پائیداری کا دور جاچکا ہے۔ انسان کا مزاج عجیب واقع ہوا ہے۔ ایک طرف تو وہ بعض معاملات میں انتہائی نوعیت کا تغیر دکھاتا رہتا ہے اور دوسری طرف بعض معاملات میں مستقل مزاجی کا قائل نظر آتا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ بعض عادات پختہ ہوکر اُسے حقیقی تبدیلی سے روکتی ہیں جبکہ دنیا اُس سے بہت کچھ بدلنے کا مطالبہ کر رہی ہوتی ہے۔ دنیا کا کام ہے بدلتے رہنا! ڈھائی‘ تین صدیاں پہلے تک دنیا خاصی کم رفتار سے بدلتی تھی۔ بہت کچھ تھا‘ جو عشروں تک جوں کا توں رہتا تھا۔ تب انسان کو تبدیلی محسوس تو ہوتی تھی مگر اُس کے حواس پر سوار نہیں ہوتی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اُسے بدلنا ہے مگر یہ بدلنا ایسا نہیں تھا کہ سبھی کچھ داؤ پر لگ جائے۔ آج دنیا عجیب موڑ پر کھڑی ہے۔ جو کچھ ڈھائی‘ تین ہزار سال کے دوران سوچا گیا ہے وہ حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے ہے۔ ایسے میں بہت کچھ مٹ رہا ہے۔ انسان نے ہزاروں سال سے جن چیزوں اور جن باتوں کو سینے سے لگاکر رکھا ہے‘ وہ سب کی سب مٹی میں ملتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ تبدیلی کا عمل بہت تیز ہے۔ ماحول میں سب کچھ اِتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ اس عمل کو سمجھ پانا بھی بہت مشکل ہے۔ جب کوئی عمل پوری طرح سمجھ ہی نہیں آئے گا تو پھر اُس کے حوالے سے کوئی بھی طرزِ فکر و عمل کیونکر اپنائی جاسکے گی۔ آج کی دنیا تبدیلی سے عبارت ہے۔ ہر معاملے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جب سب کچھ بہت پُرسکون تھا اور تبدیلیاں خاصی کم رفتار سے رونما ہوتی تھیں‘ تب علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ع
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
اب ذرا سوچیے کہ آج کی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھ کر علامہ کیا فرماتے! یہ سب کچھ تو حواس باختہ کردینے والا ہے۔ قدم قدم پر کچھ نہ کچھ ایسا رونما ہو رہا ہے جو کسی نہ کسی تبدیلی کی طرف لے جارہا ہے۔ ایسے میں کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ ڈھنگ سے جینا بھی چاہے اور تبدیلی کے لیے تیار بھی نہ ہو۔ جینا کبھی مسئلہ نہیں رہا‘ آج بھی محض جیتے چلے جانا کوئی مسئلہ نہیں۔ معاشرے میں آپ کو ایسے ہزاروں نہیں‘ لاکھوں مل جائیں گے جو انتہائی عمومی اور بے عملی کی سطح پر جی رہے ہیں۔ اُن کے حالات و انجام سے بھی آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ ذِلّت کے ساتھ جئیں یا نہ جئیں‘ عزت کے ساتھ بہرحال نہیں جی پاتے۔ اُن کی کوئی قدر نہیں ہوتی‘ وہ کسی کے لیے زیادہ کارآمد نہیں ہوتے اور یوں اپنی مرضی کے مطابق جینے کا پورا پورا 'صلہ‘ پاتے ہیں۔ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ معیشت و معاشرت کو مکمل طور پر تبدیل کیا جائے؟ اس سوال کا ایک معقول جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اب کچھ بھی تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بہت کچھ خود بخود تبدیل ہو رہا ہے۔ جو کچھ بھی حالات کے دباؤ کے تحت بدلتا ہے وہ اپنے ساتھ مزید بہت کچھ بھی بدلتا ہے۔ آج کے انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ چاہے یا نہ چاہے‘ تبدیلی کا عمل اُسے لپیٹ میں لیے بغیر نہیں رہتا۔ یہ سب کچھ فطری سا ہوکر رہ گیا ہے۔ عام آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ ماحول میں جو کچھ بھی بدل رہا ہے‘ وہ اُسے بھی بدل رہا ہے۔
تیسری دنیا کے معاشروں کا ایک بنیادی المیہ یہی ہے کہ وہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا سے ہم آہنگ رہنے پر متوجہ نہیں۔ اُنہیں بھی بدلنا ہے مگر وہ اِس کے لیے تیار نہیں۔ زندگی کا پورا ڈھانچا بدل گیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کا سرسری جائزہ لیجیے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہاں لوگوں نے خود کو ہر طرح کی تبدیلی کے لیے تیار کیا۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ تبدیلی کا عمل بہت کچھ بدل دے گا اس لیے اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار رہا جائے۔ یہ ذہنیت اس قدر عام ہے کہ اب وہاں کسی بھی تبدیلی کو حیرت سے نہیں دیکھا جاتا۔ جو لوگ تبدیل ہو رہے ہوں اُنہیں بھی حیرت سے دیکھنے کا چلن نہیں۔ جب سبھی بدل رہے ہوں تو کون کسے دیکھے اور حیرت میں غلطاں ہو؟ ہمارے ہاں اب بھی تبدیلوں پر حیران ہوا جاتا ہے۔ لوگ اپنے ارد گرد بہت کچھ بدلتا ہوا دیکھتے ہیں مگر پھر بھی خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تبدیلی کی یہ لہر رُکے گی نہیں مگر پھر بھی تبدیلی کے لیے خود کو تیار کرنے میں تساہل برتا جارہا ہے۔ تبدیلی کو پسند کرنے اور حرزِ جاں بنانے والی ذہنیت پیدا ہی نہیں ہو پارہی۔ ہو بھی کیسے؟ فکر و نظر کے حوالے سے ہم پر جمود طاری ہے۔ ہم دنیا بھر میں اور اپنے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی دیکھ رہے ہیں مگر اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار بھی نہیں ہو پارہے۔
مکمل تبدیلی کا مطلب ہے معیشت اور معاشرت دونوں کا بدلنا! دنیا بھر میں اصول یہ رہا ہے کہ جب معیشت بدلتی ہے تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ زندگی کے معاشی پہلو معاشرتی پہلوؤں کو یوں تبدیل کرتے ہیں کہ پورے معاشرے کا ڈھانچا بدل جاتا ہے۔ انسان محض کماتا نہیں بلکہ کمانے کے ڈھنگ کے ساتھ ساتھ بدلتا بھی جاتا ہے۔ کم و بیش چار صدیوں کے دوران یورپ سمیت تمام ترقی یافتہ معاشروں نے ثابت کیا ہے کہ جب معیشت کا ڈھانچا بدلتا ہے تو معاشرت کا ڈھانچا بھی بدل جاتا ہے۔ شخصی آزادی کا تصور معاشی معاملات ہی کے بطن سے برآمد ہوا۔ جب تک عورت گھر کی چار دیواری تک محدود تھی اور کمانے والوں یعنی مردوں کی محتاج تھی تب تک وہ اپنے لیے آزادی کی بات بھی نہ کرسکتی تھی۔ جب اُس نے کمانا شروع کیا اور مرد کی محتاجی ختم ہوئی تو وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھنے لگی۔ شخصی آزادی نے کتنی خرابی پیدا کی اور کتنی اچھائی‘ یہ ایک الگ بحث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب گھر کے تمام افراد اور بالخصوص خاتونِ خانہ نے کمانا شروع کیا تب یورپی معاشرے تبدیل ہونا شروع ہوئے اور ہمہ گیر مادّی ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ آج کی دنیا تین‘ چار صدیاں پہلے تک کی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ آج تبدیل نہ ہونے کا آپشن باقی رہا ہی نہیں۔ زندگی کا ہر پہلو اس قدر تبدیل ہوچکا ہے کہ پہچاننے میں نہیں آرہا۔ یہ کیفیت اُن کے لیے نہیں ہوتی جو اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اگر انسان ماحول کے مطابق تبدیل ہوتا رہے تو بات بات پر حیران ہونے کی زیادہ گنجائش نہیں رہتی۔ اب حیرت میں مبتلا رہنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ انسان دن رات اپنے آپ کو ماحول کے مطابق بدلنے کے لیے تیار رہے۔
آج ہمارا معاشرہ بیشتر معاملات میں تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ تبدیل نہ ہونے کا آپشن اب برائے نام بھی نہیں رہا۔ دنیا بھر میں متعدد معاشرے اپنے آپ کو بدلنے سے اب بھی گریزاں ہیں اور اِس کے نتیجے میں اُن کا بُرا حال ہوا ہے۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے! مکمل تبدیلی کو گلے لگانے کا وقت آچکا ہے مگر ہم اِس کے لیے تیار نہیں۔ معیشت کا ڈھانچا بدلنا بھی ناگزیر ہوچکا ہے۔ کل تک خاصے ساکت و جامد انداز سے کمایا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے‘ آج کمانے کے لیے انسان کو تبدیلیوں کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کام میں صفائی کے ساتھ ساتھ ورائٹی پیدا کرنا پڑتی ہے۔ وہ لوگ زیادہ کامیاب ہیں جو دن رات اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ صاحبِ قدر بنانے پر متوجہ رہتے ہیں۔ جسے زیادہ ہنر آتے ہیں وہ زیادہ کماتا ہے۔ زیادہ کمانا ہمارے ہاں آج بھی بہت اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ زیادہ کمانے والوں کا تمسخر اڑانے کے اب بھی عادی ہیں۔ جو دن رات آمدن بڑھانے کی خاطر سرگرداں رہتا ہو اُس سے کچھ زیادہ کرنے کی تحریک پانے کے بجائے لوگ تمسخر اڑاکر اپنے دل کی تسکین کرتے ہیں۔ یہ روش قبیح ہے! زیادہ کمانے میں کوئی قباحت نہیں‘ اِس کے نتیجے میں انسان ڈھنگ سے جی پاتا ہے۔ ہاں! زیادہ کمانے کی خاطر دوسروں کے حق پر ڈاکا ڈالنا کسی طور درست نہیں۔ ہمارے ہاں مکمل تبدیلی کو پسند کرنے والی ذہنیت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے والدین، گھر اور خاندان کے بزرگوں، اساتذہ اور اہلِ فکر و نظر کو مل جل کر اپنا کردار پوری دیانت، انہماک اور جاں فشانی سے ادا کرنا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved