تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     16-01-2023

نیلسن منڈیلا کے دیس میں… (4)

جنوبی افریقہ میں پاکستان کی طرح کرپشن کی شکایت عام ہے‘ مجھے یقین ہے کہ اگر وہاں کرپشن نہ ہوتی تو یہ ملک آج صفِ اول کے ممالک میں ہوتا۔ 1994ء سے یہاں نیلسن منڈیلا کی پارٹی افریقن نیشنل کانگریس (ANC) حکمران ہے‘ سیاہ فام لوگ‘ جو آبادی کا ستر فیصد ہیں‘ عمومی طور پر اسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ نیلسن منڈیلا کے جانے کے ساتھ ہی ایمانداری کی روایت بھی رخصت ہو گئی۔ جب میں کیپ ٹائون میں تھا تو صدر سیرل راماپوسا کوبھی کرپشن سکینڈل کا سامنا تھا۔ جنوبی افریقہ کے صدر کا تعلق اے این سی پارٹی سے ہے اوروہ سیاہ فام لوگوں میں خاصے مقبول ہیں۔ صدر کا ایک ذاتی فارم ہے جہاں نادر قسم کے جانور پالے جاتے ہیں‘ ساتھ ہی ایک شکار گاہ بنائی گئی ہے جہاں ٹکٹ خرید کر لوگ شکار کر سکتے ہیں۔چند ماہ پہلے اس فارم میں ڈاکا پڑا اور ڈاکو صوفوں کے اندر چھپائے ہوئے چالیس لاکھ ڈالر لے گئے۔ بات افشا ہو گئی تو صدر کو پولیس رپورٹ درج کرانا پڑی۔ اب میڈیا سوال اٹھانے لگا کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی اور اگر یہ فارم کی آمدنی تھی تو بینک میں جمع کیوں نہ کرائی گئی؟ ایک سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیٹی بنی جس کا کام صرف اتنا تھا کہ بتائے کہ اس کیس پر صدر سے سوال جواب کیا جانا چاہیے کہ نہیں؟ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ صدر راماپو سا جوابدہ ہیں۔بعد میں پتا چلا کہ دبئی میں مقیم ایک عرب تاجر نے سینکڑوں جانور خرید ے ہیں اور یہ رقم وہ خود کیش میں ادا کر کے گیا ہے۔ اب میڈیا والے دبئی میں فعال ہو گئے اور یہ سوال پوچھا کہ اتنی بڑی رقم ہارڈ کرنسی میں جنوبی افریقہ خفیہ طریقے سے کیسے گئی‘ کسٹمز کو کیوں نہیں بتایا گیا۔ پارلیمنٹ نے کمیشن آف انکوائری بنا دیا۔ شروع میں صدرراما پوسا نے اقتدار چھوڑنے کا سوچا مگر اے این سی پارٹی کے اجلاس میں ان کی مکمل حمایت کا اعلان ہوا کہ ہمارا لیڈر بے گناہ ہے۔ اس سکینڈل کی معلومات جان کر مجھے پیارا وطن پاکستان بہت یاد آیا کہ کرپشن کی وبا ہمارے ہاں بھی ہے اور کسی لیڈر پر الزام لگتے ہی اس کے حواری شور مچانے لگتے ہیں کہ زیادتی ہو گئی۔
لونگ سٹریٹ (Long Street)کیپ ٹائون کی معروف شارع ہے جہاں کئی نائب کلب ہیں‘ اچھے ریسٹورنٹس ہیں اور کتابوں کے سٹور بھی۔ ہم دن کے وقت لونگ سٹریٹ میں سے گزرے جو کہ رات کو یقینا زیادہ بارونق ہوتی ہو گی۔ اس کے بعد ہم ساحل سمندر یعنی (Beach front) گئے جو شہر کے اندر ہی ہے اور سیر کے لیے بہترین جگہ ہے‘ یہاں اعلیٰ شاپنگ مال ہیں اور معروف ریسٹورنٹ ہیں۔ یہ علاقہ سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ کیپ ٹائون کی بندرگاہ چونکہ سویز کنال بننے کے بعد زیادہ مصروف نہیں رہی‘ لہٰذا پورٹ کی کئی عمارتوں کو ہوٹلوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ سمندر کے کنارے کافی چوڑا فٹ پاتھ بنایا گیا ہے جہاں سائیکل چلانے کی اجازت ہے‘ ہم نے یہاں تین سائیکل کرائے پر لیے‘میں ایک زمانے کے بعد سائیکل چلا رہا تھا لہٰذا شروع میں دشواری ضرور ہوئی۔
ساحل سمندر پر پراپرٹی مہنگی ہے لہٰذا یہاں زیادہ ترسفید فام لوگ رہتے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد یہودی لوگوں کی ہے۔ شہر میں یہودی لوگوں نے اپنا ایک عجائب گھر بنایا تھا‘1996ء میں اور اس کا افتتاح نیلسن منڈیلا نے کیا تھا۔ شہر کا ایک نسبتاً سستا علاقہ انڈیا‘پاکستان اور بنگلہ دیش والوں کی آماجگاہ ہے‘ یہاں ایک جامع مسجد بھی ہے اور اس کے نواح میں اسلامیہ سکول بھی۔ دیسی مرچیں‘ مسالے اور دالیں خریدنے کے لیے برصغیر کے لوگ یہیں آتے ہیں۔ شہر میں چرچ‘ مساجد‘ یہودی معبد اور مندر‘ سب موجود ہیں لیکن عمومی طور پر مذہبی رواداری یہاں کا طرۂ امتیاز ہے۔میں یہودی معبد اور عجائب گھر خاص طور پر دیکھنے گیا۔ عجائب گھر میں ایک سیکشن علی باشر کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ علی باشر پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا لیکن اس کی وجہ شہرت بطور کرکٹ بیٹسمین کے تھی۔ وہ جنوبی افریقہ کی ٹیم کا کپتان بھی رہا۔ میں پہلے سمجھا کہ وہ مسلمان ہو گا لیکن پھر پتا چلا کہ وہ یہودی تھا۔ علی باشر کا کرکٹ کا دور نسلی امتیاز کا زمانہ تھا‘ ٹیم صرف گورے کھلاڑیوں پرمشتمل تھی‘ اکثر ممالک نے جنوبی افریقہ کا سپورٹس بائیکاٹ کیا ہوا تھا‘ لہٰذا علی باشر نے ٹیسٹ میچ کم ہی کھیلے اور صرف ایک سنچری سکور کی۔
ویک اینڈ پر سٹرابیری کے کھیتوں میں جانے کا پروگرام بنایا اور وہاں سے ایک خوبصورت قصبے کا قصد جس کا نام ہرمانوس (Hermanus) ہے‘ سٹرابیری کا فارم پانچ چھ ایکڑ کا تھا۔ یہاں آپ مقررہ فیس ادا کر کے جی بھر کے پھل توڑ سکتے ہیں۔ ہر شخص کو پلاسٹک کا جار دے دیا جاتا ہے۔ اس میں مشکل سے کلو‘ ڈیڑھ کلو فروٹ آتا ہے لیکن اصل مزہ تازہ پھل کو اسی وقت توڑ کر کھانے کا ہے۔
ہرمانوس چھوٹا مگر بے حد خوبصورت شہر ہے۔ اردگرد انگور کے باغات ہیں‘ شراب کشید کرنے کے یونٹ ہیں‘ یہ قصبہ بحر ہند کے ساحل پر ہے اور موسم سرما میں یعنی جون سے لے کر نومبر تک یہاں وہیل مچھلی اچھی خاصی تعداد میں پائی جاتی ہے‘ یہ ٹھنڈے پانی کی مچھلی ہے اور جیسے ہی جنوبی افریقہ میں موسم گرما شروع ہوتا ہے یہ قطب شمالی کی طرف سفر شروع کر دیتی ہے۔ سیاح یہاں بڑی تعداد میں وہیل مچھلی دیکھنے آتے ہیں۔ وہیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کرۂ ارض پر سب سے بڑا حیوان ہے۔ ایک اوسط وہیل مچھلی کا وزن ہاتھی سے زیادہ ہوتا ہے۔ بلیو وہیل کا طول یعنی قد 98 فٹ تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جس دن ہم ہرمانوس گئے اس روز کوئی مچھلی نظر نہیں آئی کیونکہ موسم گرما شروع ہو چکا تھا؛ البتہ ساحلِ سمندر پر سیر کرنے کا بڑا لطف آیا۔ ہرمانوس کی طرح ہی خوبصورت ایک اور قصبہ فرانس شوک ہے‘ ا س کے اردگرد بھی انگور کے باغات ہیں‘ یہاں فرانسیسی نژاد لوگ آباد ہیں‘ شہر میں اعلیٰ معیار کے ریسٹورنٹس ہیں جو سیاحوں سے بھرے ہوئے تھے۔
اور اب ہم چلتے ہیں Cape of Good Hopeکی جانب‘ جو کیپ ٹائون سے زیادہ دور نہیں۔ یہ جنوبی افریقہ کے مکمل جنوب میں اہم مقام ہے جہاں گزرنے والے سمندری جہازوں کے لیے لائٹ ہائوس بنایا گیا تھا۔ پندرھویں صدی میں پرتگالی جہاز رانوں نے اسے Cape of storms کا نام دیا تھا۔ اس نام کی وجہ یہ تھی کہ یہاں سمندر اتنا متلاطم ہوتا تھا کہ کئی جہاز ڈوب جاتے تھے اور اس کی ایک سائنٹفک وجہ ہے‘ یہاں بحرہند اور بحر اوقیانوس ملتے ہیں دونوں کے درجہ حرارت میں پانچ چھ ڈگری کا فرق ہوتاہے اور اسی وجہ سے سمندر خاصا متلاطم رہتا ہے۔ بعد میں جب یورپ اور انڈیا کے درمیان بحری سفر عام ہوا تو Cape of storm کا خاصے بلند مقام پر بنا ہوا لائٹ ہائوس جہازوں کے لیے امید کی کرن بن گیا‘ لہٰذا Cape of Good Hope نام رکھ دیا گیا۔
جنوبی افریقہ بڑے روشن امکانات والا اہم ملک ہے لاء اینڈ آرڈر کے مسائل کے باوجود بے شمار سیاح یہاں آتے ہیں‘ لوگ خوش اخلاق ہیں یہاں کاکرگر پارک (Kruger National Park) بہت بڑا اور معروف ہے۔ افریقہ میں فعال تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ آفس جنوبی افریقہ میں ہیں۔ سماجی اور اقتصادی مساوات لا کر اور تعلیم کے ذریعے غربت اور جرائم کو کم کیا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved