تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-09-2013

صبحِ کاذب

ایک وقت آتاہے کہ جرائم پیشہ عناصر اورریاست میں سے کسی ایک ہی کی بقا ممکن ہوتی ہے ۔ ایک کی زندگی ،دوسرے کی موت ۔ وہ وقت آپہنچا ہے ، فیصلے کا وقت اوراب ذرا سی مصلحت بھی خطرناک ہوگی ۔ اندیشے درست ثابت ہوئے۔ کراچی کے لیے بنایا گیا منصوبہ ادھورا ہے اور نتائج عارضی ہوں گے ۔ اندازے کے عین مطابق مجرموں کی بڑی تعداد فرار ہو چکی اور ان میں جو شاید سب سے زیادہ خطرناک ہے ، وہ ایران کے سرحدی علاقے میں جا چھپا ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے درمیان وہ کم از کم تعاون موجود نہیں ، جو اس نازک مہم کے لیے لازم ہے۔ گرفتاریوں کے خلاف پہلا مظاہرہ ہفتے کی شام کو ہوا اور آئندہ بھی ایسا ہو سکتاہے ۔ سیاسی جماعتوں کے دعوے ان کے طرزِ عمل سے مختلف ہیں ۔ اس کے باوجود صورتِ حال میں بہتری آئی ہے اور امید ہے کہ آئندہ چند دن میں کچھ اور آئے گی ۔چونکہ چیخ وپکار ہوتی رہی؛ لہٰذا پہل قدمی کا فائدہ اب نہیں ہوگا۔ سندھ رینجرز کے سربراہ جنرل رضوان نے ایک دن راولپنڈی اور ایک رائے ونڈ میں گزارا۔ آغازِ کار ہی میں رات گئے تک مصروفِ عمل رہنے والے سب سے اہم افسر کا اتنا وقت کیوں ضائع کیا گیا؟ کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ وزیرِ اعظم کا حال یہ ہے کہ گذشتہ ہفتے وہ مری تشریف لے گئے اورپھر لاہور جا پہنچے ۔ وہاں جنرل رضوان کے علاوہ انہوںنے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھی طلب کیا ۔ یہ اجلاس اسلام آباد میں کیوں نہ ہوا ۔ وفاقی وزراسمیت درجن بھر اہم شخصیات کو لاہور طلب کر کے اس زیاں کی ضرورت کیا تھی؟ اسلام آباد کے ایک اخبار نویس کو ایک ضروری پیغام دینے کے لیے وزیرِ داخلہ کی تلاش تھی ۔ انہوںنے چوہدری نثار علی خان سے رابطہ رکھنے والے ایک ذمہ د ار آدمی کو ڈھونڈاکہ مشورہ ان تک پہنچا دیں ۔ ان کا جواب یہ تھا : مگر کیسے؟ وہ کبھی ایک اور کبھی دوسرے ٹیلی فون سے بات کرتے ہیں ۔یہ اس شخص کا عالم ہے ، جس کی ذمہ دار ی سب سے زیادہ ہے اور بے شک گزرے دنوں میں انہوںنے ریاضت بھی بہت کی۔ جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف جنگیں اس طرح نہیں لڑی جاتیں ۔ 1995ء کے معرکے میں شریک افسر ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے تھے ۔ وزیرِ داخلہ نصیر اللہ بابر ہفتے میں کئی دن کراچی میں گزارتے اور ہر شام جائزہ لیا جاتا ۔ حالات اب کہیں زیادہ گمبھیر اور پیچیدہ ہیں۔ خدا کرے، اندازہ غلط ہو اور پائیدار امن کا خواب شرمندہء تعبیر ہو سکے ۔ یہی نہیں ،ا س کا رِ خیر میں ہر ایک کو ہر طرح سے مدد کرنی چاہیے کہ مقصود حاصل نہ ہوا تو خطرات میں اضافہ ہوگااور امن قائم کر دیا گیا تو صبحِ کاذب سے صبح صادق پھوٹنے لگے گی ۔ رینجرز کے بعض افسر دل گرفتہ ہیں ۔ان میں سے ایک نے جھلّا کر کہا: ’’اگر حکمرانوں اور سیاست دانوں ہی کو ملک کی پروا نہیں تو اس کے سوا ہم کیا کر سکتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری نبھا دیں‘‘۔ نکتہ یہ ہے کہ ایسی جنگیں افواج نہیں ، اقوام لڑا کرتی ہیں اور یہ راز فیصلہ سازوں پہ غالباً آشکار نہیں۔اسی افسر نے شکایت کی کہ میڈیا ان کی حوصلہ شکنی کا مرتکب ہے ، جب کہ دوسری طرف اس نے توقعات بہت بڑھا دی ہیں ۔ ان سے عرض کیا گیا کہ امیدیں وفاقی حکومت نے دراز کی ہیں۔ ادھر ظاہر ہے کہ تنقید کرنے والوں میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں ، کچھ خیر خواہ اور کچھ غیر ذمہ دار یا کارندے۔ بارِ دگر التماس ہے کہ جناب آصف علی زرداری کو پوری طرح اعتماد میں لیے بغیر بہترین نتائج تو کیا، موزوں آغازِ کار بھی ممکن نہیں۔ 84 سالہ وزیرِ اعلیٰ نے اوّلین اجلاس ہی میں وزیر اعظم کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے تھے کہ ’’بڑے سائیں‘‘ سے بات کی جائے، یہ معاملہ ان کے بس کا نہیں ۔ وہی وزیرِ اعلیٰ ، جنہیں حلف اٹھاتے ہی اچانک لیاری طلب کیا گیا اور بھاگتے ہوئے وہ پہنچے تھے ۔ یہ صدر محترم کے خاندان کا کارنامہ تھا ۔ کہا گیا کہ کراچی کے شہریوں سے ہر روز 83کروڑ روپے بھتہ وصول کیا جا تاہے ۔ ذمہ دار لوگوں کا اندازہ ہے کہ ایک ارب۔ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے گروہ اس گھنائونے کاروبار کے علاوہ جوئے اور منشیات کے اڈّے چلاتے ہیں اور اغوا برائے تاوان میں ملوّث ہیں ۔ اسلحہ کے سمگلروں سے وہ رشتہ و پیوند رکھتے ہیں کہ آتشیں ہتھیاروں کے بغیر یہ دھندے ممکن ہی نہیں۔ وہ اس قدر طاقتور ہیں کہ ایک مشہور اخبار نویس کے قاتلوں کو بچانے کے لیے 9کے 9گواہ قتل کر دیے گئے ۔ تین چار ماہ قبل صرف لیاری کے ایک اڈے سے 1.3ٹن منشیات پکڑی گئیں ۔ سیاسی پارٹیوں کے مسلّح لشکروں کی نشان دہی پچھلے برس ہو چکی ۔ کچھ ان کے علاوہ ہیں ، مثلاً طالبان ،جن کے خاندان کراچی میں رہتے ہیں ۔ قبائلی علاقوں سے وہ آرام کرنے اور بیوی بچوں سے ملنے آتے ہیں ۔ بھتے کی بجائے ان کا انحصار ڈکیتیوں پر ہے؛ اگرچہ کچھ گروہ ان کے نام پر بھتہ بھی وصول کرتے ہیں ۔ القاعدہ کے کچھ کارندے بھی شہر میں چھپے ہیں۔ ان کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں مگر فرقہ پرستوں کے ساتھ مل کر وہ بہت خطرناک ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ انتہا پسند زیادہ منظم ہیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ بروئے کار آتے ہیں ۔تمام جرائم پیشہ گروہوں میں غیر ملکی سرپرستی کا عنصر موجود ہے ۔ مسلّح لشکر تشکیل نہ دینے والی پارٹیوں ،تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے بعض لیڈر بھی اسلحہ رکھتے ہیں کہ حکومت تحفظ دیتی ہی نہیں ۔ 11مئی کے الیکشن میں نون لیگ کے جو امیدوار جیتے، ان میں سے بعض کو پیپلز پارٹی سے ناراض ہو جانے والی امن کمیٹی کے ایک گروہ کی تائید حاصل تھی ۔ عرفان اللہ مروت کے سوا، جو اپنی حفاظت کا بندوبست رکھتے ہیں اور دوسروںکو خوفزدہ کرنے کا بھی ۔ ایک مشہور پولیس افسر کے بارے میں ، جسے ایس ایس پی سے ڈی ایس پی بنا دیا گیا تھا، یقین سے کہا جا تاہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے لیے کام کرتا ہے اور جرائم میں ملوّث ہے ۔ ایک ڈی آئی جی ڈاکٹر امیر شیخ کے سوا اکثر کے بارے میں کہا جاتاہے کہ بھتّے کی رقم سے انہیں حصہ ملتاہے ۔ بعض لیڈروں اور وزرائے کرام کو بھی۔ جنہیں ذمہ داری سونپی گئی ہے ، وہ آئی جی سندھ پر اعتماد رکھتے ہیں اور نہ پراسیکیوٹر جنرل پر ۔ 1992ء اور 1995ء کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے پولیس افسروں میں سے کیا کوئی زندہ بچا ہے ؟ ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ جی ہاں ، ایس پی رائو انوار مگر کئی بار ان پر حملے ہوئے اور ایک حال ہی میں ۔ کیا ان حالات میں امن کا حصول ممکن ہے ؟ حیرت انگیز طور پر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے ۔مرحلہ وار ہزاروں مجرموں کا صفایا کیا جا سکتاہے ۔چور کے پائوں نہیں ہوتے اور ریاست تہیہ کر لے تو بالآخر کیڑے مکوڑوں کی طرح انہیں مسل ڈالتی ہے؛اگرچہ بعض مجرم کاکروچ کی طرح سخت جان ہوتے ہیں۔ایسے ہر زہر کا تریاق بہرحال ریاست کے پاس ہوتاہے ۔قیامِ امن کی شرط یہ ہے کہ پولیس کی تطہیر ہو ۔ اس کی قیادت تبدیل کی جائے۔ رینجرز میں پہلے سے کار فرما احتساب کے نظام کو زیادہ موثر بنایا جائے ۔ کالی بھیڑیں ہر کہیں ہوتی ہیں مگر پولیس سے وہ بدرجہا بہتر ہے، جس میں سے کم از کم ایک چوتھائی کو برطرف کرنا ہوگا۔کامیابی تبھی ممکن ہوگی کہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں آہنگ پیدا ہو اور وہ قانون نافذ کرنے والوں کی پشت پر ڈٹ کر کھڑی ہو جائیں ۔ بارِ امانت جن کے سر ہے ، وہ کراچی کے میڈیا سے کچھ زیادہ امید نہیں رکھتے کہ بعض کو خوف زدہ اور بعض کو خریدا جا سکتاہے مگر ملک کے باقی حصوں میں آباد کچھ دوسرے اخبار نویسوں سے ، جوفہم ،ساکھ اور اعتبار رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ تعداد میں کم مگر زیادہ موثر ہیں ۔ تضادات کو دور کرنا ہوگا۔ وقتی امن حاصل کر لینے کے بعد ایک مکمل منصوبہ تشکیل دینا ہوگا۔ کیا وزیر اعظم وہ فیصلہ کرسکیں گے؟ کیا وہ عارضی سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ سکیں گے ؟ایک وقت آتاہے کہ جرائم پیشہ عناصر اورریاست میں سے کسی ایک ہی کی بقا ممکن ہوتی ہے۔ ایک کی زندگی ،دوسرے کی موت ۔ وہ وقت آپہنچا ہے ، فیصلے کا وقت اوراب ذرا سی مصلحت بھی خطرناک ہوگی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved