پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً سوا چار ارب ڈالرز رہ گئے ہیں جو کہ تین ہفتوں کی درآمدات کے لیے بھی کافی نہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان دوست ممالک سے ملاقاتیں کر رہا ہے تاکہ مالی مدد حاصل کی جا سکے۔ سعودی عرب نے ملکِ عزیز میں اپنی سرمایہ کاری بڑھا کر دس ارب ڈالر کر دی ہے اور مزید دو ارب ڈالرز زرِمبادلہ کے ذخائر میں جمع کروانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ لیکن یہ ادائیگی کب ہوگی‘ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات نے ایک ارب ڈالرز زرِمبادلہ کے ذخائر میں دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس کی ادائیگی کب ہو گی‘ اس حوالے سے بھی کوئی واضح تاریخ سامنے نہیں آ سکی ہے۔ یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ اسحاق ڈار صاحب قیمتی اثاثوں کی فروخت کے لیے بھی متحدہ عرب امارات سے بات کر چکے ہیں لیکن اس حوالے سے ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اسی طرح چین کو بھی مالی امداد کیلئے کئی مرتبہ پیغامات بھجوائے جا چکے ہیں لیکن عملی میدان میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ رہی۔ برطانیہ نے پاکستانی سرکار سے کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل کرے تا کہ برطانیہ بھی پاکستان کی مدد کر سکے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دوست ممالک اس وقت تک قرض نہیں دیں گے جب تک آئی ایم ایف کی جانب سے گرین سگنل نہیں ملے گا۔ تینوں دوست ممالک آئی ایم ایف کے ممبر ہیں۔ آئی ایم ایف ترقی پذیر ملکوں میں معاشی اصلاحات کے لیے کوشش کرتا ہے۔ اگر کسی ملک نے آئی ایم ایف پروگرام لے رکھا ہو اور وہ مطلوبہ معاشی اہداف حاصل نہ کر پائے تو آئی ایم ایف اس کی قسط روک دیتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی دوست ملک متاثرہ ملک کی مالی مدد کر دے تو آئی ایم ایف اس پر اعتراض اٹھاتا ہے۔ چند ماہ قبل چین کی پاکستان کو 2.2ارب ڈالرز کی امداد پر آئی ایم ایف ناراضگی کا اظہار کر چکا ہے۔ ایک وفاقی وزیر کے بیان کے مطابق دوست ممالک نے حکومت کو پیغام دیا ہے کہ پہلے اپنے معاملات آئی ایم ایف سے ٹھیک کریں پھر ہم سے بات کریں۔ پاکستانی سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف کی حمایت حاصل کرنا ایک عالمی قانون کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں آنے والے عالمی معاشی بحرانوں نے کچھ سخت اور کارآمد معاشی اصول واضح کر دیے ہیں۔
آئی ایف کی جانب سے جب تک معاشی ہیلتھ سرٹیفکیٹ حاصل نہ ہو‘ کوئی بھی ملک پاکستان کی مدد نہیں کرے گا۔ پاکستان کا آئی ایم ایف ریکارڈ بہت کمزور ہے۔ یہ آئی ایم ایف کا 23واں پروگرام چل رہا ہے لیکن اب تک پاکستان ایک آدھا پروگرام ہی رعایتی نمبر لے کر پورا کر پایا ہے۔ پاکستان موجودہ پروگرام پورا کر پاتا ہے یا نہیں‘ اس بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں 1998ء کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے ڈالرز کی صورت میں امداد آتی رہی ہے۔ 2021ء میں امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد یہ جواز ختم ہو گیا ہے اور ہم ایک سال بھی صحیح طریقے سے نہیں گزار پائے۔ ایک سال بعد ہی ملک پر دیوالیہ پن کے سائے منڈلا رہے ہیں لیکن ملکِ عزیز میں دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد آئی ایم ایف سے ریلیف لیا جا سکتاہے۔ 2014ء کے آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان نے 16مرتبہ سے زیادہ ریلیف لیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آئی ایم ایف سمیت امریکہ اور نیٹو ممالک نے بھی پاکستان کی مدد کی تھی۔ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں‘ اس بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا لیکن اسحاق ڈار صاحب کے چند دن قبل دیے گئے بیان کے اثرات اب نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
چند روز قبل اسحاق ڈار صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر 4ارب نہیں بلکہ 10ارب ڈالر ہیں‘ 4 ارب ڈالرز مرکزی بینک کے پاس ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود6ارب ڈالر بھی پاکستان کی ہی ملکیت ہیں۔ ایک نجی بینک کے سینئر نائب صدر نے مجھے بتایا کہ جب سے اسحاق ڈار صاحب نے یہ بیان دیا ہے‘ ہماری برانچوں سے لاکھوں ڈالرز کسٹمرز نکال کر لے جا چکے ہیں۔ اب یہ صورتحال ہے کہ اگر کسی کسٹمرکو ڈالرز درکار ہوں تو تین چار دن کے انتظار کے بعد بھی بینک کسٹمرز کے رکھے ہوئے ڈالرز انہیں نہیں دے پا رہے ہیں۔ کچھ برانچوں پراس مسئلے کو لے کر کسٹمرز کی طرف سے بدمزگی بھی پیدا کی گئی ہے۔ مارکیٹ رپورٹس کے مطابق ڈار صاحب کے بیان کے بعد سے زیادہ تر ایکسپورٹرز دبئی میں رقم وصول کر رہے ہیں اور پاکستان نہیں لا رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ان کا پیسہ غیرمحفوظ ہے۔ موجودہ حالات 1998ء سے زیادہ مشکل نظر آتے ہیں۔ اُس وقت بینکوں میں عوام کے 6ارب ڈالر تھے اور اکانومی کا سائز تقریباً 66 بلین ڈالر تھا۔ آج اکانومی کا سائز تقریباً ساڑھے تین سو بلین ڈالر ہے اور عوام کے صرف چھ ارب ڈالرز بینکوں کے پاس ہیں جو کہ تقریباً 35ارب ڈالرز ہونے چاہیے تھے۔ عوام کو حکومت پر اعتماد نہیں اور شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ڈالرز پاکستان میں محفوظ نہیں۔ گو کہ ڈار صاحب نے اس حوالے سے وضاحت دے دی ہے کہ حکومت کا کمرشل بینکوں کے ڈالرز پر کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی حکومت ڈالرز اکاؤنٹ کو منجمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ عوام کو اسحاق ڈار صاحب کے ان دعوؤں اور بیانات پر یقین نہیں ہے اور وہ دھڑا دھڑ ڈالرز نکلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حکومت واقعی نجی بینکوں میں رکھے ڈالرز اکاؤنٹس منجمد کر سکتی ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے میں قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر حکومت چاہے تو معاشی ایمرجنسی کی صورت میں نجی بینکوں میں رکھے گئے ڈالرز کو منجمد کر سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عوام کے پیسے ضائع ہو جائیں گے۔ حکومت اس کے بدلے میں پاکستانی کرنسی میں ادائیگی کرے گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ایکسچینج ریٹ کیا لگے گا؟ انٹربینک میں اس وقت ڈالر ریٹ 228 روپے ہے جبکہ حقیقی ریٹ 265 روپے ہے۔ سرکار اگر انٹربینک کے حساب سے ادائیگی کرے گی تو عوام کو فی ڈالر کیش کروانے پر تقریباً 37 روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ جن اکاؤنٹس میں ڈالرز ہیں‘ انہیں کیش مت کروایا جائے۔ جب حالات نارمل ہوں اور بے یقینی کا طوفان تھمے‘ تب بینکوں سے ڈالرز کے بدلے ڈالرز ہی وصول کیے جائیں۔ جلد بازی میں لیے گئے فیصلے عموماً غلط ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بعض لوگ یہ قیاس آرائیاں بھی کر رہے ہیں کہ 1998ء کی صورتحال دوبارہ پیدا ہونے کا اندیشہ بھی موجود ہے‘ جب ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکی پابندیاں لگی تھیں تو حکومت نے فارن کرنسی اکاونٹس منجمد کر دیے تھے۔ میں یہاں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت انٹربینک ریٹ 42روپے تھا لیکن حکومت نے 46روپے کے حساب سے عوام کو ادائیگی کی تھی۔ حالات کے مطابق یہ کہنا مناسب ہوگا کہ حکومت عوام کے ڈالرز پر قبضہ نہیں کرے گی۔ اگر ایسا ہو بھی گیا تو عوام کو اچھا ریٹ ہی ملے گا۔
ان حالات میں کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن نے عندیہ دیا ہے کہ وہ حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ حکومت کرنسی ایکسچینجرز کو پچاس ہزار تک کی ایل سیز کھولنے کی اجازت دے۔ اس کے علاوہ بینک پچاس ہزار تک کی جن ایل سیز کی ادائیگی نہیں کر پا رہے وہ بھی کرنسی ایکسچینجرز کے ذمہ لگا دیے جائیں۔ اس سے حکومت کو سالانہ 6سے 7ارب ڈالرز کا فائدہ ہوگا۔ اور ملک بھی چلنے لگے گا۔ بظاہر کمرشل بینکوں کے ڈالرز منجمد ہوتے نظر نہیں آ رہے‘ یہ مرحلہ آیا بھی تو ابھی بہت دور ہے۔ پاکستان کے پاس ابھی چار ارب ڈالرز موجود ہیں۔ ان کے بعد ہی کمرشل بینکوں کی طرف دیکھا جائے گا۔ میرے مطابق لیکن اتنی دیر میں آئی ایم ایف پروگرام پٹری پر آجائے گا اور دوست ممالک بھی مدد کر دیں گے۔ لیکن اگر حکومت نے ایکسچینج ریٹ نہ بڑھایا تو پھر نہ ہی کمرشل بینکوں میں موجود ڈالرز محفوظ رہیں گے اور نہ ہی ملکی معیشت۔ ہر چیز ہاتھ سے نکل جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved