سیاسی سرکس میں نئے آئٹمز کی وجہ سے کھڑکی توڑ رش برابر لگا ہوا ہے۔ پرویز الٰہی (ق) لیگ کو تحریک انصاف میں ضم کرنے چلے تو چودھری شجاعت نے ان کی رکنیت معطل کر کے سات روز میں جواب طلب کر لیا کہ کسی دوسری جماعت میں ضرور جائیں لیکن پارٹی رکنیت سے مستعفی ہو کر جائیں۔ دوسری طرف تختِ پنجاب کے نگران سیٹ اَپ کے لیے بھی دلچسپ تماشے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ فریقین کی طرف سے وزارتِ اعلیٰ کے لیے بھجوائے گئے ناموں کے پینل کے علاوہ از خود اُمیدوار بننے والوں کی بھاگ دوڑ کا منظر بھی دیدنی ہے۔ اپنی اپنی وفاداریوں اور جانبداریوں کی پَنڈ سر پر اٹھائے اس گمان میں ہیں کہ فریقین میں اتفاق نہ ہونے کے بعد معاملہ الیکشن کمیشن کی صوابدید پر چلا جائے تو ان کی لاٹری لگ سکتی ہے۔ لاٹری نکلوانے کے لیے لٹو بنے گھومنے والے کہیں طواف کر رہے ہیں تو کہیں صبح و شام حاضری دے رہے ہیں۔ نجم سیٹھی کو آئیڈیل بنانے والے اکثر دانشور اور تجزیہ کار بھی اس میراتھن میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ گلے میں وفاداریوں کے میڈل ڈالے اپنی غیرجانبداری اور حب الوطنی کی لابنگ اور مارکیٹنگ کے دوران سبھی کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار اور بے چین ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب تک لالچ زندہ ہے ٹھگ اور فراڈیا بھوکا نہیں مر سکتا۔ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضرورت مندوں نے نگران وزیر بنانے کا ریٹ بتا کر جگہ جگہ دکانیں کھول لی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان دکانوں پر رش بھی خاصا دکھائی دے رہا ہے۔ تین مہینے کی وزارت اور جھنڈے والی گاڑی کے حصول کے لیے سبھی لٹنے کے لیے تیار ہیں۔ اپنے ناموں کی مارکیٹنگ کے لیے سوشل میڈیا ماہرین کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں جبکہ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بھی نگران وزیر کے طور پر اپنے نام چلوانے کے لیے فرمائشی چکر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ کون کس کو چکر دے رہا ہے؟ سبھی جانتے بوجھتے چکرانے کو تیار ہیں۔ ازخود امیدوار بنے کافی ہاؤسز اور ریستورانوں میں میزیں سجائے اپنے اپنے مداحوں کے جھرمٹ میں کم و بیش وزیر بنے خاطر تواضع کے لمبے چوڑے بلز بھی ہنسی خوشی ادا کر رہے ہیں۔ مہمان بھی راضی‘ میزبان بھی خوش۔ ہنسی خوشی لُوٹنے اور لٹانے کا یہ سلسلہ ابھی چند روز اور جاری رہے گا‘ اس کے بعد سچ مچ کا نگران سیٹ اَپ آجائے گا۔
ضرورت مندی ہماری نیتوں کے ڈی این اے میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ فائدہ اٹھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تین ماہ کا اقتدار ہو یا پانچ سال کا‘ ضرورتوں کی دلالی ہمیشہ زوروں پر ہی رہی ہے۔ ایسی منڈی میں گورننس کی باتیں کرنے والے خود تو بیوقوف ہو نہیں سکتے لیکن عوام کو بیوقوف سمجھتے اور بناتے چلے آرہے ہیں۔ اس گورکھ دھندے اور سیاسی سرکس پر مزید بات کرنا روز روز کے ماتم اور رونے دھونے کو دہرانے کے سوا کچھ نہیں۔ حالاتِ پریشاں کل بھی وہی تھے‘ آئندہ بھی مزید اضافوں کے ساتھ جوں کے توں رہیں گے۔ تاہم مجہولِ سیاست ضرورتوں کی منڈی سے بچ کر اس ناسٹلجک موضوع میں پناہ ڈھونڈتے ہیں جو درد مزید بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس جہانِ خراب سے کہیں دور لے جائے گا۔ اس درد میں ایسی کسک ہے کہ خود اذیتی کے نشے میں مبتلا کر دیتی ہے۔ چند گھنٹے پہلے خالد چودھری صاحب کو سپردِ خاک کرکے لوٹا ہوں تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آج پھر تھوڑا سا مر گیا ہوں میں! اُن کا جسدِ خاکی تو قبر میں ہے لیکن تیس برس کی رفاقت کا لاشہ میں کندھے پہ اٹھائے لوٹا ہوں۔ یہ تصور ہی کس قدر دردناک اور جان لیوا ہے کہ خالد چودھری سے اب کبھی نہیں مل سکوں گا۔ ہر روز صبح ایک خوبصورت پینٹنگ اور پُراثر کوٹیشن بھیجنے والے خالد چودھری کا واٹس ایپ میسج بھی نہیں آئے گا۔ مخصوص خوبصورت مسکان لیے چودھری صاحب ہاتھ ملانے کے بجائے ہمیشہ گلے لگا کر ملتے تھے‘ کم و بیش تیس برس کا تعلق بلاتعطل زندہ رہا۔ خالد چودھری سے پہلی ملاقات مرحوم و مغفور مربی عباس اطہر (شاہ جی) کے پاس ہوئی تھی۔ بعد ازاں برادرِ محترم حسن نثار کی زیر ادارت ایک اخبار میں خالد چودھری جوائنٹ ایڈیٹر بنے تو ہم مزید جوائنٹ ہو گئے۔ کئی اداروں میں افسر‘ ماتحت اور سینئر‘ جونیئر ہونے کے باوجود ذاتی تعلق اور انس کو ہمیشہ نہ صرف برتری رہی بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ عمروں میں خاصا فرق ہونے کے باوجود یاری دوستی کا رنگ بھی چڑھتا گیا۔ غالباً بائیس برس قبل چودھری صاحب کی کال آئی کہ یار کہاں ہو؟ میں نے جواباً کہا آپ حکم کریں۔ پوچھنے لگے: گھر آ سکتے ہو؟ میں نے کہا: چائے بنوائیں‘ آ رہا ہوں۔ اُن کے گھر پہنچا تو ایک بچی کو منانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ میں نے پوچھا: بھئی کیا معاملہ ہے؟ خالد چودھری بولے کہ یار یہ چھوٹے بھائی ساحر کی بیٹی مشعل ہے‘ اس کو ایک بندر کا کیوٹ سا بچہ چاہیے۔ میں نے چچا بھتیجی کے درمیان مصالحت کراتے ہوئے مشعل کو ضمانت دی کہ اگلے چند روز میں بندر کا بچہ میں منگوا دوں گا۔ تب جاکر کہیں جنگ بندی ہوئی۔ آج وہ بچی بیرسٹر مشعل بن چکی ہے اور ساحر چودھری کا شمار ریئل اسٹیٹ کے بڑے ٹائیکونز میں ہوتا ہے۔
قارئیں! برادرم رؤف طاہر کے انتقال پر ان سے تعلق اور جدائی کی کیفیات شیئر کرنے کے لیے جو کالم لکھا تھا‘ آج بھی اس کالم سے چند سطریں مستعار لے کر خود پر ٹوٹنے والے عذابوں کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہوں ''ہم اپنے مرنے تک نہ جانے کتنی بار مرتے ہیں۔ قطرہ قطرہ‘ ریزہ ریزہ‘ دھیرے دھیرے اور ٹکڑوں میں نہ جانے کتنی بار۔ یہ چلاچلی کا میلہ ہے‘ ہر کسی کو اپنی باری پر چلے ہی جانا ہے‘ لیکن جب بھی کوئی عزیز‘ کوئی اپنا‘ کوئی پیارا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی موت کے ساتھ ہم بھی تھوڑے سے مر گئے ہیں۔ اُس کی موت کی تلخی کو اپنے اندر یوں محسوس کرتے ہیں گویا چند قطرے موت ہمارے اندر بھی سرایت کر چکی ہے جو ہماری رگوں میں ایسے دندناتی پھرتی ہے گویا وہ لے جانے تو ہمارے کسی پیارے کو آئی تھی‘ لیکن اپنی نشانی ہمارے رگوں میں چھوڑ گئی ہے۔ ہم اس موت کو قطرہ قطرہ محسوس کرتے‘ ریزہ ریزہ بکھرتے اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سالِ نو کے ابھی چند سورج ہی طلوع ہوئے ہیں کہ ابھی سے دل ڈوبنا شروع ہو گیا ہے۔ ابھی تو پورا سال باقی ہے۔ نجانے ابھی کیا کیا دیکھنا اور کیا کیا بھگتنا باقی ہے۔ کبھی بچھڑنے والوں کو روتے ہیں تو کبھی بچھڑنے کے خوف سے روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔ کبھی اپنی موت سے نہیں‘ اپنوں کی موت سے ڈر لگتا تھا۔ اب اپنی موت کا تصور ہی جان سے پیارے پسماندگان کی فکر میں ہلکان کیے رکھتا ہے‘‘۔
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری‘ دوست دیکھتے ہوں گے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا
نیند کو آدھی موت کہا جاتا ہے اور رات کو جب بھی اس آدھی موت کے لیے بستر پر جاتا ہوں تو کبھی بچھڑ جانے والوں کی یادیں اور باتیں تو کبھی اپنوں سے بچھڑنے کا خوف آدھی موت سے تادیر دور کیے رکھتا ہے۔ یہ سبھی کچھ آدھی موت اور اَبدی نیند کی آنکھ مچولی تک یونہی جاری گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved