ملک میں اس وقت کالعدم ٹی ٹی پی کی دوبارہ آمد کے حوالے سے سراسیمگی پائی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ خیبر پختونخوا کا کچھ علاقہ کالعدم تحریک طالبان یا اس سے علیحدہ ہونے والے خراسانی گروپ کے زیرِ اثر ہو سکتا ہے۔ وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں دہشت گرد امن و امان کو خراب کرتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھئے کہ ان گروپوں اور دہشت گردوں کے لیے اب وہ حالات موجود نہیں ہیں‘ جو آج سے دس‘ پندرہ سال پہلے انہیں میسر تھے۔ ملک بھر کے عوام نے بالعموم اور خیبر پختونخوا کے لوگوں نے بالخصوص تباہی اور بربادی کے جو زخم اپنے سینوں پر برداشت کیے ہیں‘ ان کی ہلکی سی ٹیس بھی انہیں تڑپا کر رکھ دیتی ہے اور اب وہ کسی صورت نہیں چاہیں گے کہ پھر سے وہی آگ ا ور خون کی بارش ہو۔ سوات سمیت مختلف علاقوں کے لوگوں نے گھر سے نکل کر جس طرح بھرپور احتجاج کیا ہے‘ اس نے واضح کر دیا کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ یہ 2010ء نہیں ہے کہ طالبان کو دیکھ کر ہم بھاگ جائیں گے۔ اس لیے تمام فیصلہ ساز قوتوں کو ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اگر پھر سے خیبر پختونخوا کو دہشت گردی کے الائو میں جھونکا گیا تو ردعمل وہی ہو گا جو سوات کے عوام نے سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں نکل کر دکھایا ہے۔
ہمارے سیاسی دماغ اور فیصلہ ساز ابھی تک ستر‘ اسی اور نوے کی دہائی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سرخ دائرہ لگانے کی باتیں کرنے والے زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اب جنوبی وزیرستان میں رہنے والے شہری کو بھی علم ہے کہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں کیا فیصلے ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے لوگ بھی وہی حقوق مانگتے ہیں جو ریاست کے ہر شہری کا بنیادی حق‘ اور جو اسلام آباد کے شہریوں کو میسر ہیں۔ اس حقیقت کو جس قدر جلد تسلیم کر لیں‘ اسی قدر بہتر ہو گا کہ یہ 70ء کی دہائی نہیں ہے۔ 23 مارچ 1973ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جو ہوا‘ اس کو اپنی یادوں میں تازہ کر لیجیے اور یہ بھی ذہن نشین کر لیں اب دور بدل چکا ہے۔ 23 مارچ 1973ء کو راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں متحدہ جمہوری محاذ کا ایک جلسہ ہونا تھا۔ ابھی مرکزی قیادت جلسہ گاہ میں پہنچنا شروع ہوئی تھی کہ جلسہ گاہ میں فائرنگ ہو گئی جس سے پختون زلمے کے بارہ نوجوان‘ جو خان عبدالولی خان اور اجمل خٹک کے ساتھ مردان اور چارسدہ سے احتجاجی جلسے میں شرکت کیلئے آئے تھے‘ ہلاک ہو گئے۔ جب ان نوجوانوں کی لاشیں پشاور گئیں تو صوبہ سرحد اور وفاق میں ایک خلیج پیدا ہو گئی۔ خیبر پختونخوا کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالبعلموں کو ورغلا کر ان کی اچھی خاصی تعداد کو کابل اور جلال آباد کی جانب بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ریاست کے دشمنوں نے اس جوان خون کو اس طرح استعمال کیا کہ افغانستان میں بیٹھ کر پانچ سال تک یہ لوگ پاکستان کی فورسز کیساتھ لڑتے رہے۔ متعدد تخریبی کارروائیاں کی گئیں، عسکری قافلوں پر حملے ہوئے اور پاکستا ن میں خاد اور را کی مدد سے بم دھماکے کرائے گئے۔ اس وقت آج کی طرح تباہ کن بارودی مواد اور خود کش حملوں کا رواج نہیں تھا مگر اس کے باوجود نہ صرف صوبہ سرحد (کے پی) بلکہ پنجاب تک میں بم دھماکے کیے گئے۔ انہی دنوں لاہور کے واپڈا ہائوس اور ریلوے سٹیشن پر ہوئے بم دھماکے بہت سے لوگوں کو یاد ہوں گے۔ 25 مئی 2022ء کو اپنے کالم بعنوان ''خبردار‘ خبردار‘‘ میں مَیں نے اپوزیشن کو طاقت کے زور سے روکنے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو خبردارکیا تھا مگر حکومت ''طاقت کے زور پر کچلنے‘‘ کی پالیسی پر کاربند رہی۔ پنجاب میں جو کچھ ہوا‘ وہ اس حکومت کے کارناموں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید کے گھر کا دروازہ تک توڑ دیا گیا‘ صرف اس جرم میں کہ ان کا صاحبزادہ عمران خان کی پارٹی کا رہنما ہے۔ خیبر پختونخوا سے آنے والوں قافلوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا‘ وہ بھی سیاہ حرفوں کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ تو بھلا ہو عمران خان کا‘ جس نے ان قافلوں کو ٹھنڈا کر کے واپس خیبر پختونخوا بھجوا دیا۔ اگر عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو سیاسی میدان میں کیجئے‘ نہ کہ دھونس و طاقت سے۔
گزشتہ ایک‘ ڈیڑھ دہائی میں جنوبی اور شمالی وزیرستان سمیت اورکزئی اور باجوڑ میں کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے مختلف گروپوں نے جو تباہی مچائی‘ وہ پوری قوم کو آج بھی ایک ڈرائونے خواب کی طرح یاد ہے۔ افواجِ پاکستان نے خون کا دریا بہا کر اور اپنے جوانوں کی شہادتیں دے کر جس طرح اس فتنے کا مقابلہ کرتے ہوئے اسے ختم کیا‘ اسے دورِ جدید میں ایک کرشمہ ہی کہا جائے گا۔ سوات میں رجیم چینج کے دوسرے ہی ماہ دہشت گردوں نے جس طرح اپنی آمد کا اعلان کیا‘ وہ حیران کن ہی نہیں بلکہ انتہائی پریشان کن بھی تھا۔ گزشتہ دنوں خانیوال میں قوم کے بہادر اور فرض شناس سپوتوں نوید صادق اور عامر عباس کی دہشت گردوں کے ہاتھوں جس طرح ٹارگٹ کلنگ ہوئی‘ وہ معمولی واقعہ نہیں ہے۔ شیر دل نوید صادق کی شہادت قوم کو لگنے والا وہ زخم ہے جس کی ٹیس بہت دیر تک ستاتی رہے گی۔ ( قوم کے ان شیر جوان بیٹوں کی خدمات پر ایک علیحدہ کالم میں روشنی ڈالو ں گا)۔ یہ شہادتیں واضح طور پر اشارہ دے رہی ہیں کہ خراسانی گروپ کے دہشت گردوں کا نیٹ ورک جنوبی پنجاب میں پھر سے منظم اور فعال ہو چکا ہے۔ پہلے سوات اور پھر دیر میں یکدم ٹی ٹی پی کی موجودگی کی اطلاعات ملنے پر جس طرح پورا علاقہ انتہائی غصے اور بپھرے ہوئے موڈ میں سڑکوں پر نکل آیا تھا‘ اس میں بہت سے پیغامات مضمر ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان علاقوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبریں پھیلائی جا رہی تھیں کہ پھر سے کوئی نیا ملا فضل اللہ اپنے لشکر سمیت سوات اور دیر کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ہر پاکستانی سوات کی خبریں سن کر چونک گیا اور سوچنے لگا کہ کہیں ایک‘ ڈیڑھ دہائی قبل والا دور پھر سے تو نہیں آ رہا۔ اگر ایسا ہوا تو سوچئے ملک کا کیا بنے گا؟ اس سلسلے میں پی ٹی آئی رہنما مراد سعید نے قومی میڈیا پر بغیر کسی لگی لپٹی کے جو کچھ کہا‘ وہ بہت فکر انگیز ہے۔ملا فضل اللہ گروپ کی دہشت گردی کا بے تحاشا قربانیاں دیتے ہوئے جس بہادری اور مہارت سے ہماری مسلح افواج نے مقابلہ کیا‘ وہ سنہرے حرفوں سے لکھے جانے والی تاریخ ہے۔ اہالیانِ سوات اب تک جگہ جگہ پھانسی گھاٹوں‘ کئی کئی دن تک لٹکتی لاشوں اور ہر جانب خون اور آگ کے شعلوں کے مناظر بھلا نہیں پائے ہیں۔ یہ تلخ یادیں آج بھی انہیں بے چین رکھتی ہیں۔ اپنی جغرافیائی حدود کی وجہ سے لوئر دیر اور سوات خاصی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ لوئر دیر سوات اور قبائلی علاقوں کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔ 2008-09ء میں اس علاقے میں دہشت گردوں کی عملداری قائم ہونے کی وجہ سے سوات اور باجوڑ ایجنسی کے درمیان شدت پسندوں کی بلا روک ٹوک آمد و رفت کے حوالے سے یہ ایک باقاعدہ راستے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ لوئر دیر پر جیسے ہی دہشت گردوں کا کنٹرول ہوا تو چترال جیسا علاقہ بھی پاکستان سے زمینی طور پر کٹ گیا تھا۔
ابتدا میں بیان کر چکا ہوں کہ اگر عمران خان کے خلاف کسی نئی سازش یا ریڈ سرکل لگانے جیسے کوئی حرکت ہوئی تو سب سے زیادہ ردعمل خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں سے آئے گا۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو انتقام کی اس لہر کو اپنے حق میں موڑنے کے لیے پھر سے سردار دائود خان جیسے عناصر سرگرم ہو جائیں گے‘ جو کابل اور جلال آباد میں پشتون زلمے کے جوانوں کو گوریلا ٹریننگ دیا کرتے تھے۔ 6 جنوری کو وانا اور جنوبی وزیرستان کے مختلف اضلاع میں محسن داوڑ کی قیادت میں ہونے والے امن مارچ میں عوام کی بھاری تعداد کی شرکت اور عمران خان کے حق میں گونجنے والے نعروں کو سامنے رکھیے۔ مت بھولیے کہ کرم ایجنسی میں ہونے والے حالیہ ضمنی الیکشن میں ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں اور منظور پشتین کی مکمل حمایت کے باوجود ان سب کو خان نے چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ وانا اور وزیرستان کے حالیہ امن مارچ کی وڈیوز ایک نہیں‘ کئی بار دیکھیں۔ جلتی پر تیل ڈالنے کی غلطی مت کیجئے۔ امن کے خواہشمند نوجوانوں کی پکار پر کان دھریں اور اس خطے کو دوبارہ آتش و بارود کے جہنم میں دھکیلنے سے باز رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved