تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     17-01-2023

بھوک، بیروزگاری اور سزا

کوئی ایسا لفظ‘ کوئی ایسا استعارہ‘ کوئی ایسا اظہار بتا دیا جائے جس میں ایسی تاثیر‘ ایسی خاصیت ہو جو حاکمِ وقت اور افسرانِ بااختیار کے دلوں پر فوری اثر کر سکے۔ جو ان کی سماعتوں سے ٹکراتے ہی ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دے کہ جس ملک نے‘ جس قوم نے انہیں وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وزیر، مشیر، سیکرٹری بنایا ہے اور دیگر بڑے بڑے مناصب عطا کیے ہیں‘ وہاں خطِ غربت سے نیچے بسنے والے اور روازنہ دھتکار و پھٹکار سمیٹنے والے عوام کی داد رسی ہی ان کا فرضِ اولین ہیں۔ انہیں سب سے پہلے ان کے لیے کچھ کرنا ہے جو مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور تنگ دستی کے ہاتھوں بری طرح کچلے اور مسلے جا رہے ہیں۔ اس وقت جو حالات ہیں‘ کبھی ان کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جس بھی فیکٹری‘ کارخانے‘ دفتر یا کسی چھوٹی‘ بڑی مارکیٹ میں کسی یتیم و مفلس کی نوکری کی درخواست لے کر جائیں تو ایک ہی جواب ملتا ہے: جناب! آپ کو انکار کبھی بھی نہ کرتے‘ لیکن کیا کریں اس وقت حالات ہی ایسے ہیں‘ کوئی ایل سی نہیں کھل رہی‘ خام مال نایاب ہو چکا ہے‘ ہم تو خود اپنا کارخانہ‘ اپنی فیکٹری‘ اپنا یونٹ بند کر رہے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہم نے تو چند روز قبل ہی سب کچھ شٹ ڈائون کر دیا ہے کیونکہ اب نقصان برادشت نہیں ہو رہا‘ اب تو بس حساب کتاب کر رہے ہیں۔
غربت‘ افلاس اور قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے معاشرے میں سب سے بدترین معاشی قتل ہوتا ہے اور ہمارے لوگ نجانے کب سے اس معاشی قتل گاہ میں مر مر کر جی رہے ہیں۔ روز ایک نئی ضرب لگتی ہے‘ روز ایک نیا عضو کٹ رہا ہے‘ روز ایک خواب چھن رہا ہے‘ روز ایک آس مٹ رہی ہے۔ بیروزگاری کی بھینٹ چڑھنے والوں کے معاشی قتل سے ایک پورا گھرانہ تباہ ہو جاتا ہے اور نجانے یہ سلسلہ اور کتنا دراز ہو گا۔ اگر یہی صورت حال رہی تو خدا نہ کرے کہ پورا ملک ہی شٹ ڈائون ہو جائے۔ ملک بھر سے ملنے والی اطلاعات سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اب تک ایک سو پچاس سے زائد بڑے صنعتی یونٹس بند ہو چکے ہیں‘ برآمدات میں کمی اور معاشی بحران کے باعث صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں 70 لاکھ سے زائد افراد بیروزگاری کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ محض 70 لاکھ افراد نہیں‘ 70 لاکھ خاندان ہیں۔ ملک میں بیروزگاروں کا ایک نیا سیلاب ملک کی معاشی، معاشرتی اور امن و امان کی قدروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دے گا۔
اکتوبر 2021ء میں آئی ایم ایف نے جو ''اکنامک آئوٹ لُک‘‘ جائزہ پیش کیا‘ اس میں پاکستان میں بیروزگاری کم ہونے کی نوید سنائی گئی تھی جبکہ ایک انگریزی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے تین سالہ دورِ حکومت میں (کورونا کے باوجود) لگ بھگ پچپن لاکھ نئے روزگار پیدا کیے۔ ٹھیک ایک سال بعد‘ اکتوبر 2022ء میں آئی ایم ایف نے جو معاشی جائزہ پیش کیا اس میں بیروزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھنے اور اس میں مزید اضافے کا عندیہ دیا گیا۔ محض سات‘ آٹھ ماہ میں ہی ملک کا معاشی نظام اتھل پتھل کا شکار ہو گیا۔ ایک سال پہلے تک آئی ایم ایف کہہ رہا تھا کہ ملکی ترقی کا ہدف حکومت کے تخمینے سے کچھ کم رہے گا؛ البتہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو سے تین فیصد کے درمیان جبکہ مہنگائی کی شرح 8.5 فیصد تک رہے گی۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے‘ نتیجتاً ایل سیز (لیٹر آف کریڈٹ) بند کر دی گئی ہیں یعنی بیرونِ ملک سے کوئی چیز (خواہ کوئی ضروری طبی سامان یا ایمرجنسی کی دوائیاں ہی ہوں) امپورٹ کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ مہنگائی گزشتہ پچاس سالوں کی بلند ترین سطح پر ہے اور بیروزگاری کا ایک ایسا طوفان برپا ہے‘ جو اس سے قبل کسی نے دیکھا نہ سنا۔
بیرونِ ملک مقیم اپنے ایک دوست کے اشتراک سے ایک بڑے قصبے میں‘ جہاں قریبی دیہات سے سینکڑوں لوگ محنت مزدوری کیلئے آیا کرتے ہیں‘ ایک ہوٹل نما تنور سے معاہدہ کر رکھا تھا جس کے تحت وہ دو روٹیاں اور سبزی اور ہفتے میں ایک روز مرغی اور بڑے گوشت کی پلیٹ چند افراد کو مفت دیا کرتا تھا۔ ہم نے تنور والے کو کچھ بیوائوں، معذوروں اور علاقے کے چند یتیم بچوں سے متعلق یہ ہدایات کر رکھی تھیں تاکہ یہ سب لوگ اپنے لیے روٹی اور کھانا مفت لے سکیں۔ ایک ماہ قبل تنور کے مالک نے لکڑیوں کے مہنگا ہونے، آٹے کی نایابی، گھی اور تمام مرچ مسالا جات کے بے تحاشا مہنگا ہونے پر بتایا کہ طے شدہ ماہانہ رقم میں اب وہ یہ اشیا فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ برائلر مرغی کی تو بات چھوڑیں‘ پیاز، ٹماٹر سمیت نہ صرف سبزیاں بلکہ مرچ مسالے بھی اس قدر مہنگے ہو گئے ہیں کہ اب محض نقصان ہو رہا ہے۔ یہ تو محض ایک تنور کا قصہ ہے‘ جب کسی یونٹ‘ کسی فیکٹری‘ کسی کارخانے کا بند ہونے کا سوچتے ہیں تو کانپ سے جاتے ہیں کہ اگر ہر روز ایک فیکٹری‘ ایک صنعتی یونٹ بند ہونے لگا تو اس سے نجانے اب تک کتنے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہوں گے۔ یوں لگتا ہے کہ کہیں طے پا چکا ہے کہ عام انسانوں سے جینے کا حق چھین لیا جائے گا اور انہیں علاج کرانے، پیٹ بھرنے، تن ڈھانپنے اور سر چھپانے سے بھی محروم کر دیا جائے گا۔ ان کی زندگیاں اس قدر کٹھن بنا دی جائیں گی کہ ان کی کوئی سسکی‘ کوئی چیخ‘ کوئی شکایت‘ کوئی آہ احتجاج کی صورت میں ان کے لبوں سے باہر نہ نکل پائے۔ اگرکوئی رونا بھی چاہے تو اس کے آنسوئوں پر ایسے پہرے بٹھا دیے جائیں کہ ڈر اور خوف سے اس کا خون خشک پڑ جائے۔
لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال کے آئوٹ ڈور وارڈ میں ایک لاغر بوڑھا‘ ایک بیمار عورت اور دو بچے بیٹھے تھے۔ ان سب کے لباس سے بھوک اور محرومی باہر جھانک رہی تھی۔ ہسپتال کے مختلف وارڈوں میں داخل کسی مریض کے لواحقین مختلف قسم کے پھل اور مشروب لے کر جب ان کے پاس سے گزرتے تو دونوں بچے اپنی ماں کی چادر کھینچ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنے لگ جاتے۔ ماں اپنی نمناک اور حسرت بھری نگاہوں میں امڈنے والے آنسوئوں کو اپنی اوڑھنی سے صاف کرنے کی کوشش کرتی اور پھر ان بچوں کی طرف دیکھتی۔ ہسپتال کی پرچی بنوانے کے بعد جب وہ عورت قطار میں لگی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی تو دونوں بچے اس کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ میلے کچیلے کپڑوں کے باعث دوسرے مریض اور ہسپتال کا سٹاف انہیں حقارت سے دیکھتے ہوئے برآمدے سے باہر جانے کو کہتا‘ وہ کچھ دیر کیلئے باہر جاتے لیکن پھر وہیں آ بیٹھتے۔ آخرکار اس عورت کی باری آ گئی مگر چند ہی لمحوں بعد وہ ایک پرچی ہاتھ میں لیے باہر آگئی۔ ڈاکٹر نے اسے غالباً کوئی دوا لکھ دی تھی۔ ہسپتال کے سامنے کے ایک میڈیکل سٹور پر جب بزرگ آدمی نے پرچی کیمسٹ کے سامنے رکھی تو اس نے بزرگ کی ظاہری حالت دیکھتے ہی کہہ دیا کہ بابا جی! بارہ سو روپے لگیں گے۔ بوڑھے نے اپنے کرتے کے ساتھ بندھی ایک تھیلی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس عورت نے بچوں کی طرف یاس بھری نظروں سے دیکھ کر کہا ''رہنے دو‘ میں تو ویسے بھی مرنے والی ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر اس کے آنسو بہنے لگے۔ ماں کو روتا دیکھ کر ایک چھوٹا بچہ بھی رونے لگ پڑا۔ ان کی حالت دیکھ کر وہاں موجود ایک شخص نے بابا جی کے ہاتھ سے نسخہ لے کر اس پر لکھی تمام ادویات خریدیں اور پھر پانچ سو روپیہ ان کے ہاتھ میں تھمایا۔ بعد ازاں اس شخص نے اس فیملی کو ایک رکشے میں بٹھایا اور اس کا کرایہ ادا کرتے ہوئے انہیں رخصت کر دیا۔
وہ جو کل تک ادویات کے مہنگا ہونے اور عوام کے مہنگی ادویات سے مرنے پر تقریریں کیا کرتے تھے‘ آئے روز پریس کانفرنس اور میڈیا ٹاکس کرتے نہیں تھکتے تھے‘ اب وہ نجانے کہاں چلے گئے ہیں۔ انہیں احساس کیوں نہیں ہو رہا کہ لوگ اب دوائیوں سے نہیں‘ بھوک سے بھی مرنے لگے ہیں۔ ٹھیک ایک سال پہلے تک جو مہنگائی مارچ کر رہے تھے‘اب وہ خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟ عوام کی تکالیف اور ان کی خاموشی دیکھ کر لگتا ہے کہ اب یہ معاملہ خدا کی عدالت کے سپرد ہو چکا ہے کیونکہ جب معاشرے کے سبھی طبقات نچلے طبقوں کے معاملات سے لاتعلق ہو جائیں تو خدا کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے۔ سمجھ لیجئے کہ آسمانی عدالت میں دائر ہونے والی درخواستوں پر فیصلے کا وقت آیا ہی چاہتا ہے اور معاشرے کے بے بس اور نچلے طبقات سے لاتعلقی کی سزا سب کا مقدر بننے والی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved