یہ انسانی مزاج ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے زیادہ سمجھدار‘ ذہین‘ چالاک اور خوبصورت سمجھتا ہے۔ جب اسے اپنے اندر یہ خوبیاں نہیں ملتیں تو پھر وہ اپنے اندر یہ سب خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر پھر بھی کچھ نہ بن پائے تو وہ ذہین‘ چالاک‘ کامیاب اور خوبصورت لوگوں سے یاری دوستی کرنے کی کوشش کرے گا اور ان کی قربت پانے کے لیے جو اس سے بن پڑے گا‘ وہ کرے گا۔ ان کی خوشامد کرے گا یا پھر ان پر مال پانی خرچ کرے گا یا انہیں اپنا دیوتا اور خود کو ان کا پجاری مان کر ان کے آگے بچھے گا کہ شاید جو نروان انہوں نے پا لیا تھا‘ جس وجہ سے وہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئے تھے‘ اس میں سے کچھ حصہ اسے بھی مل جائے۔ ہر انسان میں چالاکی‘ مکاری اور ذہانت کا ایک لیول ہوتا ہے لیکن بعض لوگ ان خوبیوں میں دوسروں کو بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ وہ کچھ عرصے بعد دوسرے انسانوں کو اپنے لیے استعمال کرنے میں مہارت کے نیکسٹ لیول تک پہنچ جاتے ہیں جہاں پر ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ہر اچھے سیاستدان میں یہ خوبیاں موجود ہوتی ہیں اور پھر یہی سب سیاستدان ایک دوسرے سے اپنی مکاریوں اور چالاکیوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور جو یہ میچ جیت جاتا ہے وہ عوام کا لیڈر اور حکمران بن بیٹھتا ہے۔ سیاست اور حکمرانی کے شوقین انسانوں کی کوشش ان چیزوں کے گرد گھومتی ہے کہ کون کس پیمانے پر کتنے لوگوں کو بیوقوف بنانے کا فن جانتا ہے۔ عام انسان کو بیوقوف بنانا بہت آسان کام ہے۔ اسے اس کی اوقات سے بڑھ کر خواب دکھاؤ۔ یہاں تو سانپ دکھانے کے نام پر مداری سینکڑوں لوگوں کو اکٹھا کر لیتا ہے۔ میں خود ایسا ہی بیوقوف بن کر سکول دور میں ایسے تماشوں میں شریک رہا ہوں۔ ہر دور میں ایسے رہنما پیدا ہوتے رہتے ہیں جو عوام کو بڑے عرصے تک اپنی باتوں اور نعروں سے بیوقوف بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب نئی نسلیں جوان ہوتی ہیں تو وہ پرانے سیاسی رہنماؤں اور حکمرانوں کے رومانس سے نکل آتی ہیں کیونکہ وہ پرانے رہنما وقت کے ساتھ خود کو اَپ گریڈ نہیں کر سکتے اور یوں وہ ان نوجوانوں کے نزدیک Irrelevant ہوتے چلے جاتے ہیں جس کا اُن رہنماؤں کو احساس تک نہیں ہوتا۔
وہ اب بھی پرانے شکاریوں کی طرح پرانے جال لے کر ہی پھرتے ہیں اور یوں دھیرے دھیرے اپنا چارم کھو بیٹھتے ہیں۔ اس دوران نئے دور کا نیا شکاری ان کی اس خامی کو نوٹ کرکے آگے بڑھتا ہے اور نیا جال بچھا دیتا ہے اور یوں وہ اپنی چالاکی اور ذہانت سے عوام کو نئے خواب دکھا کر اپنے پیچھے لگا لیتا ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ سے یونہی چلا آرہا ہے کہ ذہین‘ مکار اور چالاک لوگ ہی دوسروں پر حکمرانی کرتے آئے ہیں۔ کبھی دور تھا کہ جب ایک طاقتور انسان حکمران بنتا تھا تو لوگوں کو لگتا تھا کہ وہ انہیں مصیبتوں‘ بلاؤں اور جنگوں میں بچائے گا لیکن یورپ میں جب تعلیم عام ہوئی تو عوام کو محسوس ہوا کہ طاقتور جسم کا مالک ہونا بڑی بات نہیں ہے۔ اصل طاقتور ذہین شخص ہے اور وہی اُن کا حاکم بنے گا۔ یوں جمہوریت میں ایسے لوگوں کو اوپر آنے کا موقع ملا جو اپنی ذہانت سے انسانی مزاج کو سمجھ کر انہیں اپنے پیچھے لگانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ انسان کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ وہ اچھے مقرر اور بہادری سے بات کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ قدیم یونان میں تقریر کرنے کا فن باقاعدہ سکھایا جاتا تھا۔ ایک اچھی تقریر قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ایک اچھا مقرر حکمرانوں کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے کئی مواقع آئے جب ایک تقریر نے فتح کو شکست میں بدل دیا۔
قدیم تاریخ میں ایسی مثال ڈھونڈنی ہو تو مارک انتھونی کی سیزر کی لاش پر کی گئی تقریر سن لیں جس نے بروٹس کا سارا پلان چوپٹ کر دیا اور اس کی فتح شکست میں بدل گئی اور بروٹس کو خودکشی کرنا پڑ گئی تھی۔ سارا جادو مارک انتھونی کی تقریر کا تھا جسے شیکسپیئر نے اپنے تاریخی ڈرامے جولیس سیزر میں امر کر دیا۔ اگر جدید تاریخ سے ایسی مثال ڈھونڈنی ہو تو آپ کو برطانوی وزیراعظم چرچل کی تقریر ملے گی جب برطانیہ کو جرمنوں نے مار مارکر اَدھ موا کر دیا تھا تو چرچل نے مشہورِ زمانہ تقریر کی کہ ہم سمندروں میں لڑیں گے‘ خشکی پر لڑیں گے اور پوری برطانوی تاریخ بدل گئی تھی۔ اس لیے انسانی جذبات سے کھیلنے کا فن ہی آپ کو بڑا سیاستدان بناتا ہے۔ آپ نے انسانوں پر حکومت کرنی ہے تو ان کے جذبات اور احساسِ کمتری سے کھیلنا آنا چاہیے۔ آپ ان کے اندر دبی ہوئی خواہشات کو سمجھیں اور انہیں ابھارنا شروع کر دیں۔ انہیں احساسِ کمتری سے نکال کر احساسِ برتری کا سبق دینا شروع کر دیں‘ چاہے گھر میں فاقے ہی ہوں۔ ہر انسان خود کو دوسرے سے بالاتر سمجھنے کا شوقین ہوتا ہے‘ لہٰذا اس کی اَنا کو ہوا دیں۔ اسے بتائیں وہ عظیم پیدا ہوا ہے۔ اس نے عظیم بننا ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹ اس کا سیاسی مخالف ہے۔ اگر وہ کسی طرح ان کا حاکم بن جائے تو پھر دیکھیں یہ ملک اور عوام کیسے ترقی کریں گے۔ دنیا میں ان کا ایک وقار ہوگا۔ دنیا کے جس ایئرپورٹ پر وہ اتریں گے وہاں ریڈکارپٹ پر اُن کا استقبال ہو گا۔ اتنا پیسہ اس ملک میں آئے گا کہ لوگ دنیا بھر سے نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے۔ ہم دنیا کو قرضے دیں گے۔ ہم دنیا کے نئے حاکم ہوں گے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ صرف اس سیاستدان کو پتا ہوتا ہے کہ وہ سب جھوٹ بول رہا ہے لیکن اسے سننے والے اس پر ایمان لا چکے ہوتے ہیں۔ آپ ان کو لاکھ کہتے رہیں‘ ان کا لیڈر جھوٹ بول رہا ہے وہ نہیں مانیں گے۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے کہ اگر انہوں نے مان لیا کہ ان کا لیڈر جھوٹ بول رہا ہے تو پھر ان کی اپنی شخصیت کی خامی سامنے آئے گی کہ وہ اتنے سادہ اور احمق ہیں کہ انہیں ان جیسے بندے نے بیوقوف بنا لیا اور وہ بن گئے۔ یہ بات ان کی اَنا ہضم نہیں کرتی لہٰذا وہ جھوٹے لیڈرز کے جھوٹ پر یقین کیے جاتے ہیں تاکہ ان کا مذاق نہ اڑے کہ انہیں کوئی بیوقوف بنا گیا تھا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ عام انسانوں کو بیوقوف بنانا بہت آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی انہیں اس بات پر قائل کرے کہ انہیں بیوقوف بنایا جارہا ہے۔لہٰذا ہر دفعہ جو چالاک اور مکار انسان دوسرے انسانوں پر حاکم بننے کا جنون پال لیتا ہے‘ وہ نئے سرے سے لوگوں کو نئے خواب اور نئے نعرے لگا کر بیوقوف بناتا ہے۔ آپ نے کسی چالاک اور مکار سیاستدان کو پاکستان میں پرانا نعرہ لگاتے نہیں سنا ہوگا جو اس سے پہلے والے سیاستدان لگا چکے ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ نیا نعرہ تخلیق کرے گا‘ نئے وعدے کرے گا‘ نیا نظام تخلیق کرنے کے دعوے کرے گا کیونکہ اسے علم ہے کہ لوگوں کو نئے سرے سے بیوقوف بنانا آسان ہے۔ نئی زندگی اور نئے طریقے سے عظیم قوم بنانے کا لالچ دے کر اپنے جال میں پھانسا بہت آسان ہے۔ انسانی مزاج ہے وہ ہر دفعہ نئے وعدے اور نئے لالچ پر پھسل جاتا ہے۔
کسی نے ایک فراڈیے سے پوچھا تھا کہ تم لوگوں کا دھندا کیسے چلتا ہے؟ اس نے کہا تھا جب تک دنیا میں لالچی لوگ موجود ہیں ہم فراڈیوں کا دھندا کبھی مندا نہیں ہوگا۔ یہی حال ہمارے عوام کا ہے جب تک وہ نئے نعروں اور راتوں رات عظیم بننے کے چکر میں پھنستے رہیں گے‘ پاکستانی سیاستدان اور ہر قیمت پر حاکم بننے کے خواہشمند چالاک‘ مکار اور ذہین سیاستدانوں کے ان پر حکمرانی کرنے کے خواب کبھی کم نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی ذہین‘ چالاک اور مکار لوگ سیاست کے نام پر اپنے اپنے حصے کے بیوقوف ڈھونڈ ہی لیتے ہیں اور پاکستان میں یہ کون سا مشکل کام ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved