کچھ بھی کہا جاتا رہے اور کھمبا کسی بھی طرح نوچا جاتا رہے ‘سچ یہ ہے کہ عمران خان اور پرویز الٰہی نے مل کر پی ڈی ایم کو پنجاب میں چاروں شانے چت کردیا ہے ۔رانا ثنا اللہ جولاہور میں ڈیرے ڈال چکے تھے اور واشگاف الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ پنجاب ہمارا ہوچکا ‘اب اکھاڑے کی مٹی جھاڑتے ہوئے پارٹی قیادت کو وضاحتیں پیش کرنے میں لگے ہیں ۔ ہم سب دیکھتے ہیں کہ مروجہ سیاست ‘خواہ ایوانوں کے اندر ہو یا باہر‘ ہر اخلاقی اصول اور ضابطے سے بے تعلق رہتی ہے ۔ زیادہ سخت الفاظ میں کہا جائے کہ ہمارے گردوپیش ہونے والی سیاست بغیر اصول ہی کے نہیں ‘بغیر باپ کے بھی ہے ‘تو یہ سچ ہوگا۔ اس لیے کہ جمہوری نظام بنانے والوں نے کبھی اس نظام کا سوچا بھی نہیں ہوگا جو ہمارے ہاں مروج ہے‘لیکن اگر ہم اسی سیاست کی بات کریں جس کے ہم سب خوگر ہیں تو پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی اور( ق) لیگ نے تیرہ جماعتوں کو ایسا دھوبی پاٹ مارا ہے کہ شرمندگی سے وہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔پرویز الٰہی کا دوبارہ اعتماد کا ووٹ لے لینا ہی بڑا دھچکا تھا لیکن اس پر طرہ یہ کہ بہت سے تبصروں اور اندازوں کے بر خلاف انہوں نے صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس گورنر کو بھیج دی ‘اور جب تک یہ تحریر آپ کے سامنے ہوگی ‘پنجاب اسمبلی تحلیل ہوچکی ہوگی۔
چوہدری پرویز الٰہی بے شک مروج سیاست کے ایوانوں میں قابلِ رشک ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے371 کے ایوان میں صرف 10 ارکان اسمبلی کی بنیاد پر وزارت اعلیٰ بھی چلا رہے ہیں اور تیرہ جماعتوں کو بھی خود سے بات چیت پر مجبور کر تے رہتے ہیں۔تحریک انصاف پنجاب اسمبلی میں 180ارکان رکھتے ہوئے بھی اور بہت بار پرویز الٰہی پر شبہات کے باوجود انہیں وزیر اعلیٰ رکھنے پر مجبور اوران کی حمایت کی محتاج ہے اور اسے آئندہ انتخابات میں ان کی بہت سی شرائط بھی ماننی پڑیں گی ۔ تحریک انصاف تو پھر حلیف جماعت ہے ‘(ن) لیگ 167ارکان ہوتے ہوئے اور چوہدری صاحب سے شدید اختلاف رکھتے ہوئے بھی انہیں وزارت اعلیٰ کی پیش کش پر مجبور رہی۔ اگر سیاست کا مقصد صرف اور صرف کرسی تک پہنچنا ہے تو گزشتہ سال سے پرویز الٰہی اس میں بہت کامیاب رہے ہیں اور اس کے لیے انہیں پی ڈی ایم کا ممنون احسان ہونا چاہیے کہ اگر ان کا اتحاد نہ ہوتا تو چوہدری صاحب ہنوز عثمان بزدار کی ماتحتی اور سپیکری کر رہے ہوتے۔لیکن چوہدری پرویز الٰہی کی اس کامیابی اور کے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے کا بنیادی سہرا دو چیزوں کے سر ہے‘ایک شریف خاندان سے ان کی مخاصمت اور دوسری مونس الٰہی کا عمران خان کی طرف جھکاؤ۔ وہ اپنے والد صاحب کو یہ سمجھاتے رہے ہیں کہ عوامی رخ عمران خان کے ساتھ ہے اور شریفوں سے ہمیں کوئی خیر نہیں ملے گی ۔
پی ٹی آئی کو ایک بار پھر گزشتہ دنوں میں منحرف ارکان کے صدمے سے گزرنا پڑا ۔ پانچ ارکانِ اسمبلی اعتماد کے ووٹ کے موقع پر غیر حاضر تھے اور چند دن پہلے سے یہ خبریں آنا شروع ہوچکی تھیں۔پانچ ناموں میں خرم لغاری ‘مومنہ وحید‘فیصل فاروق‘دوست مزاری اور چوہدری مسعودبتائے جاتے ہیں۔ فواد چوہدری نے ایک خاتون رکن اسمبلی کے متعلق یہ بھی کہا کہ وہ پانچ کروڑ روپے وصول کر کے منحرف ہوئی ہیں۔ ان پانچ ارکان کے خلاف پی ٹی آئی نے نا اہلی ریفرنس بھیجنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ ان منحرفین کے بیانات میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے 25ارکان اسمبلی پرویز الٰہی کو ووٹ نہیں دیں گے۔خرم لغاری ووٹ نہ دینے کے اعلان کے بعد ملک سے باہر چلے گئے تھے اور اس فیصلے نے ان کے خاندان میں بھی دراڑیں ڈال دی ہیں۔ان پانچ منحرفین کو دیکھتے ہوئے پی ڈی ایم کو مزید کی امیدیں بھی تھیں اور پی ٹی آئی بھی مسلسل یہ اعلان کرتی رہی کہ اس کے ایم پی ایز کو گمنام نمبروں سے کالز آرہی ہیں اور ڈرایا دھمکایا جارہا ہے ۔یہ تاثر موجود تھا کہ ارکان کی مطلوبہ تعداد پرویز الٰہی کے پاس موجود نہیں ہے ۔خود چوہدری صاحب نے بھی یہی تاثر دیا کہ وہ اعتماد کے ووٹ کی طرف نہیں جائیں گے۔یہ سب دانستہ منصوبے کا حصہ تھا ورنہ عمران خان ‘پرویز الٰہی اور چند قریبی لوگ یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ خاص وقت پر اعتماد کا ووٹ لینا ہے۔ لیکن اس فیصلے اور حکمت عملی کی بھنک بھی ان چند لوگوں کے سوا کسی کو نہ مل سکی اور یہی ان کی جیت تھی۔اپوزیشن اعتماد کا ووٹ لینے کے نعرے لگاتی رہی اور اسی مغالطے میں رہی کہ یہ پورے نہیں ہوسکیں گے‘ لیکن رات گئے انہیں شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا ۔تو یہ کیسے ہوا کہ 186ارکان کی اکثریت ایوان میں پوری ہوگئی ؟ ہوا یہ کہ ایوان میں 180ووٹ پی ٹی آئی کے۔10ووٹ قاف لیگ کے ۔کل 190ووٹ تھے جن میں سے پانچ منحرف ہونے کے بعد 185رہ گئے تھے ۔یہ کریڈٹ اسلم اقبال کا ہے کہ انہوں نے چند دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آزاد امیدواربلال اصغر و ڑائچ کو شامل کروا کر فیصلہ کن ووٹ حاصل کرلیا تھا۔ اس طرح تعداد 186ہوگئی‘لیکن اگر ایک دو ارکان بھی اپنی جگہ سے ہل جاتے تو یہ گنتی ناممکن ہوجاتی ۔
میں ذاتی طور پر اعتماد کے اس ووٹ سے خوش ہوا ہوں۔ایک وجہ یہ کہ جوڑ توڑ کے ماہر زرداری صاحب جس طرح ایسے ہر موقع پر آکر نوٹوں اور وعدوں کی بوریاں کھول دیتے ہیں‘وہ طریقہ ناکام ہوگیا۔اس بار بھی زرداری صاحب نے لاہور میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ دوسری وجہ جو میں سمجھتا ہوں کہ مقتدرہ اس بار غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہی ہے ۔اس کی سب سے بڑی دلیل 186ارکان کا پورا ہوجانا ہے ۔ اگرمقتدرہ ڈوریاں ہلاتی تو یہ تعداد ناممکن ہوجاتی ۔یاد رہے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونا پی ڈی ایم کے لیے بہت سنگین مسئلہ ہے ۔یہ سیدھا سیدھا جنرل الیکشن کی طرف جانے کا راستہ ہے جس کے لیے پی ڈی ایم بالکل تیار نہیں ۔ تو پی ڈی ایم کے اس مسئلے میں مقتدرہ کی طرف سے مدد نہ ہونا مقتدرہ کا موڈ ظاہر کرتا ہے۔
اب جب کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے دہانے پر ہیں ‘ہوگا کیا ؟اگر یہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو ویسے بھی ان کی مدت چند ماہ رہ گئی تھی۔انتخاب آئینی طور پر بھی 2023ء میں ہونے ہیں ۔ اس لیے اگر عام انتخابات کی طرف نہ جایا جائے‘ تحلیل ہوجانے کی صورت میں ضمنی الیکشن کروائے جائیں تو بہت سی وجوہات کی بنا پر کل 516نشستوں پر انتخاب بہت بڑا مسئلہ ہوگا۔پھر اس وقت عمران خان مقبولیت کی جس لہر پر ہیں اس میں عام ہوں یا ضمنی ‘ کسی بھی قسم کے انتخاب پی ڈی ایم کی ترجیح نہیں ہو سکتے۔ سچ یہی ہے کہ عمران خان لہرسے سبھی جماعتیں خوف زدہ ہیں ۔وہ بھی جو بزعم خود مقبول ترین جماعتیں تھیں اور اب بھی ان کا یہی دعویٰ سننے میں آتا ہے ۔ سندھ میں بلدیاتی انتخاب نہ کروانے کی کوشش اور الیکشن کمیشن کا اس کوشش کو ناکام بنا دینا اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو سندھ میں صاف نظر آرہا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخاب میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اس وقت مقبولیت میں سر فہرست ہیں ۔انتخاب اس وقت عمران مخالف جماعتوں کے گلے میں اس طرح اٹکے ہوئے ہیں کہ اگلے اور نگلے دونوں طرح بن نہیں پڑ رہا ۔اور اس پر طرہ یہ کہ ان کے غیبی مددگار انہیں دستیاب نہیں رہے ۔
اس سال انتخابات بہرحال ہونے ہیں اور ہوجانا ہی سیاسی کشاکش کا واحد حل ہے ۔اور اگر شفاف الیکشن ہوئے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے ؟یہ نوشتۂ دیوار ہے اور نوشتۂ دیوار پڑھنا بہت آسان مگر نہایت مشکل ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved