انبیاء کرام علیہم السلام کارُتبہ جمیع انسانیت میں سب سے زیادہ بلند ہے۔ صاحبِ شریعت رسل اللہ کا مقام انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی بلند ہے اور اولوالعزم رسل اللہ تمام رسولوں میں ایک خاص شان وعظمت رکھتے ہیں۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام نے مثالی زندگی گزاری اور اپنے کرداروعمل سے انسانیت کی درست راستے کی طرف رہنمائی کی۔ نبی کریمﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے خصائص و کمالات سے نوازا۔ آپﷺ کی شخصیت کائنات میں شان وعظمت کے اعتبار سے منفرد حیثیت کی حامل ہے اور کوئی بھی ہستی حضرت رسول اللہﷺ کی شان وعظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی نسبت سے بہت سی دیگر چیزوں کوبھی بلند فرما دیا ہے۔ نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہرات اور آپﷺ کے اہلِ بیت اطہار خصوصی شان وعظمت کے حامل ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو ایسے رفقاء اور ساتھی عطا فرمائے جو وفا شعاری، ایثار اور خلوص کے اعتبار سے جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے رفقاء کے مقابلے میں اعلیٰ اور افضل ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں صحابہ کرامؓ کے مختلف طبقات کا ذکر کیا اور خصوصیت سے ''سابقون الاولون‘‘ کی شان وعظمت کا بیان کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 100میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور سبقت کرنے والے پہلے لوگ مہاجرین اور انصار میں سے اور وہ لوگ جنہوں نے پیروی کی ان کی نیکی کے ساتھ‘ راضی ہوا اللہ ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے۔ اور تیار کیے ہیں اُن کے لیے (اللہ نے ایسے ) باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں (وہ) رہنے والے ہیں ہمیشہ ان میں ابد تک‘ یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔
سابقون الاولون صحابہ کرام نے اپنے کردار وعمل سے ایک نئی تاریخ رقم کی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین پر چلتے ہوئے مختلف طرح کی تکالیف کو انتہائی خندہ پیشانی سے گوارا کیا۔ سرزمین مکہ میں اسلام کو قبول کرنا درحقیقت صعوبتوں اور مشکلات کو دعوت دینے والی بات تھی۔ اعدائے دین اسلام قبول کرنے والوں کو ظلم اور تشدد کا نشانہ بناتے اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی مختلف انداز سے کوششیں کرتے۔ لیکن صحابہ کرامؓپوری استقامت سے تمام تکالیف کو برداشت کرتے رہے۔ انہی نفوس قدسیہ میں سے ایک عظیم ہستی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓکو جو شان اور مقام عطا کیا وہ اسلامی تاریخ ایک سنہرا باب ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مردوں میں سے اسلام قبول کرنے والی پہلی شخصیت ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ وہ مظلوم مسلمان جنہیں اسلام کی دعوت قبول کرنے کے بعد کفار کی مخالفتوں کو سہنا پڑا‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی معاونت کے لیے بھرپور کردار ادا کیا کرتے تھے؛ چنانچہ حضرت بلالؓ پر ہونے والے ظلم کو دیکھتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کے ظالم مالک سے خرید کر آزاد کر دیا۔ اس واقعے کا ذکر حدیث مبارکہ میں کچھ یوں ہے:
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت بلالؓنے حضرت ابوبکرصدیقؓ سے کہا: اگر آپ نے مجھے اپنے لیے خریدا ہے تو پھر اپنے پاس ہی رکھئے اور اگر اللہ کے لیے خریدا ہے تو پھر مجھے آزاد کر دیجئے اور اللہ کے راستے میں عمل کرنے دیجئے؛ چنانچہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ان کو آزاد کر دیا۔
مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کرنے والی عظیم شخصیات ایک عرصہ طویل تک کفار کے ظلم وستم کا نشانہ بنتی رہیں۔ بالآخر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو سرزمین مکہ کو چھوڑ کرحبشہ اور پھر مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ مسلمان وقفے وقفے سے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوتے رہے۔ بالآخر اللہ نے اپنے آخری رسولﷺ کو بھی ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ اس سفر میں حضرت ابوبکرصدیقؓ آپﷺکے ہم رکاب تھے۔ حضرت رسول اللہﷺ صدیق اکبرؓ کے گھر تشریف لائے اور آپؓ کی ہمراہی میں سفرِ ہجرت کو اختیار کیا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ایسے دن (مکی زندگی میں) بہت ہی کم آئے، جن میں نبی کریمﷺ صبح و شام میں کسی نہ کسی وقت حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ پھر جب آپﷺکو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی گئی تو ہماری گھبراہٹ کا سبب یہ ہوا کہ آپﷺ (معمول کے خلاف اچانک) ظہر کے وقت ہمارے گھر تشریف لائے۔ جب حضرت ابوبکرؓ کو آپﷺ کی آمد کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریمﷺ اس وقت ہمارے یہاں کوئی نئی بات پیش آنے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔ جب آپﷺ حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے تو آپﷺنے فرمایا کہ اس وقت جو لوگ تمہارے پاس ہوں انہیں ہٹا دو۔ حضرت ابوبکرؓنے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! یہاں تو صرف میری یہی دو بیٹیاں ہیں یعنی عائشہ اور اسماء رضی اللہ عنہما ہیں۔ آپﷺنے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے‘ مجھے یہاں سے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکرؓنے عرض کیا: میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں جنہیں میں نے نکلنے ہی کے لیے تیار کر رکھا تھا‘ آپ ان میں سے ایک لے لیجئے۔ آپﷺنے فرمایا کہ اچھا! قیمت کے بدلے میں نے ایک اونٹنی لے لی۔
سفرِ ہجرت یقینا ایک مشکل سفر تھا اور اس سفر میں رسول اللہﷺ کی رفاقت کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب یقینا ان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ آپؓنے رفیقِ سفر ہونے کا کچھ اس انداز میں حق ادا کیا کہ آپؓ کی رفاقت ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔ غارِ ثور کی تنہائیوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اس بات کی انتہائی فکر تھی کہ رسول اکرمﷺ کی جان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔ نبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اس موقع پرتسلی دی اور ارشاد فرمایا: غم نہ کرو اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اس واقعے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعد ازاں نہایت خوبصورت انداز میں قرآنِ مجید کا حصہ بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 40 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اگر نہ تم مدد کرو گے اس کی تو یقینا مدد کر چکا ہے اس کی اللہ‘ جب نکا ل دیا تھا اُسے (اُن لوگوں نے) جنہوں نے کفر کیا، وہ دوسرا تھا دو میں سے‘ جب وہ دونوں تھے غار میں (اور) جب وہ کہہ رہا تھا اپنے ساتھی سے: تو غم نہ کر بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر نازل کی اللہ نے اپنی سکینت اُس پر اور قوت دی اُسے (اپنے) لشکروں سے (کہ) نہیں دیکھا تم نے اُنہیں اور کر دی بات (اُن لوگوں کی) جنہوں نے کفر کیا‘ نیچی اور اللہ کی بات ہی سب سے بلند ہے اور اللہ خوب غالب بہت حکمت والا ہے‘‘۔
مدینہ طیبہ پہنچ جانا یقینا مسلمانوں کے لیے بہت بڑی خوشخبری تھی لیکن کفار نے مدینہ طیبہ میں بھی مسلمانوں کا تعاقب کیا اور اُن پر جنگوں کو مسلط کیا۔ ان جنگوں میں نبی کریمﷺ کے دیگر صحابہ کے ساتھ ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی شامل رہے اور جب بھی اسلام کو مال کی ضرورت پڑی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کھل کر اپنا مال اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا۔ جیش عسرہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے جمیع سازوسامان کو بارگاہِ رسالت مآبﷺمیں پیش کیا اور اس بات کو ثابت کر دیا کہ صدیقؓ کو کائنات کی ہر چیز سے زیادہ مقدم اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی نورِنظر حضرت عائشہ صدیقہؓ کو حضرت رسول اللہﷺ کے حرم مبارک میں داخل فرما کر اپنی بے پناہ عقیدت اور محبت کو واضح فرما دیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ ان دس صحابہ کرام میں شامل ہیں‘ ایک ہی مجلس میں جن کا نام لے کر نبی کریمﷺ نے اُن کو جنت کی بشارت دی۔ سنن ترمذی میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں، عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں، زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں، سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں، سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں۔
رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد اُمت کے معاملات کی نگرانی کا شرف حضرت ابوبکرصدیقؓ کو حاصل ہوا اور آپؓ نے نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد اٹھ کھڑے ہونے والے بہت سے بحرانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مانعین زکوٰۃ اور اسلام سے منحرف ہونے والے مرتد گروہوں کا بھرپور انداز میں تعاقب کیا۔ جھوٹی نبوت کے دعویدار وـ ں کا کڑے طریقے سے احتساب کیا۔ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی تمام تر توانائیوں اور وسائل کو مجتمع کیے رکھا اور تاریخ کو اپنے کردار سے روشن فرما دیا۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مختصر دورِ خلافت کے بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور آپؓ کو یہ شان وعظمت حاصل ہوئی کہ نبی کریمﷺ کے پہلو مبارک میں دفن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور آپؓ کی محبت ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔ زندگی کی رفاقت کے ساتھ ساتھ دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد رسول اللہﷺ کی ہمسائیگی کا شرف یقینا حضرت صدیق اکبرؓ کی عظمت کو واضح کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اسلام کے لیے قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں آپؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved