الیکشن 2013ء سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار میں تھی‘ پرویز مشرف کے طویل دور کے بعد جمہوریت بحال ہوئی اور پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی آئینی مدت پوری کی‘ انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کو دو طرح کے چیلنجز کا سامنا تھا۔ دہشت گردی اور توانائی بحران۔ توانائی بحران اگرچہ اب بھی ہے مگر 2008ء سے لے کر 2013ء کے درمیان یہ بحران شدید تھا۔ نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا‘ گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کے لیے ملکِ عزیز میں کاروبار کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس کا فائدہ بنگلہ دیش نے اٹھایا‘ بنگلہ دیش نے کاروباری طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ اور مراعات کا اعلان کرکے سرمایہ اپنے ہاں منتقل کر لیا۔ آج بنگلہ دیش کی معیشت جو پاکستان سے بہتر دکھائی دیتی ہے‘ اس کے پیچھے وہ اقدام ہے جو بنگلہ دیش کی قیادت نے آج سے پندرہ برس پہلے اٹھایا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے توانائی بحران کے خاتمے کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا‘ سرمایہ کاروں اور عوام سے وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آ کر توانائی بحران کو قلیل مدت میں ختم کر یں گے۔ عوام چونکہ لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو 2013ء کے انتخابات میں کامیاب کرایا۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی 2013ء کے انتخابات میں ناکامی کی بنیادی وجہ لوڈشیڈنگ تھی جس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) نے اٹھایا اور قلیل مدتی منصوبوں سے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کر دیا۔
اب اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں مگر اس سے پہلے ہی تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کر دیا ہے جبکہ آج منگل کو خیبرپختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر خیبرپختونخوا اسمبلی کو بھی تحلیل کر دیا جاتا ہے تو سیاسی بحران شدید ہونے کا خدشہ ہے۔ اگلے چند ماہ میں الیکشن ہونے ہی والے ہیں‘ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ کیا پنجاب مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں ہے؟ ہماری دانست میں مسلم لیگ (ن) نے وفاق کی حکومت سنبھال کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ آج مہنگائی اور معاشی حالات کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کو ٹھہرایا جا رہا ہے‘ اگر چند ماہ صبر سے کام لیا ہوتا تو یہ ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہونی تھی۔ اتحادی حکومت نے عوام کے سامنے تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں معیشت کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں مگر اس پر کون اعتبار کرے گا‘ کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت گراتے ہوئے عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ چند ماہ کے اندر مہنگائی کو ختم کر دیں گے۔ مہنگائی میں کمی تو کیا ہونی تھی‘ الٹا اس میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی گورننس کی صورتحال کو بدترین قرار دیا ہے۔
ان حالات میں اگر مسلم لیگ (ن) الیکشن میں جاتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان اسے معاشی صورتحال ہی سے ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں ہمیشہ اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کرتی آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب 12 کروڑ سے زائد آبادی کا صوبہ ہے‘ ملک کے مجموعی 122.2 ملین رجسٹرڈ ووٹرز کا بڑا حصہ پنجاب میں ہے جو 58 فیصد بنتا ہے‘ سندھ 21 فیصد‘ خیبرپختونخوا 17 فیصد جبکہ بلوچستان کا حصہ صرف چارفیصد بنتا ہے۔ پچھلے چار برسوں کے دوران13 فیصد ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے‘ جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد بنتا ہے‘ جن میں ایک کروڑ ووٹرز پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ نوجوانوں کو ووٹ کے اندراج اور ووٹ کے استعمال پر تحریک انصاف نے قائل کیا ہے۔ تحریک انصاف سوشل میڈیا کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں سب سے آگے ہے‘ نوجوانوں کی بڑی تعداد چونکہ سوشل میڈیا سے جڑی ہے اس لیے تحریک انصاف کو نوجوانوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے سوشل میڈیا کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے مگر سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی اجارہ داری برقرار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو اب خدشات لاحق ہونا شروع ہو گئے ہیں کہ پنجاب کو تحریک انصاف سے واپس لینا آسان نہیں ہوگا‘ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کو آج تک میاں نواز شریف کے نام پر ووٹ ملتا آیا ہے‘ وہ لندن میں بیٹھے ہیں‘ رواں مہینے کو میاں نواز شریف کی آمد کا مہینہ قرار دیا جا رہا تھا مگر آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جلد پاکستان آنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف پاکستان واپسی سے پہلے اپنے تمام کیسز کا خاتمہ چاہتے ہیں جب تک انہیں تسلی نہیں ہو جاتی‘ وہ واپس نہیں آئیں گے۔ میاں نواز شریف کے بعد مریم نواز کو عوام میں پذیرائی حاصل ہے۔ ماضی میں انہوں نے کامیاب سیاسی جلسے بھی کیے‘ تاہم کچھ عرصہ سے وہ بھی لندن میں مقیم ہیں۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ شہباز شریف سمیت اعلیٰ قیادت حکومت میں ہے‘ وہ پارٹی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے‘ اس سے عوام کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کا جو تعلق بنا تھا‘ وہ کمزور ہو گیا ہے۔ اس خلا کو خان صاحب نے پُر کر لیا ہے کیونکہ وہ عوام کے ساتھ رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف اور مریم نواز کی اکٹھے واپسی ہوتی ہے اور مسلم لیگ (ن) عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرتی ہے تو ایک ساتھ دونوں کام ہو سکیں گے۔ عوام کے ساتھ رابطے بحال ہونا شروع ہوں گے‘ دوسرے یہ کہ وزیراعظم سمیت اعلیٰ قیادت پارٹی معاملات سے بے فکر ہو کر کام کر سکے گی۔
ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ خان صاحب بیانیہ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں‘ قطع نظر اس بات کے کہ بیانیہ حقائق سے کس قدر مطابقت رکھتا ہے‘ انہوں نے ماضی میں مقتدرہ کے لیے جو طرزِ تخاطب استعمال کیا وہ محتاجِ بیان نہیں‘ تب ان کے سوشل میڈیا ہمنوا بھی وہی طرزِ تخاطب استعمال کرتے رہے ہیں‘ اب انہوں نے نیا مؤقف اپنایا ہے کہ مقتدرہ اور ان کا مفاد ایک ہے‘ حیرت ہے خان صاحب کے اس بیانیے کو بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی تحلیل کرکے تحریک انصاف نے بظاہر اپنی آخری چال چل دی ہے۔ اگر آج خیبرپختونخوا اسمبلی کو بھی تحلیل کر دیا جاتا ہے تو پھر دیکھنا ہوگا کہ کیا تحریک انصاف اتنا دباؤ ڈال سکے گی کہ جس سے اتحادی حکومت عام انتخابات کے اعلان پر مجبور ہو جائے‘ یا اگر دو صوبوں میں الیکشن ہوتے ہیں تو ماضی کی طرح بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف تیسرے نمبر پر آئی ہے اگر ایم کیو ایم بائیکاٹ نہ کرتی تو شاید تحریک انصاف کا چوتھا نمبر ہوتا۔ شنید ہے کہ ایم کیو ایم کے اندر اب بھی بانیٔ متحدہ کی بات حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے‘ لندن سے وڈیو پیغام ملتے ہی ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا بائیکاٹ کر دیا گیا‘ تاہم الیکشن کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ سندھ میں تحریک انصاف مقبول جماعت نہیں رہی ہے۔
اتحادی حکومت نے اپنے تئیں معیشت کو درست سمت میں لانے کی کوشش کی مگر ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مترادف حالات سنبھل نہیں رہے ہیں کیونکہ معاشی معاملات سیاسی استحکام سے متعلق ہیں‘ اس لیے سبھی جماعتوں کو الیکشن کی بات کرنی چاہیے‘ تاخیر کی صورت مزید نقصان ہوگا۔ عام انتخابات جلد یا بدیر ہو ہی جائیں گے لیکن جو کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا وہ ہے انتخابی اصلاحات۔ تحریک انصاف کے دور میں سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق نہیں ہو پایا‘ اب اتحادی حکومت میں بھی یہ کام ادھورا ہے‘ تمام جماعتوں کے لیے قابلِ قبول الیکشن کمیشن بھی اہم مسئلہ ہے۔ انتخابی اصلاحات اس وقت ممکن نہیں کیونکہ تحریک انصاف پارلیمنٹ سے باہر ہے‘ البتہ انتخابی فریم ورک پر تمام جماعتوں کا اتفاقِ رائے ضروری ہے‘ اس مقصد کے لیے سیاسی مذاکرات ہوں‘ پھر مینڈیٹ کے ساتھ جو بھی جماعت حکومت میں آتی ہے تو انتخابی اصلاحات کی بات کی جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved