تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     15-01-2023

موسم بدلا‘ رت گدرائی

''پاکستان بہت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے‘‘۔ واقعی؟ جی ہاں‘ یقینا۔ لیکن ایسا کب نہیں تھا؟ یہ غیرمعمولی لوگوں کا عام تبصرے پر عامیانہ سا ردِعمل ہے جو اکثر سامنے آتا رہا ہے۔ ایسے تبصرے یا تو نظر انداز کردیے جاتے ہیں یا ''اب کیا ہوگا‘‘ کی تمہید باندھی جاتی ہے۔ رواں برس کا آغاز بھی مایوسی کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ نئے سال سے مراد تو نئی شروعات ہوتی ہے‘ نیا عزم کیا جاتا ہے‘ نئی سوچ کے لیے دل و دماغ کے دریچے وا کیے جاتے ہیں۔ اور صرف سوچ ہی نہیں‘ نئے طرزِ عمل کی بھی کھیتی کاشت کی جاتی ہے۔ 2022ء کا آغاز کہیں زیادہ پُرامید تھا۔ کوویڈ سا کرب ناک سایہ چھٹ رہا تھا۔ پاکستان بحالی کی طرف پرامید قدم بڑھا رہا تھا۔ قیمتیں یقینا بڑھ رہی تھیں لیکن احساس پروگرم اور صحت کارڈ کے ذریعے توجہ ان طبقات پر دی جارہی تھی جو مہنگائی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ رواں برس مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے‘ جبکہ معیشت زمین بوس ہوتی نظر آ رہی ہے لیکن سالِ نو کے آغاز پر مایوسی کو دوچند کرنے والا سب سے بڑا عنصر سیاسی اور معاشی جمود ہے‘ جبکہ سیاسی معیشت خطرناک کھائی کے دہانے تک پہنچ چکی ہے۔
عوامی جذبات ہی سماجی اور معاشی خدوخال طے کرتے ہیں۔ دو اہم سروے جو ہمیں اکثر دکھائی دیتے ہیں‘ وہ صارفین کا اعتماد ظاہر کرنے والا سروے ہے اور کاروبار کے اعتماد کا سروے ہے۔ اعتماد کی سطح ہی فروخت‘ سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمی کا پتا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فروغ پذیر جاندار معیشت بڑھتے ہوئے اعتماد کو ظاہر کرے گی جبکہ اس کے برعکس صورت حال سے اعتماد کا فقدان ظاہر ہوگا۔ اکتوبر 2022ء کو بزنس اعتماد پر گیلپ سروے ظاہر کرتا تھا کہ88فیصد کاروبار ملک کی غلط سمت کی نشاند دہی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صنعتی سرگرمیاں سمٹ چکی ہیں۔ بے روزگاری 22.5فیصد ہے جبکہ اپریل 2022ء کی نسبت نومبر 2022ء میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ ایک وڈیو میں سپورٹس سٹیڈیم میں جمع ہزاروں افراد دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ فیفا ورلڈ کپ کے کسی میچ کی جھلک نہیں بلکہ ایک مقامی سٹیڈیم میں صرف 1667ملازمتوں کے لیے درخواست دینے والوں کا ہجوم ہے۔ یہ منظر خوف زدہ کردینے والا ہے لیکن ان مناظر سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ برس ساڑھے سات لاکھ افراد کیوں ملک چھوڑ کر چلے گئے؟ ذہانت‘ ڈالروں اور خوراک کا ملک سے اخراج کا سلسلہ روکنا ہوگا ورنہ پاکستان زیریں صحارہ خطے جیسا ایک ملک بن جائے گا۔ اس کے تدراک کے لیے نیا طرزِ عمل اپنانا ہوگا۔ تمام سٹیک ہولڈروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئی سوچ اپنائیں بلکہ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ اپنا طرزِ عمل بدلیں۔ اس کے لیے چار اقدامات درکار ہیں: اچھے کام کریں‘ ناکام کاوش سے قدم پیچھے ہٹا لیں‘ نئے دور کے سیاسی تقاضوں کو اپنائیں اور جو طریقہ نتائج دیتا ہے‘ اسے بہتر بنائیں۔
1۔ سیاست اور مروجہ حالات: سیاسی کرسیوں کا کھیل جاری ہے۔ تیرہ جماعتیں بظاہر مل کر کھیل رہی ہیں تاوقتیکہ حتمی سیٹی بج جائے۔ الیکشن کو وِلن قرار دے کر اس کا مقابلہ عظیم اتحاد اور سیاسی بزدلی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس اس بار ایسا کرنے کا بہترین موقع ہے۔ سابقہ ادوار میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی‘ دونوں ایک دوسرے کی مخالف تھیں یا طاقتور حلقے ان کے ساتھ نہیں تھے۔ اس بار یہ طاقت کے مالکوں کا ایک مکمل کلب ہے جس کا مشترکہ دشمن صرف ایک‘ یعنی عمران خان ہے۔ اس نقطۂ نظر کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ان کے سیاسی اور سماجی سرمائے کو بڑی حد تک ختم کر رہا ہے۔ معیشت عام آدمی کو ناقابلِ برداشت تکلیف دے رہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں ان کا دھاندلی کرکے جیتنے کا انتخابی فارمولہ ختم ہو گیا ہے کیونکہ لوگوں نے جولائی اور اکتوبر کے انتخابات میں ثابت کردیا تھا کہ اب یہ اوچھے ہتھکنڈے کام نہیں دیں گے۔ ان کے لیے بہتر ہوگا کہ ان جماعتوں اور طاقتوروں کے درمیان نیٹ ورک قائم رہے۔ ان کے درمیان کوئی بھی رخنہ ان کا جہاز ڈبودے گا۔ اپنی پریس کانفرنسوں اور اجلاسوں میں عمران خان پر توجہ دینا چھوڑ دیں۔ عام آدمی کو ریلیف پہنچانے کے لیے تخلیقی طرزِ فکر کا مظاہرہ کریں۔ اس دوران آئی ایم ایف اور عطیات فراہم کرنے والے اداروں کے ساتھ تعلقات بحال اور بہترکریں۔
2۔ سیاست میں طاقت کا استعمال: بات یہ ہے کہ طاقتور ترین لوگ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ پرانا ڈھانچہ اور حکمت عملی کے سائے اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ بھگوڑوں کے ڈرائی کلین سسٹم کا تسلسل ایک مثال ہے۔ مفرور قرار دیے گئے افراد ہیرو کے طور پر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے واپس آ رہے ہیں۔ انہیں مقدمات میں ریلیف مل رہا ہے۔ وزیر خزانہ کا اپنی ضبط شدہ جائیداد واپس لینا اور کراچی میں ایم کیو ایم کا مایوس کن پیچ اَپ پرانے آزمودہ فارمولے کے دوبارہ استعمال کی سب سے بڑی علامت ہے۔ بی اے پی پارٹی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت بھی ماضی کے تسلسل کا پتا دیتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے ساتھ صرف ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس سے بھی اپنی شبیہ بحال کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اگر واقعی اپنی ساکھ کی اتنی فکر لاحق ہے تو ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو روکنے کے لیے اپنی سکت بڑھائیں۔ کسی بھی سیاسی سیٹ اَپ یا آپریشن میں براہِ راست یا بالواسطہ مداخلت سے گریز کریں۔ اپنی تنظیموں خصوصاً سیاسی تنظیموں کی تنظیم نو اور اُنہیں حقوق دینے کا عمل شروع کریں۔ اعتماد کی گرتی ہوئی سطح کو بحال کرنے کے لیے عوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں۔
3۔ نئی حزبِ مخالف: اپوزیشن نے اپنی توقعات سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی ہے۔ اس نے مقبولیت کی لہر پلٹ دی ہے۔ انتخابات میں اپنے مخالفین کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ پنجاب میں حکومت دوبارہ بنالی۔ اس نے میڈیا کو اپنا بیانیہ دکھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ قاتلانہ حملے کو بھی ناکام بنایا ہے۔ اپنے رہنماؤں پر قانونی حملے کا مقابلہ بھی کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے حکومت کو بیک فٹ پر کھڑا کر دیا ہے۔ لیکن یاد رکھیں‘ ایسا کرنا حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کے لیے آسان ہے۔ ان تمام کامیابیوں پر غرور کے بجائے عاجزی کا مظاہرہ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مستقبل میں توقعات کا پہاڑ کیسے سر کرنا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے پاور بروکرز کو بے نقاب کریں اور ان کے غلط رویے کے خلاف احتجاج جاری رکھیں۔ پارٹی میں انہی پرانے چہروں اور ناموں پر انحصار کرنا چھوڑ دیں جن کی وفاداری پر سوالیہ نشان ہے۔ نئی جہت رکھنے والی پی ٹی آئی‘ حکومت اور معیشت کا منصوبہ بنانا شروع کرے۔ بڑے عالمی سٹیک ہولڈرز‘ اداروں اور تھنک ٹینکس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے۔
سابقہ ادوار کی باقیات ابھی موجود ہیں جو سب کو زیر کر سکتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ کس طرح طاقتور اشرافیہ پیسے‘ عہدے اور رابطوں کو یکجا کر کے اپنے لیے ایک قابلِ عمل پالیسی اور دیگر کو لاچار بنا دیتی ہے۔ اسکرپٹ کا تجربہ بار ہا کیا گیا ہے۔ انہیں اقتدار میں لائیں‘ انہیں پیسے کا فائدہ اٹھانے دیں‘ ان کی نجی زندگیوں کا پیچھا کریں‘اور پھر انہیں توڑ دیں اور انہیں ان کے اسکرپٹ میں دوبارہ ترتیب دیں۔ اس انداز کی کاغذی سیاست کا ماضی میں 100فیصد نتیجہ رہا ہے۔ لیکن اس بار پیپر سلیبس سے باہر آیا۔ وہ سوالات جنہوں نے سکرپٹ لکھنے والوں کو بے خبر اور لاعلم بنا دیا ہے۔ گزرتا ہوا وقت ان کی بے بسی بڑھا رہا ہے۔ جن عوام کو وہ کم عقل سمجھتے تھے‘ اُن کا ردِ عمل حیرت انگیز رہا ہے۔ عوام نے ان کی ہر قانونی‘ سیاسی اور سماجی چال اُلٹ کررکھ دی ہے۔ اب اور کچھ نہیں ہو سکے گا۔ عوامی طاقت ہی سکہ رائج الوقت ہے‘ باقی سب کچھ متروک ہو چکا۔ اب سکرپٹ رائٹر اپنا سر کھجا رہے ہیں‘ حیرت میں گم ہیں۔ اب نیا سکرپٹ کہاں سے آئے گا؟ اب وہ خاموش دنبے کہاں سے ملیں گے جو چپ چاپ قربانی کے لیے تیار ہو جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved