تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     16-01-2023

اور پنجاب بدل گیا…

پنجاب کئی حوالوں سے انجینئرڈ بدقسمتی کا شکار ہے۔ مثلاً ملک کا سب سے بڑا صوبہ جس کی آبادی 13کروڑ سے بھی زائد ہے‘ وہاں لوگ اپنی زبان‘ ثقافت‘ کلچر تو ایک طرف‘ اپنی تاریخ بھی بھولتے جارہے ہیں‘ حالانکہ زبان‘رہتَل اور کلچر کو تو ہمارا 1973ء کا آئین قبول بھی کرتا ہے اور اُسے آگے بڑھانے کا حکم بھی دیتا ہے۔
آ ئین پاکستان1973ء کے آرٹیکل 251 کے ذیلی آرٹیکل (i)میں اُردو کو قومی زبان قرار دیا گیا۔اور ساتھ ہی اسے 15سالوں میں سرکاری زبان کے طور پر نافذکرنے کا حکم بھی ملا۔ یہی آئین ذیلی آرٹیکل (iii) علاقائی زبانوں اور مختلف ثقافتوں کو پروموٹ کرنے کا بھی مدعی ہے۔
بہت عرصہ پہلے برادرم پیر ارشاد عارف صاحب اور پروفیسر اعتبار ساجد صاحب کے حوالوں سے سائوتھ پنجاب اور سینٹرل پنجاب کے دانشوروں کے کچھ ایسے اکٹھ تھے جن میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پھر الحمرامیں پنجابی جرائد اور اخبارات کے کنونشن میں مہمان کے طور پر بلایا گیا‘لیکن اب یوں لگتا ہے وہ سوتے بھی سوکھ گئے جہاں سے امرت قطرہ قطرہ زبان و ثقافت کی آبیاری کیا کرتی تھی۔
پنجاب میں لیڈری کے کارپوریٹ اور کاروباری دعویداروں نے پانچ دریا سکیڑ کر نالے بنا دیے اور River Beds پر قبضے کروا لیے۔ نالے ندیاں تو دُور کی بات رہی‘ پینے والے پانی کے تالاب اورذخیرے بھی کوڑے اور کچرے سے بھر گئے۔ پنجاب کی تاریخ بڑی بھر پور اور بہادری کے کارناموں سے لبریز ہے۔
دادِ شجاعت اور ساتھ اپنی جان دے کر نشانِ حیدر حاصل کرنے والے سورما تو 1947ء کے بعد سامنے آئے۔ اگر ہم پیچھے جائیں تو حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے 336سال پہلے الیگزینڈر دی گریٹ کا راستہ پوٹھوہار کے پنجابیوں نے روکا تھا۔ راجہ پورس خان نے سکندر اعظم کی ایسی کمر توڑی کہ وہ واپسی پر مجبور ہو گیا۔ عرب تاریخ دانوں نے سکندرِ اعظم اور پورس خان کی جنگ پر مختلف طریقے سے لکھا۔ ہمارے ہاں خوشامدی ٹٹو‘ قبل از طلوعِ اسلام کے ایک مقامی جنگجو کے بجائے سالٹ رینج میں سکندرِ اعظم میموریل بنا کر مغرب کے دوروں کے ''لہرے‘‘اور چسکے لیتے رہے۔
بابرِاعظم کے بعد مغلیہ سلطنت کے دو سب سے بڑے بادشاہوں کے خلاف بھی پنجاب سے دلیرانہ آوازیں اُٹھیں۔ نیلی بار اور ساندل بار کے دُلّابھٹی( رائے عبداللہ خان بھٹی) 19سال تک شمالی حملہ آوروں پر حملے کرتا رہا۔ پھر دھوکے سے اُسے لاہور بلا کر اُس کی اپنی سرزمین کو اُس کے لہو سے سیراب کیا گیا۔
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے خلاف‘ بُلّھے شاہ جیسے درویش اور فقیر نے قلمی اور علمی جنگ کی آبرو رکھ لی۔ فرنگی راج سے آزادی کی منزل قریب آئی تو جڑانوالہ کے بھگت سنگھ نے اپنی 24سالہ جوانی بھی آزادی کے نام پر وار دی۔ انجینئرڈ بدقسمتی Unionist حکومت سے شروع کر کے ''نویں خبر آئی اے‘خضر ساڈا بھائی اے‘‘ والی مکروہ روایت آگے بڑھاتے ہوئے چھانگا مانگا‘ بھوربن اور سوات لوٹا فیکٹریاں لے کر آئی۔
ایک رات میں پوری پوری اسمبلی نے دو‘ دو پلٹے کھائے۔ میں اسے پنجاب کی تاریخ نہیں مانتا۔ یہ پنجاب کے منیجرز کی تاریخ ہے۔ یہ پنجاب کے باسیوں کی تاریخ نہیں‘ باسیوں کی ہرگز نہیں۔ پھر پنجاب میں لیڈر انجینئرڈ کر نے کے لیے سانپ اور سیڑھی کا کھیل شروع ہوا۔ جس میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ قیوم‘گورنر ؍ جنرل غلام جیلانی اور لاتعداد ریاستی اہلکار کاروبارِ سلطنت کو گھنائونا کاروبار بنانے میں جُت گئے۔
پنجاب لٹتا رہا‘ پاکستان لٹتارہا‘ جمہوریت لٹتی رہی اور آئین لٹتا رہا۔ پچھلے تقریباًچارعشروں میں یہ بات طے سمجھی جانے لگی کہ عوام میں لیڈر بنانے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔ اب لیڈر سیاست کی اتفاق فائونڈری ہی بنایا کرے گی۔ اس فائونڈری کے گرینڈاتفا ق نے سارے اداروں کو سیاست میں ملوث کر دیا۔
ملک کے عدالتی نظام میں سے سابق ججز جسٹس تارڑ‘ جسٹس ملک قیوم اور جسٹس راشد عزیز کے دور کی داستانیں ریکارڈ پر آ کر زبان زدِ عام ہو گئیں۔ سروس لازمی ہو یاسول‘ دونوں جگہ کاروباری سیاست کرنے والے خاندانوں کو پروموٹرز مل گئے۔نہرو کے بقول اُس کی لنگوٹیوں سے زیادہ حکومتیں پاکستان میں بدلیں۔ غریب اور امیر کے دو پاکستان بن گئے‘ حکمران اور رعایا کے دو ملک بن گئے‘ طاقتور اور کمزور کے لیے دو قانون ہو گئے۔
ابھی چند سال پہلے جو اکیلے عمران خان کا دیوانے والا خواب سمجھا جاتا تھا وہ آج حقیقت بن کر عوام کے سامنے ہے۔ یہی کہ پنجاب بدل گیا۔ عمران خان کی لائی ہوئی تبدیلی نے اظہارِ رائے کی آزادی اور ایسی آندھی چلائی جس نے قصرِ شاہی لرزا کر رکھ دیے۔
آٹھ ماہ پہلے‘ رجیم چینج کے بعد پہلے سندھ ہائوس اسلام آباد میں پھر مال روڈ کے ایک ہوٹل میں پھرگلی گلی اور گائو ں گائوں میں جیتے جاگتے انسانوں کے ضمیر کی منڈیاں سجائی گئیں۔ جس کے نتیجے میں کئی ماہ جدوجہد کے بعد پنجاب سے 20 MPAs ڈِس کوالیفائی ہوئے۔ ضمنی الیکشن میں لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ ووٹ ڈالے جس صوبے کے عوام کو صاحب لوگوں کی جیب کی گھڑی سمجھا جاتا تھا‘ اُس گھڑی نے خطرے کے الارم بجادیے۔
آزادی کی ایسی لہر پنجاب کی دھرتی نے جدید تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ جہاں ساری پارٹیاں‘ بھاری بھرکم وسائل اور طاقتور ادارے ایک طرف کھڑے تھے‘ وہاں لوگوں نے ثابت کیاکہ طاقت کا سرچشمہ ووٹر ز کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن آگئے‘ 10میں سے دوچھوڑ کر آٹھ نشستوں پر پنجاب کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان میں بیداری کی لہر کو عوام نے لبیک کہا اور طاقت کے سارے مراکز کو حرفِ انکار دوسری بار دیکھنے کو ملا۔
اب پنجاب اسمبلی توڑنے کا مرحلہ آتا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی تحلیل کرنے کے راستے میں سب نے اکٹھے ہو کر رکاوٹیں ڈالیں۔ ہر طرح کی رکاوٹیں MPAsکو خریدنے کے لیے 25 کروڑ روپے فی ضمیر کا ریٹ نکالا گیا۔ ناجائز کمائی والے بابے نوٹوں کے بکسے بھر کر لائے۔ سرکاری جہاز اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور کے چکر کاٹتے رہے۔ ضرورت مندوں نے صفحے کالے کیے کہ عمران خان میں اسمبلی تحلیل کرنے کی نہ ہمت ہے اور نہ اُس کی حمایت جو اسمبلی توڑ سکے۔
پرویز الٰہی اور پاکستان تحریک انصاف میں روزانہ میڈیائی جنگِ پلاسی دکھائی گئی۔ مگر اب ایلفا جنریشن کا زمانہ ہے۔ بدلے ہوئے پنجاب کا موڈ بھی بدل گیا۔
دعا میں التجا نہیں تو ''عرضِ حال‘‘ مسترد
سرِشت میں وفا نہیں تو ''سو جمال‘‘ مسترد

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved