گزشتہ برس جو سیاسی تماشا ہم سب نے دیکھا‘ شاید ہی پہلے کبھی تاریخ نے یہ مناظر دیکھے ہوں۔ جس طرح مطالعہ پاکستان میں ہمیں نوے کی دہائی کی سیاست کی تاریخ یاد کرنے میں مشکل ہوتی تھی‘ شاید 2022ء کی سیاسی تاریخ میں بھی آنے والی نسل بری طرح الجھ جائے اور اسے یہ یاد کرنے میں دقت ہو کہ کس مہینے کون سی حکومت تھی اور وہ کتنے دن تک برسرِ اقتدار رہی۔ کل کو جب بچے تاریخ میں یہ سب کچھ پڑھیں گے تو وہ سوچیں گے کہ ایسا کیاہورہا تھا ملک میں کہ سیاستدان ایک دوسرے کو حکومت نہیں کرنے دے رہے تھے‘ ان کی ڈوریاں کون ہلا رہا تھا۔ سیاست اور جمہوریت اس ملک میں اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ لوگ جو کل تک ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے کے روادار نہیں تھے‘ آج ایک دوسرے کے دست و بازو بنے بیٹھے ہیں۔ وہ جو ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتے تھے‘ آج کھانا ایک ساتھ کھاتے ہیں‘ اکٹھے سفر کرتے ہیں اور حکومت میں بھی شراکت دار ہیں۔ وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تصاویر بنواتے اور یکجان ہونے کا تاثر دیتے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ مفاد اور زبردستی کے رشتے زیادہ دیر تک نہیں چلتے۔ پہلے مجھے لگتا تھا کہ جمہوریت کو خطرہ آمروں سے ہوتا ہے لیکن نہیں! جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ تو خود سیاستدانوں سے ہے‘ جو ڈیل کر کے اور این آر اوز کے ذریعے حکومتوں میں آجاتے ہیں اور چلتی حکومتوں کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ ہم فرشتے نہیں‘ کوئی بھی غلطیوں سے مبرا نہیں لیکن کچھ تو قواعد و ضوابط اور روایات کا خیال رکھنا چاہیے۔ جمہوریت کے نام پر وہ سب نہیں کرنا چاہیے جس سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے۔ حکومت چاہے جس کی بھی ہو‘ اس کو ایک ہی وزیراعظم کے ساتھ اپنے پانچ سال مکمل کرنے چاہئیں۔ تبھی یہ ملک خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ پہلے ملک میں زیادہ تر وزیر اعظم کی کرسی زیرِ عتاب رہتی تھی مگر اب وزیراعلیٰ کی کرسی بھی زیرعتاب آگئی ہے۔ جو کچھ پچھلے نو‘ دس ماہ کے دوران پنجاب میں ہوا‘ وہ اس ملک کے حساس شہریوں کے لیے بہت تکلیف دہ تھا مگر یہ سب کچھ کرنے والوں کو شاید اس پر کوئی ندامت نہیں۔ اگر ان میں احساسِ زیاں ہو تو انہیں خبر ہو کہ ان سے کتنا بڑا جرم سرزد ہوا ہے۔ عوام نے جسے حقِ حکمرانی سونپا ہوا تھا‘ اسے اقتدار سے دور رکھ کر گویا جمہوریت‘ ووٹرز اور عوام‘ سب کا مذاق اڑایا گیا۔ موروثی سیاست کرنے والوں اور اپنی انا کے خول میں قید رہنے والوں کی یہ خواہش تھی کہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہو اور باقی سب تماشا دیکھیں۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ 2022-23ء ہے۔ عوام باشعور ہیں‘ ملک کے نوجوان سیاست کو سمجھتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پوری قوم کی نظروں میں کیسے دھول جھونکی جاسکتی ہے؟ عوام سب کچھ دیکھ رہے تھے کہ کس طرح ان کے مینڈیٹ کی توہین کی گئی۔ وہ اس پر آواز بلند کرنا شروع ہوگئے اور پھر آخر جیت نوجوانوں کی ہی ہوئی اور محلاتی سازشیں اور پرانے کھلاڑی ہار گئے‘ جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اب بھی نوے کی دہائی کی طرح‘ دھونس و جبر کے زور پر چلایا جاسکتا ہے۔
ملک کو اگر چلانا ہے تو دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق چلانا ہوگا۔ اس دور میں موروثی سیاست‘ اقربا پروری‘ محلاتی سازشوں اور کرپشن کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آج کی نوجوان ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتی جو چالیس لاکھ کی گھڑی یا چھ لاکھ کا جوتا پہن کر غریبوں کی بات کریں۔ جس ملک میں لوگوں کے پاس آٹا خریدنے کو پیسے نہیں‘ جہاں سیلاب کے بعداب بھی لاکھوں کی تعداد میں افراد غیر ملکی امداد آنے کے باوجود کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں‘ وہاں اشرافیہ کو اپنے چونچلوں سے ہی فرصت نہیں۔ اگر غریب کی بات کرنی ہے تو غریب کی طرح پیوند لگا کپڑا اور جوتا پہن کر بات کریں۔ اس کی طرح ننگے پائوں چل کر دیکھیں‘ تو ہی آپ کو غریبوں کی تکلیف کا احساس ہوگا۔ جب پیروں میں کانٹے چبھیں‘ جب تن پر کپڑے نہ ہوں‘ جب پیٹ میں فاقے سے درد کی لہریں اُٹھ رہی ہوں‘ سردی اور گرمی کا احساس ہو‘ کیچڑ اور پانی میں ڈوبی سڑکوں پر سے گزر کر جانا پڑا‘ چلنے سے جوتا کاٹنے لگے تو ہی غریب کی غربت کا احساس ہوگا۔ وہ امیر شخص‘ جس نے کبھی غریبی دیکھی ہی نہیں‘ وہ کیسے غریبوں کے مسائل حل کر سکتا ہے؟
پنجاب میں پچھلے ایک سال کے دوران جو کچھ ہوا‘ اس سے عوام مزید بدحال ہوگئے جب حکومت نہیں ہوگی‘ انتظامیہ بار بار تبدیل ہوگی تو عوام کے کام بھی نہیں ہوں گے۔ عثمان بزدار کے جانے بعد ایسا لگا جیسے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر کانٹے لگے ہیں اور کوئی اس پر بیٹھ ہی نہیں پارہا۔ شریف خاندان کو جب وفاقی حکومت اور زارتِ عظمیٰ مل گئی تھی تو کیا ضرورت تھی تختِ پنجاب حاصل کرنے کی؟ حمزہ شہباز کو چند ہفتوں کیلئے وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملا جو میرے نزدیک کسی بھی سیاستدان کے کیریئر کیلئے بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔ جس طرح ہوٹلوں میں اسمبلی اجلاس بلا کر انہیں وزیراعلیٰ بنایا گیا‘ یہ بھی قابلِ فخر سیاسی تاریخ نہیں ہے۔ نجانے ہمارے سیاستدان کیوں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس طرح کے حربوں سے حکومت تو شاید مل جائے مگر دامن پر جو داغ لگ جاتا ہے‘ اس کا دھبہ تمام عمر باقی رہتا ہے۔ شاید ان کو اس بات کا احساس بعد میں ہو کہ سیاست میں فیصلے جذبات سے نہیں‘ ہوشمندی سے کیے جاتے ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سیاسی خانوادوں کے نئے جانشینوں نے ضد پکڑ لی تھی اور یہ ضد تھوڑی دیر کیلئے پوری بھی ہو گئی مگر اُتنی ہی جلدی وہ کرسی سے اتر بھی گئے۔ عوام نے ضمنی انتخابات میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا اور پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے مگر محلاتی سازشوں کا سلسلہ تھما نہیں بلکہ دوبارہ کوششیں شروع کر دی گئیں کہ پرویز الٰہی کو کس طرح ہٹا یا جائے۔ گورنر نے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا‘ سیاسی بڑھکوں اور عدالتی سماعت کے ہنگام پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لیا اور اس کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر کو بھیج دی۔
عوام کی یہی خواہش تھی کہ اب نئے الیکشن ہونے چاہئیں اور کوئی جماعت واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے تاکہ اقتدارپر شب خون مارنے کا سلسلہ بند ہو سکے۔ 23 کروڑ عوام اندھے یا گونگے‘ بہرے نہیں ہیں۔ وہ سب کچھ دیکھ‘ سن اور سمجھ رہے ہیں اور اس تمام صورتحال پر رنجیدہ ہیں۔ اقتدار کی رسہ کشی میں بہت کچھ بگڑ گیا ہے۔ مہنگائی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ لوگ دو وقت کی روٹی سے محروم ہوگئے ہیں اور چند کلو آٹے کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں۔ عوام سردیوں میں گیس کے ساتھ ساتھ بجلی سے بھی محروم ہیں۔ تعلیم اور چھت تو بہت دور کی بات‘ یہاں روٹی، کپڑا اور پانی بھی عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔ پنجاب کے عوام اس وقت شدید دھند کا سامنا کررہے ہیں‘ جو دراصل سموگ ہے اور انتہائی مضرِ صحت ہے۔ جب درخت کاٹ کر پورے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنادیا گیا ہے تو یہ تو ہونا ہی تھا۔ دریا خشک ہورہے ہیں‘ شہر بدترین گندگی کا شکار ہیں‘ فضا آلودہ ہے‘ لوگ بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں مگر کسی کو کوئی پروا ہی نہیں‘ سب کو بس اقتدار چاہیے۔ اقتدار کی اس رسہ کشی میں پنجاب اجڑ رہا ہے! پنجاب کسی ایک خاندان کا نہیں‘ یہ ہم سب کا ہے۔ اس پر سب سے زیادہ حق نوجوانوں کا ہے‘ ان سے اُن کے خواب مت چھینیں۔ پنجاب کو دوبارہ ایسا بنائیں جیسا ہم نے کبھی کتابوں میں پڑھا تھا؛ لہلاتے کھیت‘ فضا میں پھولوں کی خوشبو‘ باغوں میں جھولے‘ آسمان میں رنگ برنگ پرندے‘ نیلگوں پانی! مگر مجھے پنجاب اب ایسا نہیں لگتا۔ کہیں سازشوں کا دھواں اٹھ رہا ہے تو کہیں دھندلی‘ گدلی فضا کی وجہ سے میں اچھا مستقبل دیکھنے سے قاصر ہوں۔ مجھے اپنا پنجاب واپس چاہیے‘ وہ پنجاب جہاں کبھی خوشحالی تھی‘ جہاں بیساکھی پر گیت گائے جاتے تھے‘ جہاں لوگ اتنا اناج پیدا کرتے تھے کہ سب پیٹ بھر کر کھاتے تھے۔ میرے دل میں اب بھی تھوڑی سے امید ہے کہ شاید نئے الیکشن کے بعد اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کو مل جائے تو حالات بدل جائیں لیکن اگر محلاتی سازشیں ایسے ہی چلتی رہیں اور امرا نے جمہوریت اور قانون کو مذاق بنائے رکھا تو پھر پنجاب اس دھندلے‘ گدلے موسم میں ہی پھنسا رہے گا۔ لوگوں کی امیدیں مت توڑیں اور اقتدار ان کے حوالے کریں جن کو عوام ووٹ دے کر حقِ حکمرانی سونپیں۔ ملک عوام سے بنتے ہیں‘ مٹھی بھر اشرافیہ اور چند خاندانوں سے نہیں۔ پنجاب عوام کا ہے‘ عوام کو اس کا حق لوٹا دیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved