تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-09-2013

راما جھیل کی خوبصورتی اور ترقیِ معکوس

عام ڈبل روٹی کے سلائسز سے دوگنا موٹے سلائسز والی دیسی قسم کی میڈ اِن استور ڈبل روٹی اتنی مزیدار تھی کہ اسد نے معمول سے زیادہ سلائس کھائے۔ یہی حال باقی بچوں کا تھا حتیٰ کہ ڈبل روٹی کم پڑ گئی۔ بیکری نیچے شہر میں تھی اور ڈبل روٹی لانے کا وقت ہمارے پاس نہیں تھا۔ اسد نے باورچی سے فرمائش کی کہ کل بھی ایسی ہی ڈبل روٹی لانی ہے‘ پھر اپنے ماموں کو کہنے لگا کل ایک ڈبل روٹی فالتو منگوائیں۔ آج راما گائوں اور جھیل جانے کا پروگرام تھا۔ سکیورٹی کی صورتحال کے باعث ٹورسٹ معمول سے کہیں کم تھے۔ مقامی معیشت میں باہر سے آنے والے غیر ملکی اور اندرونِ ملک سے آنے والے سیاحوں کا بڑا رول ہے۔ استور میں یہ مندے کا سیزن تھا۔ دورانِ سفر سب سے مشکل مرحلہ صبح بچوں کو اٹھانا تھا۔ پُرمشقت اور انتہائی غیر آرام دہ سفر اور پیدل چڑھائیوں سے تھکے ہوئے بچوں کا عجب معمول تھا کہ وہ واپس آ کر جلد سونے کے بجائے لُڈو کھیلنے میں لگ جاتے تھے اور رات دیر سے سوتے تھے۔ تھکاوٹ کے باعث صبح آنکھ کھلنا ویسے بھی مشکل تھا کجا کہ سوئے بھی دیر سے ہوں۔ پرویز صبح سویرے اپنی کھٹارہ لینڈ کروزر لیکر آچکا تھا۔ باہر سے پیپا نظرآنے والی اس متروک ماڈل کی لینڈ کروزر کا انجن غیر معمولی طور پر فِٹ حالت میں تھا۔ گمان غالب ہے کہ یہ اس گاڑی میں دسواں یا گیارہواں انجن ہوگا۔ بریکیں وغیرہ بھی زبردست تھیں۔ پہاڑی سفر میں یہی کچھ درکار تھا۔ راما تک کا سفر مسلسل چڑھائی پر مشتمل تھا۔ اسسٹنٹ کمشنر استور نے بتایا کہ راما تک کا سفر ایک گھنٹہ اور آگے جھیل تک مزید آدھ گھنٹے کا ہوگا۔ اس طرح کل سفر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا بنتا تھا مگر جب سفر شروع ہوا تو پتہ چلا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ تنگ سڑک پر مسلسل چڑھائی تھی اور سڑک کے نام پر ایک تہمت قسم کا راستہ تھا۔ جھیل سطح سمندر سے دو ہزار چھ سو میٹر بلند یعنی تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔ راستہ دشوار اورکٹھن تھا مگر خوبصورتی نے دشواری کا ا حساس بالکل ختم کردیا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں ہم راما گائوں کے پاس سے گزرے اور تھوڑی دیر بعد ہم ایک چھوٹے سے میدان میں پہنچ گئے۔ یہاں ایک چھوٹا سا قطعہ چیڑ کے درختوں کا تھا۔ ایک طرف پی ٹی ڈی سی کا خوبصورت موٹل تھا۔ سامنے پی ڈبلیو ڈی گلگت بلتستان کا ریسٹ ہائوس تھا اور ساتھ ہی محکمہ جنگلات کا چھوٹا سا ریسٹ ہائوس تھا۔ آگے تھوڑا سا راستہ میدانی تھا۔ پھر اوپر گلیشئر سے آتا ہوا ایک پہاڑی نالہ تھا جس کو عبور کرتے ہی پرویز نے گاڑی روکی۔ نیچے اترکر اس کے اگلے ٹائروں کو چیک کیا۔ پلاس نکال کر اگلے ٹائروں کے ایکسل میں لگا ہوا فور وہیلز کا لیور تبدیل کیا اور دوبارہ سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔ آگے ایسی چڑھائی تھی جس سے ہمیں اب تک پالا نہیں پڑا تھا۔ سڑک کی چوڑائی جیپ کے ٹائروں سے شاید ایک ڈیڑھ فٹ زیادہ تھی۔ تاہم کہیں کہیں اس سے بھی کم تھی۔ ہم سوچ رہے تھے کہ اگر سامنے سے کوئی گاڑی آگئی تو کراسنگ کیسے ہوگی؟ سڑک نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ بس پتھر کاٹ کر راستہ بنایا گیا تھا اور پتھر کاٹنے والوں نے سڑک کی سطح سیدھی کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی تھی۔ دو تین مقامات توایسے تھے کہ گاڑی کو ریورس کیے بغیر موڑنا ممکن نہیں تھا۔ میری منجھلی بیٹی کی نظر مسلسل نیچے ٹائروں پر تھی۔ واپسی پر اس نے بتایا کہ کئی دفعہ ایساہوا کہ آدھا ٹائر ہوا میں تھا اور آدھا سڑک پر تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ تم کوتو دیکھ کر پتہ چلا ہے مجھے دیکھے بغیر پتہ تھا کہ کہاں ٹائر ہوا میں موڑ کاٹ کر دوبارہ سڑک پر آیا ہے۔ راستہ زیادہ نہیں تھا مگر سفر کی نوعیت ایسی تھی کہ وقت زیادہ لگ گیا لیکن اس سے بھی مزے کی بات یہ تھی کہ یہ راستہ پُرخطر ہونے کے باعث ویسے بھی طویل لگ رہا تھا اور وقت کی رفتار سست ہوگئی تھی۔ جھیل سے تھوڑا پہلے ا یک گلیشیئر تھا جس سے پہاڑی نالہ نکل رہا تھا۔ گلیشیئر کے عین سامنے ایک نہایت ہی خوبصورت رنگ کا تالاب تھا۔ میں نے اپنی چھوٹی بیٹی سے جو فائن آرٹس کی طالبہ ہے اس رنگ کا نام کا پوچھا۔ وہ بولی یہ Turqouise کلر ہے۔ میں نے پوچھا‘ اسے اردو میں کیا کہتے ہیں۔ کہنے لگی‘ میں نے انگریزی میں پڑھا ہے اسی میں بتا رہی ہوں‘ اردو کا مجھے پتہ نہیں۔ اس چھوٹے تالاب کی خوبصورتی کو نہ تو لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی منظر کشی کی جاسکتی ہے۔ جو تصویریں اس تالاب کی دو تین مختلف رُخوں سے کھینچی گئی تھیں وہ حقیقت سے کوسوں دور تھیں۔ قدرت کے بے شمار مناظر ایسے ہیں کہ صرف انسانی آنکھ سے ہی محسوس کیے جاسکتے ہں۔ دنیا کا کوئی کیمرہ اس کی من و عن تصویر کشی نہیں کرسکتا۔ ایک موڑ کاٹ کر دائیں ہوئے تو سامنے راما جھیل تھی۔ یہ ایک مسحور کر دینے والا منظر تھا۔ بیضوی شکل کی نیلی جھیل ایک پیالے کی صورت میں ہمارے سامنے تھی۔ پیچھے برف پوش پہاڑ تھے۔ ہوا سے چھوٹی چھوٹی لہریں پیدا ہورہی تھیں اور سورج کی روشنی میں یہ لہریں جھلمل جھلمل کررہی تھیں۔ جھیل کا رنگ کناروں پر فیروزی تھا۔ درمیان میں گہرا نیلا تھا اور آخری سرے پر پہاڑوں کے ساتھ سبز تھا۔ میں بے شمار جھیلیں دیکھ چکا ہوں۔ برطانیہ کے مشہور و معروف لیک ڈسٹرکٹ کی ونڈر میئر، گراس میئر، بٹر میئر، تھرل میئر اور کئی دیگر چھوٹی چھوٹی جھیلیں پاکستان میں سیف الملوک، دودی پت سر، کلرکہار، کھبیکی، اچھالی، کنڈول، اپرکچورا، لوئر کچورا، لولوسر، مہوڈنڈ، نمل، رش، ستپارہ، شندور، شیوسار اور بنجوسہ جھیل۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام جھیلیں خوبصورتی میں راما جھیل کے سامنے ہیچ تھیں۔ درج بالا جھیلوں میں بہت سی جھیلیں اس سے صرف بڑی ہی نہیں بہت بڑی ہیں۔ مثلاً ونڈسر میئر کا دوسرا سرانظر نہیں آیا۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر جانے کے لیے سٹیمر چلتا ہے اورگھنٹہ لگ جاتا ہے مگر خوبصورتی ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ راما جھیل ایک چھوٹی سی جھیل ہے۔ ستپارہ، اپرکچورا ا ور شیوسار سے بھی چھوٹی لیکن خوبصورت ایسی کہ ایک بار دیکھیں تو سکتہ سا طاری ہوجاتا ہے۔ جھیل پر وقت تھم سا گیا تھا۔ ہمیں وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ اور دن ڈھلنا شروع ہوگیا۔ اس دوران چھوٹے بچوں نے آپس میں کوئی شرط لگائی اور دور پہاڑ کی جڑ میں ایک چھوٹے سے گلیشیئر کو ہاتھ لگانے کے لیے چل پڑے۔ شروع میں اسد، ماہ رخ، رامین اور فاطمہ اکٹھے چلے مگر تھوڑی دور بعد اسد ایک طرف سے اوپر چڑھنا شروع ہو گیا اور ماہ رخ دوسری طرف سے۔ رامین اور فاطمہ درمیان سے اوپر جانا شروع ہوگئیں۔ پہاڑوں پرسورج یکدم غروب ہوجاتا ہے۔ لمحوں میں اندھیرا چھانا شروع ہوگیا اور چشم زدن میں بچے نظر آنا بند ہوگئے۔ کامران بچوں کو لینے چل پڑا۔ اسی دوران اس نے بچوں کو آوازیں دینا شروع کردیں۔ پہاڑ کے دامن میں گونجتی ہوئی اس کی آواز بچوں تک پہنچی تو وہ واپس پلٹ پڑے۔ جھیل کنارے جلتی ہوئی آگ رہنمائی کررہی تھی۔ تھوڑی دیر میںبچے واپس آگئے مگر کامران کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ اب ایک نئی پریشانی شروع ہوگئی۔ پہلے ہمارا گائیڈ علی روانہ ہوا پھر تھوڑی دیر بعد پرویز ڈرائیور بھی روانہ ہوگیا۔ اس دوران سارا اپنے موبائل فون کی ٹارچ سے سگنل دینے لگ گئی۔ پہلے پرویز واپس آیا پھر علی اور آخر میں کامران واپس آیا۔ کامران سگنل دیکھ کر واپس آیا‘ وگرنہ وہ تب تک واپس نہ آتا جب تک بچے اسے نہ ملتے اور بچے واپس آچکے تھے۔ کامران کے آتے ہی جان میں جان آئی۔ واپسی کا سفر زیادہ مشکل تھا کہ رات بھیگ چکی تھی مگر راما جھیل کی خوبصورتی نے راستے کی دشواری بھی بھلا دی تھی۔ اگر سکیورٹی کے خلاف اور دیگر انفراسٹرکچر بہتر کر دیا جائے اور ٹوارزم کولگن اور خلوص کے ساتھ پروموٹ کیا جائے تویہ ایک بہت بڑی زرمبادلہ کمانے والی انڈسٹری بن سکتی ہے مگر اس میں بہت سارے ’’اگر‘‘ آتے ہیں اور ہمارے ہاں جہاں ایک اگر آجائے تو وہاں سمجھو کہ فل سٹاپ آگیا ہے۔ اگر اتنی خوبصورتی کہیں اور ہوتی تو وہاں سیاحت سے کروڑوں اربوں کمائے جا سکتے تھے مگر ہمارے ہاں حالات ترقی کی طرف گامزن تو ہیں مگر یہ ترقی دراصل ’’ترقیِ معکوس‘‘ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved