پنجاب اسمبلی عمران خان صاحب کو پیاری ہو چکی اور خیبرپختونخوا والی کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں‘ دو‘ تین روز میں وہ بھی اپنی پنجابن سہیلی کے پاس پہنچ چکی ہو گی۔ دونوں خلد آشیاں ہوں گی یا کسی اور جگہ ٹھکانہ کریں گی‘ اس بارے میں کچھ نہ کہنا ہی کہنے سے بہتر ہے۔ صبر کا گھونٹ پی کر اُن کے نئے جنم کا انتظار کریں۔ دستور میں لکھا ہوا ہے کہ90 دن کے اندر اندر انتخابات ہوں گے‘ اور دونوں اسمبلیوں کی عمارتوں میں پھر وہ کچھ شروع ہو جائے گا جو اس سے پہلے ہو رہا تھا۔نئے انتخابات کے نتیجے میں کتنے نئے چہرے یہاں رونق افروز ہوں گے اور کتنے پرانے اپنی جگہ واپس لینے میں کامیاب ہو جائیں گے‘اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔عمران خان کے حامیوں کو یقین ہے کہ نہ صرف خیبرپختونخوا پر اُن کا پرچم لہراتا رہے گا بلکہ پنجاب اسمبلی میں بھی اُن کی بلا شرکت غیرے اکثریت ہو گی اور یوں وہ دونوں صوبوں میں دندناتے پھریں گے۔ وفاقی حکومت کا جینا حرام کر دیں گے اور اُسے انتخابی تالاب میں غوطہ لگانا پڑے گا۔ مسلم لیگ(ن) اور اُس کے ہم نوا اپنے آپ کو اور دوسروں کو یہ یقین د لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا‘ وہ اُنہیں جھاڑ پونچھ کر دوبارہ اپنی ٹوکری میں ڈال لیں گے۔پنجاب پر اُن کا پھریرا لہرانے لگے گا اور خیبرپختونخوا میں بھی مولانا فضل الرحمن وغیرہ وغیرہ وغیرہ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کو ناکوں چنے جبوا دیں گے۔
تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ(ن) یا پیپلزپارٹی یا کوئی اور جماعت‘ سب کا تعلق پاکستان سے ہے۔ سب کا دعویٰ پاکستان کے حالات کو بہتر بنانے کا ہے۔ہر ایک کا الزام ہے کہ اُس کے حریف نے معاملات کو بگاڑا ہے‘ایسا کوئی بھی نہیں جو پہلی بار اقتدار میں آنے کا خواب دیکھ اور دکھا رہاہو‘ ہر ایک نے کبھی نہ کبھی‘ کہیں نہ کہیں اقتدار کا لطف اٹھایا ہے اور اپوزیشن کا مزہ بھی چکھا ہے۔اس لیے اُن میں سے جو بھی اقتدار میں آئے گا اور جو اپوزیشن بنچوں پر بٹھا دیا جائے گا‘ اُس کے لیے کچھ نیا ہو گا‘ نہ اہل ِ پاکستان کے لیے ؎
ہے ادب شرط‘ منہ نہ کھلوائیں
ہم نے سب کا کلام دیکھا ہے
پاکستان میں جو بھی سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں‘جب بھی انتخابات ہوئے ہیں‘ان ہی میں سے کوئی جیتا اور کوئی ہارا ہے۔اب بھی جو انتخابات ہوں گے‘اُن میں بھی ان ہی میں سے کوئی جیتے یا ہارے گا۔اس کے باوجود اُنہیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے کا سبق یاد نہیں ہو رہا۔یہ کبھی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتی ہیں تو کبھی صدقے واری جاتی ہیں۔ کبھی اتحاد کے فوائد بتانے پر لگ جاتی ہیں اور کبھی تنہا مہم جوئی کے خبط میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔اس وقت عمران خان ایک طرف ہیں تو اُن کے خلاف بارہ‘ تیرہ رکنی اتحاد قائم ہے۔ ایک دوسرے کو زِچ کرنے میں زندگی گزارنے والے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے خان صاحب کو زِچ کرنے میں لگے ہیں اور خان صاحب ہیں کہ پکڑائی نہیں دے رہے۔ جب سے اقتدار اُن کے گھر سے رخصت ہوا ہے‘ اُن کے تیور بدل گئے ہیں‘وہ ''خطرے ناک‘‘ ہو چکے ہیں۔ اُن کی یہ ''خطرے ناکی‘‘ کس کس کو کب کب اور کہاں کہاں خون کے آنسو رلائے گی اور بالآخر اُن کی اپنی آنکھوں میں کتنا خون ہو گا اور کتنا پانی‘ اس بارے میں ہر شخص اپنا اپنا اندازہ لگانے کے لیے آزاد ہے۔اس عوام نامی شے کی طرف لگتا ہے کوئی توجہ نہیں ہے‘جس کے نام پر کاروبارِ سیاست چمکایا جا رہا ہے۔عوام پریشان ہیں کہ سیاسی عدم استحکام اُنہیں کہاں لے جائے گا‘ معیشت کے ساتھ کیا گزرے گی‘ مہنگائی میں کتنا اضافہ ہو گا‘ ڈالر کتنا اوپر چلا جائے گا‘ روپیہ کس قدر گرے گا‘ درآمد کی جانے والی ہر شے آسمان کی طرف کس رفتار سے اُڑتی نظر آئے گی۔وہ سیاسی رسہ کشی کا طویل دورانیے کا ڈرامہ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ 90دن کے اندر اندر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ہوں گے۔اُس کے بعد سندھ‘ بلوچستان اور قومی اسمبلی کے انتخابات کا مرحلہ درپیش ہو گا‘آنے والے کئی مہینے پورا ملک اکھاڑہ بنا رہے گا۔قومی اسمبلی کی جن نشستوں سے تحریک انصاف استعفے دے چکی ہے‘ اگر وہاں ضمنی انتخابات کی نوبت آ گئی تو اس کے الگ مزے ہوں گے‘ اتنی کم مدت کیلئے اتنی زیادہ نشستوں پر انتخاب کرانے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم ہو جائے گا۔ اگر تحریک انصاف اپنی خالی کردہ نشستوں پر پھر جیت گئی‘تو پھر اُس نے استعفے دے دینا ہیں کہ موجودہ قومی اسمبلی میں تو رونق افروز ہونا اُس کے ایجنڈے میں نہیں۔یوں کروڑوں‘اربوں روپے ہوا میں اڑ جائیں گے‘ گویا ایسی دیگیں پکائی جائیں گی جنہیں کھانے والا کوئی نہیں ہو گا۔
عمران خان اور اُن کے حریف جو ایک دوسرے کے ساتھ معانقہ تو کیا‘ مصافحہ کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران باہم شیر و شکر تھے‘ بے نظیر بھٹو‘ نوازشریف اور عمران خان ایک دوسرے کی طاقت بنے ہوئے تھے‘ اگر چند برس پہلے ایسا ہوسکتا تھا تو اب کیوں نہیں ہو سکتا؟ کیوںیہ مل بیٹھ کر انتخابات کے انتظامات اور تاریخ پر ایکا نہیں کر سکتے‘ کیوں عوام کے اعصاب کو سکون فراہم کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے؟یہ سوال اُن سب خواتین و حضرات کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے اور پاکستان کے عوام کو بھی اُن سے پوچھنا چاہیے‘اُن کا دامن ہی نہیں گریبان پکڑ کر جواب مانگنا چاہیے۔ محاورے کی زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ راوی کے پلوں سے بہت سا پانی گزر گیا ہے‘ اس کے باوجود متوقع سیلابی ریلے سے محفوظ رہنے کے بارے میں سوچنے کا فائدہ موجود ہے۔ اللہ کے بندو‘ ایک دوسرے کی سنو‘ ایک دوسرے کو سنائو‘ کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنائو‘ انتخابی عمل کو طویل تر کرنے کے بجائے مختصر کرو‘ نئے انتخابات کی تاریخ طے کر لو‘ انتظامات پر اتفاق کر لو‘ معیشت کو سنبھالنے کے لیے اقدامات پر جھگڑا نہ کرو‘اگر عدلیہ بحالی تحریک میں ایک جگہ بیٹھ سکتے تھے تو بحالی عوام تحریک میں یکجا کیوں نہیں ہو سکتے؟
مشرقی پاکستان‘ ٹوٹا ہوا تارا
پاکستان کے ممتاز ترین اخبار نویس جناب الطاف حسن قریشی نے ستمبر1964ء سے لے کر سقوط ِڈھاکہ تک‘ مشرقی پاکستان کے متعدد دورے کیے‘ وہاں کے اہلِ دانش اور اہل ِسیاست سے ملاقاتیں کیں‘ عوام کے ذہنوں اور دِلوں میں جھانکا‘اُن کے چہروں پر لکھی ہوئی داستانیں پڑھیں اور مغربی پاکستان کے رہنے والوں کو سناتے اور بتاتے رہے۔ وہ ماہنامہ ''اردو ڈائجسٹ‘‘ کے مدیر تھے لیکن جو کام اُنہوں نے کیا‘ وہ روزناموں کے مدیر نہیں کر سکے۔ اُن کی زندہ تحریروں کا 14 سو صفحات پر مشتمل مجموعہ اُن کے جواںسال پوتے ایقان حسن قریشی نے ''مشرقی پاکستان‘ ٹوٹا ہوا تارہ‘‘ کے زیر عنوان کتابی صورت میں مرتب کیا ہے جسے شائع کرنے کی سعادت علامہ عبدالستار عاصم کے ادارے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کو حاصل ہوئی ہے۔مجموعہ ایک تاریخی دستاویز ہے‘سیاست اور صحافت کے طالب علموںکو اسے بار بار پڑھنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ایک بیدار مغز اخبار نویس نے کس طرح اپنی قوم کو حالات سے آگاہ کیا‘ اہل ِ اختیار کو خبردار کیا‘اپنا فرض ادا کیا‘اگر اقتدار کے ایوانوں پر قابض لوگ اپنی آنکھیں اور کان بند نہ کر چکے ہوتے تو ہم اس سانحے سے بچ سکتے تھے‘ طوفان کا رخ موڑ سکتے تھے۔ جو کچھ ہو چکا‘ اُسے تاریخ کے صفحات سے مٹایا تو نہیں جا سکتا لیکن اُس سے سبق ضرور حاصل کیا جا سکتا ہے‘ تعمیر نو کا عزم ضرور کیا جا سکتاہے۔روشن ضمیر الطاف صاحب کے الفاظ آج بھی روشن ہیں‘ راستہ دکھا رہے ہیں‘ کوئی آنکھیں کھولے تو سہی۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved