اگست 2021ء کو افرتفری میں امریکی انخلامکمل ہوا تو طالبان کو کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ دنیا کو توقع تھی کہ طالبان کی موجودہ قیادت سابقہ قیادت سے مختلف ہو گی۔ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ حالات نے طالبان کے رویوں کو تبدیل کر دیا ہو گا اور اب کی بار دنیا کو نئے طالبان دیکھنے کو ملیں گے۔ان قیاس آرائیوں کی بنیادی وجہ دوحہ معاہدے میں طالبان کا مثبت طرزِ عمل تھا۔جب کابل پر طالبان کا قبضہ ہو گیا تب بھی انہوں نے دنیا کے ساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور برملا کہا کہ وہ افغان سرزمین کو دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے‘ لیکن طالبان کی گزشتہ ڈیڑھ سالہ حکومت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مُلا عمر کی لگیسی پر مضبوطی سے کاربند ہیں۔اس کا ایک مظہر اس وقت دیکھنے کو ملا جب انہیں کابل کا کنٹرول سنبھالے محض چند روز ہوئے تھے۔طالبان شوریٰ کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پر طالبان قیادت نے گروہوں کی شکل میں مُلا عمر کی قبر پر حاضری دی‘ اس حاضری میں بظاہر مُلا عمر کیلئے فاتحہ خوانی اور دعا کی گئی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ طالبان شوریٰ نے حکومت سازی کیلئے سب سے پہلا جو کام کیا وہ مُلا عمر کی قبر پر حاضری تھا۔ کئی طالبان رہنماؤں کو مُلا عمر کی قبر پر حاضری کے وقت دھاڑیں مار کر روتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔طالبان کی مُلا عمر سے عقیدت کا دوسرا مظہر اس وقت دیکھنے کو ملا جب اکیس برس بعد مُلا عمر کے استعمال میں رہنے والی گاڑی کو زیر زمین سے نکال کر اسے نیشنل میوزیم میں رکھا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو طالبان مُلا عمر سے اس قدر عقیدت رکھتے ہیں وہ ان کے نظریے کو کتنی اہمیت دیتے ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ طالبان کی موجودہ قیادت مُلا عمر کے طرزِ حکومت کے علاوہ کوئی دوسرا طرزِ حکومت اپنانے کیلئے تیار نہیں۔
افغانستان میں کئی گروپ موجود ہیں جن کی حیثیت سے انکار ممکن نہیں‘ طالبان کا قندھاری گروپ جس کے سربراہ اس وقت بظاہر مُلا حسن اخوند ہیں جو افغانستان کے عبوری وزیراعظم بھی ہیں‘مگراصل میں امیر المومنین کہلوانے والے مُلا ہبت اللہ ہی افغانستان کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان حکومت مُلا ہبت اللہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو دراصل مُلا عمر کی لگیسی کو لے کر چل رہے ہیں‘ کیونکہ مُلا ہبت اللہ مُلا عمر کے قریبی ساتھی رہے ہیں‘ طالبان کے سابق چیف جسٹس رہ چکے ہیں‘ سیاسی‘ مذہبی اور عسکری امور میں ان کی بات کو حتمی تصور کیا جاتا ہے اوروہ مُلا عمر کے نظریے پر سختی سے کاربند ہیں۔ مُلا ہبت اللہ مُلا عمر کے طرزِ حکومت کے داعی ہیں وہ اسی نظام کو افغان عوام کیلئے آئیڈیل نظام سمجھتے ہیں۔ مُلا ہبت اللہ کو مُلا حسن اخوند‘ مُلا عبدالغنی برادر‘ ملا عبدالسلام حنفی اور مُلا یعقوب کی معاونت حاصل ہے۔قندھاری گروپ دوسرے گروپوں کی نسبت سخت گیر ہے‘ اسی گروپ کے پاس حکومت کا بیشتر حصہ ہے۔ حقانی گروپ بھی حکومت کا حصہ ہے جس کے سربراہ جلال الدین حقانی تھے‘ نائن الیون کے بعد حقانی خاندان نے بڑی قربانیاں دیں‘ ان کے کئی افراد ڈرون حملوں میں مارے گئے‘ اسی لئے طالبان حلقوں میں حقانی خاندان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگست 2021ء میں طالبان کی دوبارہ حکومت قائم ہوئی تو جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی کو وزیر داخلہ بنایا گیا۔ سراج الدین حقانی کے چچا خلیل حقانی کو مہاجرین کا وزیر بنایا اور جلال الدین کے سب سے چھوٹے بیٹے انس حقانی چونکہ کم عمری میں امریکی قید میں رہ چکے ہیں‘ انہوں نے پانچ برس سے زیادہ قید کاٹی ہے اس لئے انہیں بھی طالبان حلقوں میں مقبولیت حاصل ہے۔انس حقانی کابینہ میں شامل تو نہیں البتہ انہیں طالبان کے سیاسی دفتر کا رکن بنایا گیا ہے۔ حقانی قیادت قندھاری گروپ کی نسبت کم سخت گیر ہے‘ یہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں‘ بات چیت کیلئے ہر وقت تیار ہیں اور زمانے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حقانی پاکستان کے بڑے قریبی ہیں حتیٰ کہ امریکہ سے بھی ان کے روابط ہیں۔ دوحہ میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں اس گروپ کا اہم کردارتھا‘ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ بھی ان کے تعلقات ہیں۔ ان میں نسبتاً ماڈرن سوچ پائی جاتی ہے‘ افغانستان کرکٹ بورڈ جیسے اداروں کی سرپرستی بھی حقانی گروپ کر رہا ہے‘ وہاں کھیل کی جو محدود سرگرمیاں رہ گئی ہیں وہ بھی حقانیوں کے علاقوں میں ہوتی ہیں‘ مگر قندھاری گروپ کی نسبت ان کی تعداد کم ہے‘ افغانستان کے صوبے پکتیکا‘ پکتیا‘ طورخم اور پاکستان کی مغربی سرحدات سے ملحق پختون علاقوں میں ان کا اثر ورسوخ ہے۔افغانستان کے جنوبی علاقے جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بڑے ہیں وہاں پر قندھاری گروپ کی اکثریت ہے اس لئے افغانستان کی مجموعی پالیسی سازی میں حقانی گروپ کا کردار کم دکھائی دیتا ہے کیونکہ افغانستان کے تقریباً 70 فیصد علاقے پر سخت گیر مؤقف رکھنے والے گروپ کا تسلط ہے۔ حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود ان دونوں گروپوں میں کسی قدر کشمکش بھی پائی جاتی ہے۔ حقانی گروپ کا جن علاقوں میں اثرو رسوخ ہے وہاں ان کے ایجنڈے کی راہ میں قندھاری گروپ رکاوٹ ہے یا داعش کا چیلنج موجود ہے۔ حقانی گروپ پر پاکستان نواز ہونے کا الزام بھی ہے۔ دنیا طالبان حکومت سے جو چاہتی ہے گروپوں کی اپنی اپنی سوچ اور نظریہ اس کی راہ میں رکاوٹ ہے‘ اس تناظر میں دیکھیں تو حقانی چاہ کر بھی دنیا کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتے ہیں۔ داعش کی موجودگی صرف حقانی گروپ کیلئے ہی چیلنج نہیں بلکہ افغانستان میں بدامنی کے پیچھے داعش کا عمل دخل ہے جو طالبان حکومت کے ایجنڈے کی راہ میں بھی رکاوٹ بن چکی ہے۔ ترکمانستان تحریک افغانستان کے کئی علاقوں میں اپنا وجود رکھتی ہے‘ اسی طرح چیچن مجاہدین نے اپنی الگ تحریک بنا رکھی ہے۔افغانستان میں موجود ہر عسکری گروپ کی الگ آئیڈیالوجی ہے‘ یہ گروپ دوسرے کا وجود برداشت نہیں کرتے ہیں۔سوویت یونین کے بعد جیسے حالات افغانستان میں پیدا ہوئے اور گروپوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی‘ جس میں خونریزی کی داستانیں رقم کی گئیں اب ویسی صورتحال تو نہیں ہے مگر جب تک افغانستان میں عسکری گروپ موجود ہیں افغانستان میں امن کا قیام اور استحکام پیدا ہونا مشکل ہدف ہو گا۔افغانستان سے پہلے دیگر ممالک کو شکایات تھیں‘ اب چین کو بھی تحفظات ہیں او رتشویش لاحق ہو چکی ہے۔ایک عسکری گروپ The East Turkestan Islamic Movement(ETIM) ہے جس میں ایغور اور سنکیانگ سے ہجرت کرنے والے لوگ ہیں جو چین کیلئے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ چین بھی اس گروہ پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
افغانستان میں موجود گروپوں کی تفصیل لکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کون کیا ہے اور کس کی اہمیت کیا ہے‘ جب ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا تو بات کو سمجھنا آسان ہو گا۔ اس وقت چونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے تو ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔امریکہ افغانستان سے چلا گیا لیکن بات ختم نہیں ہوئی کیونکہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا کٹھن مرحلہ ابھی باقی ہے۔دنیا طالبان حکومت کو اسی صورت قبول کرے گی جب وہ دنیا کے ساتھ چلنے کے تقاضوں پر پورا اتریں گے۔اس حوالے سے دنیا طالبان کا بغور مشاہدہ کر رہی ہے۔طالبان کو گروہ بندیوں سے نکل کر بہت کچھ ثابت کرنے کی ضرورت ہے مگر مستقبل قریب میں ایسے آثار دکھائی نہیں دیتے کہ طالبان کے سخت گیر مؤقف میں تبدیلی واقع ہو گی یا افغانستان سے عسکری گروپوں کا خاتمہ ہو سکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved