میں نے شیشے کا دروازہ کھولا تو یوں لگا جیسے بیتے ہوئے لمحے پھر سے جاگ اُٹھے ہوں۔ میرے سامنے وہی گیلری تھی جس کے ایک طرف سینئر فیکلٹی کے کمرے تھے۔ میں نے سوچا کیسے کیسے لوگ تھے‘ کہاں چلے گئے۔ گیلری میں بائیں ہاتھ پہلا کمرہ ڈاکٹر مہر النسا کا تھا‘ جسے ہم اس کے مختصر نام مہرو سے بلاتے تھے۔ مہرو نے ایک بار بتایا تھا کہ اس کا تعلق معروف ادیب اور ادبی دنیا کے مدیر صلاح الدین کے خاندان سے ہے۔ مہرو کی شخصیت میں ایک اعتماد تھا اور دل آویزی تھی۔ پھر ایک روز وہ پاکستان چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے کینیڈا چلی گئی۔ سنا ہے آج کل وہ وہاں ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہی ہے۔ مہرو کے آفس کے ساتھ ڈاکٹر عفت فرح کا آفس تھا‘ عفت کو میں آئی ای ڈی جوائن کرنے سے پہلے سے جانتا تھا۔ اس وقت وہ نیشنل اکیڈمی آف ہائر ایجوکیشن میں کام کر رہی تھی۔ پھر وہ کچھ عرصہ غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسز کا بھی حصہ رہی۔ عفت کی پی ایچ ڈی انگریزی میں تھی لیکن پھر وہ ایجوکیشن کے میدان میں زیادہ دلچسپی لینے لگی۔ بعد میں عفت نے آئی ای ڈی کے ہی ایک آسٹریلوی ڈائریکٹر جان میکلوڈ سے شادی کر لی اور پاکستان سے باہر منتقل ہو گئی۔
گیلری میں آگے بڑھیں تو عفت کے کمرے کے بعد ڈاکٹر یاٹاکانو کا آفس تھا وہ آئی ای ڈی میں سوشل سٹڈیز کے ماڈیول کی انچارج تھی۔ یاٹا کانو صحیح معنوں میں کریٹیکل پیڈاگاجی (Critical Pedagogy) میں یقین رکھتی تھی۔ اس کے مزاج میں ذرا سا تیکھا پن تھا لیکن وہ ان چند اساتذہ میں تھی جن کی بدولت کریٹیکل پیڈاگاجی کی فلاسفی کو آئی ای ڈی میں فروغ ملا۔ اس کا تعلق افریقہ سے تھا۔ اپنا ٹنیور مکمل ہونے کے بعد وہ واپس چلی گئی۔ پھر اس کے بارے میں کوئی خبر نہ ملی۔ یاٹا کانو کے جانے کے بعد اس کمرے میں عائشہ آ گئی۔ وہ پشاور یونیورسٹی میں انگریزی پڑھاتی تھی اور میرے کہنے پر آئی ای ڈی آئی تھی۔ انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ اسے پینٹنگ کا بھی شوق تھا۔ پھر ایک دن اس کی شادی ہو گئی اور وہ امریکہ کے شہر میامی چلی گئی۔
یاٹا کانو کے آفس کے بعد میرا کمرہ تھا۔ میں نے کمرے کی کھڑکی سے جھانک کر اندر دیکھا۔ وہی میز‘ وہی کرسی‘ وہی شیلف اور مہمانوں کے لیے وہی صوفہ۔ میں نے سوچا سب کچھ وہیں رہتا ہے‘ صرف لوگ چلے جاتے ہیں۔ میرے آفس کے سامنے گیلری میں میرے سیکرٹری عرفان خیمانی کا کیبن تھا۔ عرفان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی۔ میرے آئی ای ڈی چھوڑنے کے بعد عرفان امریکہ چلا گیا جہاں وہ ہیوسٹن میں رہ رہا ہے۔ میرے کمرے کے ساتھ ڈاکٹر میمن کا آفس تھا۔ ڈاکٹر میمن میرے قریبی دوست بھی تھے اور ہم نے آئی ای ڈی میں کچھ کورسز مل کر پڑھائے۔ ڈاکٹر میمن بعد میں آئی ای ڈی کے ڈائریکٹر بھی بنے۔ پھر حیدر آباد بورڈ کے چیئرمین۔ میمن صاحب سے اب بھی رابطہ رہتا ہے۔ ڈاکٹر میمن کے کمرے سے اگلے کمرے میں طاہر جاوید اور فاروق کنور بیٹھتے تھے۔ طاہر ڈاکٹر میمن کی ٹیم کا حصہ تھے۔ فاروق کنور کا تعلق پنجاب کے علاقے خانیوال سے تھا اور وہ انگریزی کی ٹیم کا حصہ تھا۔ آئی ای ڈی میں اس کے آنے سے رونق آگئی تھی۔ 1999ء میں جب میں آئی ای ڈی سے رخصت ہو کر لاہور آیا تو کچھ مہینوں بعد فاروق بھی مجھ سے آملا اور ہم نے لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں سوشل سائنسز فیکلٹی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد اسلام آباد چلا گیا اور اس نے AKESکو جوائن کر لیا۔ اب اس سے فون پر کبھی کبھار بات ہو جاتی۔ پھر ایک روز خبر ملی کہ وہ گلگت کے علاقے استور میں جان کی بازی ہار گیا‘ اور آج میں آئی ای ڈی میں اس کے کمرے کے سامنے خاموش کھڑا تھا۔ یہ اس گیلری میں آخری کمرہ تھا۔ اس گیلری میں آنے سے پہلے میں اس ہال نماکمر ے میں گیا جہاں ہماری انگریزی کی ٹیم کے فوزیہ قریشی اور اقبال بیٹھتے تھے۔ سنا ہے اقبال آج کل دبئی میں کاروبار کر رہا ہے۔ فوزیہ قریشی میرے آئی ای ڈی چھوڑنے کے کچھ عرصے بعد شادی کے بندھن میں بندھ کر امریکہ چلی گئی۔ پچھلے ہی دنوں اس سے بات ہوئی تھی۔ آج کل وہ امریکہ کے شہر San Diego میں اپنے خاوند اور دو بچوں کے ہمراہ رہ رہی ہے۔ پاکستان سے اتنی دور رہ کر اس کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے۔
اب میں سیڑھیاں طے کرکے اوپر والی منزل پر آ گیا ہوں‘ وہ کمرہ دیکھنے کے لیے جہاں ہماری ساتھی فوزیہ رضا بیٹھتی تھی۔ جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں فوزیہ کا تعلق لاہور سے تھا اور اس نے انگریزی میں ایم اے کیا تھا اور ایک مقامی کالج میں انگلش پڑھاتی تھی‘ وہیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے منعقد کیے جانے والے کورس میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ فوزیہ کو ٹیلی پیتھی اور میٹا فزیکل دنیا کے واقعات میں خاص دلچسپی تھی‘ وہ ان چند لوگوں میں شامل تھی جن کے ظاہر اور باطن میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ایک دن پتا چلا کہ وہ آئی ای ڈی چھوڑ کر اسلام آباد جا رہی ہے۔ وہ جانے سے پہلے مجھے ملنے آئی تو اپنے ساتھ ایک لفافے میں کچھ کاغذات میرے حوالے کیے اور کہا یہ ٹیلی پیتھی کے حوالے سے میٹر یل ہے‘ میں یہاں سے جا رہی ہوں‘ میں نے سوچا یہ کاغذات آپ کے حوالے کر جاؤں۔ بعد میں فوزیہ ٹورونٹو چلی گئی جہاں آج کل وہ اپنے خاوند اور بیٹیوں کے ہمراہ رہ رہی ہے۔ بند کمرے کو دیکھ کر ایک گہری اداسی میرے چاروں طرف پھیلنے لگی۔ میں سیڑھیاں اُتر کر پہلی منزل پر آ گیا‘ اب میرے بائیں ہاتھ وہ کمپیوٹر لیب تھی جہاں جاوید حیرانی بیٹھا کرتا تھا‘ اس نے جسمانی معذوری کو کبھی مجبوری نہیں بننے دیا تھا۔ آئی ای ڈی کے کمپیوٹر سے متعلق معاملات وہی چلاتا تھا۔ اب میں سیڑھیاں اتر کر نیچے آجاتا ہوں اور برآمدے میں چلتا ہوا اُس کمرے کی طرف جاتا ہوں جہاں کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ یہاں دائرے میں بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی۔ یہ آئیڈیا بھی کاظم کا تھا۔ یہاں ہم دائرے میں بیٹھتے اور اِن فارمل ڈسکشن ہوتی۔ اس کمرے کو ہم KIVA کہتے تھے۔ برآمدے سے ہوتا ہوا میں بائیں طرف مڑتا ہوں تو وہ کمرہ آتا ہے جہاں ہم نے بلوچستان کے اساتذہ کے لیے تربیتِ اساتذہ کا پروگرام شروع کیا تھا۔ پھر اس پروگرام کی نسبت سے یہ بلوچستان روم کہا جانے لگا۔ میں آخر میں لائبریری کی طرف آتا ہوں جہاں ایک زمانے میں منور لائبریرین ہوا کرتی تھی جس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی۔
میں ایک بار پھر لان میں آجاتا ہوں جہاں دسمبر کی نرم دھوپ ہر طرف پھیلی ہے۔ میں لکڑی کے بینچ پر بیٹھ جاتا ہوں اور بینچ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ میری نگاہوں میں وہ سارے چہرے ایک ایک کرکے روشن ہو جاتے ہیں جو آئی ای ڈی میں مجھے ملے تھے۔ اب ان میں سے کوئی بھی یہاں نہیں تھا۔ میں سوچتا ہوں وقت بھی کیسا جادوگر ہے‘ خود ہی منظر بناتا ہے اور خود ہی ان منظروں کو بدل دیتا ہے۔ میں آنکھیں بند کیے نجانے کتنی ہی دیر یہاں بیٹھا رہتا کہ مجھے ایک آواز نے چونکا دیا۔ یہ ریسپشن والی لڑکی تھی‘ اس نے کہا: سر آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ میں اسے دیکھ کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں: میں بالکل ٹھیک ہوں۔ اس نے کہا: اگر آپ کو پانی چاہیے تو میں لا کے دے سکتی ہوں۔ میں نے مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کیا اور کندھے پر بیگ لٹکائے اینٹوں سے بنے ہوئے اس طویل رستے پر چلنے لگا جو پارکنگ تک جاتا تھا۔ دسمبر کی نرم دھوپ اب مدھم پڑتی جا رہی تھی۔ اینٹوں سے بنے اس راستے پر میں کتنی ہی بار گزرا تھا لیکن نجانے آج کیوں ایسے لگ رہا تھا کہ یہ راستہ بہت لمبا ہو گیا ہے اور میرے پاؤں تھکن سے شل ہو رہے ہیں۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved