تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     18-01-2023

ہاکی بھی اِک کھیل تھا

ہاکی کا ورلڈ کپ 2023ء پوری شان و شوکت سے جاری ہے۔ یہ میگا ہاکی ایونٹ بھارتی ریاست ادیشا (اُڑیسہ) میں کھیلا جارہا ہے جس میں سولہ ٹیمیں شریک ہیں۔ ہمارے ہاں شاید بیشتر افراد کو یہ علم ہی نہیں کہ ہاکی کا ورلڈ کپ ہمارے ہمسایہ ملک میں کھیلا جارہا ہے۔ شاید اِس لیے بھی کہ ایک مرتبہ پھر ہماری ٹیم یہ ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیے کوالیفائی نہیں کرسکی۔ وہ ٹیم‘ جس نے 1960ء میں روم اولمپکس میں ہاکی میں گولڈ میڈل جیت کر دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی تھی اور اُس کے بعد مزید دو مرتبہ اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا‘ جو چار مرتبہ ہاکی کا ورلڈ کپ جیت چکی ہے‘ تین مرتبہ چیمپئنز ٹرافی، متعدد مرتبہ ایشیا ئی چیمپئن شپ اور کئی دیگر عالمی ٹورنامنٹس جیت چکی ہے‘ وہ ہاکی ٹیم اِس مرتبہ ورلڈ کپ کے مقابلوں کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کر سکی۔ ملکی معیشت کی طرح اب ہمارا قومی کھیل بھی وینٹی لیٹر پر منتقل ہوچکا ہے۔ وہ زمانے لد چکے جب منیر ڈار، رشید جونیئر، منظور سینئر، سلیم شیروانی، سلیم اللہ، کلیم اللہ، صلاح الدین، اختر رسول اور اِنہی کی طرح کے مایہ ناز کھلاڑی قومی ٹیم کاحصہ ہوا کرتے تھے۔ ایک ایسی شاندار ٹیم‘ جس کے میدان میں اُترنے سے پہلے یہ طے ہوچکا ہوتا تھاکہ یہ ٹیم میدان سے کامیاب و کامران لوٹے گی۔ پھر یوں ہوا کہ 1994ء میں آخری مرتبہ ہاکی کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی کارکردگی مسلسل خراب ہوتی چلی گئی۔ اِس کے باوجود اُمید تھی کہ یہ جو براوقت ہے‘ ان شاء اللہ جلد گزر جائے گا لیکن اب تو تمام اُمیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ جن ممالک کی ٹیموں کو ہمارے ہاکی ماہرین نے اِس کھیل کے اَسرارورموز سکھائے تھے‘ آج وہی ممالک اور انہی کی ٹیمیں دنیائے ہاکی پر حکمرانی کررہی ہیں اور ہم بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔
1994ء میں ہاکی کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان شہباز سینئر سے ایک بار ہماری ملاقات ہوئی تو وہ اِس صورتِ حال پر خاصے دل گرفتہ دکھائی دیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہاکی کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ہمارے ملک میں ہاکی کا کھیل فروغ پاتا لیکن بدقسمتی سے یہ کھیل مسلسل تنزلی کا شکار ہونے لگا۔ اُن کے نزدیک اِس کھیل کی تنزلی کا عمل نوے کی دہائی کے ابتدا میں شروع ہوگیا تھا جب ہاکی فیڈریشن کے حکام کے لیے کھیل سے زیادہ اپنی کرسیاں بچانا اہم ہوگیا تھا۔ جب حکومتوں نے قابلیت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنے پسندیدہ افراد کو فیڈریشن میں عہدے دینا شروع کیے تھے اور یہ انہی پالیسیوں کا خمیازہ ہے جو آج ہمار قومی کھیل بھگت رہا ہے۔ کئی احباب اِس صورتِ حال کی بڑی وجہ آسٹروٹرف متعارف کرائے جانے کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک آسٹروٹرف پر چونکہ زیادہ جسمانی فٹنس درکار ہوتی ہے اور ایشیائی کھلاڑی اِس حوالے سے یورپی کھلاڑیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘ لہٰذا اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپی ممالک کی ٹیمیں بتدریج اپنے کھیل میںبہتری لاتی گئیں اور ایشیائی ٹیمیں تنزلی کا شکار ہوتی گئیں۔ دیکھا جائے تو یہ استدلال زیادہ قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا بہرطور ہم پر لازم تھا اور ہم اپنی یہ ذمہ داری ادا نہ کرسکے۔
اگرچہ اِس دوران اندرونِ ملک ہاکی میں بہتری لانے کے دعوے بھی ہوتے رہے لیکن مسلسل بگڑتی ہوئی صورتِ حال میں ذرہ برابر بھی سدھارنہ آ سکا۔ دیکھا جائے تو اِس میں حکومتیں، ہاکی فیڈریشن اور کئی صورتوں میں خود کھلاڑی بھی ذمہ دار قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ہاکی ٹیم کے کئی اہم کھلاڑیوں کے بارے میںیہ باتیں سامنے آتی رہی ہیں کہ اُن کے غیرپیشہ ورانہ رویوں نے ہاکی کے کھیل کو شدید نقصان پہنچایا۔ یوں بھی ہوا کہ بیشتر مواقع پر ہاکی فیڈریشن کے کرتا دھرتاؤں کا تعلق اُس قبیل سے رہا جن سے کوئی سوال کرنا 'جرم‘ سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کئی مواقع پر ہمیں خود بھی ایسے حکام کی پریس کانفرنسز میں شرکت کا موقع ملا۔ اُن کے بولنے کا انداز اور باڈی لینگویج ہی ایسی تھی کہ خبردار! آپ نے صرف ہماری باتیں سننی ہیں‘ کوئی غلط سلط سوال کیا تو صورتحال کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ اُن کے ایسے رویوں نے خامیوں کو اُجاگر کرنے کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں پیدا کیں۔ یہ اسی کانتیجہ تھا کہ سوالات کرنے والے اکثرخاموشی سے پریس کانفرنسز سنتے اور پھر بڑ بڑ کرتے واپس چلے آتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فیڈریشن میں پائی جانے والی خامیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سچ بولنے کی پاداش میں کئی کھلاڑی بھی دباؤ کا شکار ہوئے اور پھر ہوتے ہوتے ہمارا قومی کھیل اور اِس میں ہماری ٹیم کی شاندار کارکردگی قصہ پارینہ بنتی چلی گئی۔
ہم میں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کا مادہ سرے سے موجودہی نہیں۔ آپ آج بھی فیڈریشن کے ماضی کے عہدیداروں یا موجودہ حکام سے گفتگو کرکے دیکھ لیں۔ وہ سبھی ہاکی کی زبوں حالی کا ملبہ دوسروں پر ڈالیں گے۔ مجال ہے کہ کوئی ایک بھی یہ تسلیم کرلے کہ اِس میں اُس کابھی حصہ رہا ہے۔ اِس تنزل میں وہ حکام سرفہرست ہیں جو پیراشوٹس کے ذریعے فیڈریشن میں اہم عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ قصوروار وہ بھی کم نہیں جو ہاکی کے میدانوں سے ہوتے ہوئے اِن عہدوں تک پہنچے تھے۔ یہ صورتحال صرف ہاکی فیڈریشن ہی کی نہیں بلکہ ملک میں کھیلوں کی دیگر فیڈریشنز کا بھی یہی حال ہے۔ آج سوائے کرکٹ کے‘ اور کون سا کھیل باقی بچا ہے جس میں ہماری قومی ٹیم کوئی اہمیت رکھتی ہے؟ ایک زمانہ تھا کہ سکواش کی دنیامیں ہمارا ڈنکا بجتا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی اور ایسے ایسے کارنامے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ کہاں ہیں آج جہانگیر خان، جان شیرخان اور اِن سے پہلے روشن خان جیسے کھلاڑی۔ آج دنیا ئے سکواش میں شاید ہی کوئی نمایاں پاکستانی کھلاڑی بچا ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سوائے کرکٹ کے‘ تمام کے تمام کھیل زبوں حالی کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہاکی کی طرح دیگر سپورٹس فیڈریشنز میں بھی اکثر اوقات ایسے احباب اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں جن کو سوالات سننے کی زیادہ عادت نہیں ہوتی۔ ماضی کی بات کیا کرنی‘ اب بھی مختلف فیڈریشنز کے حکام میں ایسے افراد کی طویل فہرست ہے۔ کس کی مجال ہے کہ اِن سے یہ سوال پوچھ سکے کہ آپ یہ بھاری معاوضے اور مراعات کن خدمات کے عوض وصول کررہے ہیں؟
مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں کھیلوں کی مختلف فیڈریشنز کی وہی صورتحال ہے جو ملک کی مجموعی صورتحال ہے۔ ایسے ہی حالات کا سامنا پاکستان ہاکی فیڈریشن کر رہی ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہماری ہاکی ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے کے بجائے سائیڈ لائن پر بیٹھی ہے۔ یہ صورتحال ایسے ہی ہے جیسے فٹ بال کا ورلڈ کپ ہو اور اُس میں برازیل، ارجنٹائن، فرانس یا جرمنی کی ٹیمیں شریک نہ ہوں۔ بدقسمی سے ایسا ہوچکا ہے! اب ہم اُس وقت کو غنیمت جان رہے ہیں کہ جب پاکستان کی ہاکی ٹیم سبھی میچز ہار کر وطن واپس لوٹتی تھی۔ کم از کم وہ اِس لائق تو تھی کہ ٹورنامنٹس میں حصہ لینے کے قابل سمجھی جاتی تھی۔ آج تو ہم اِس قابل بھی نہ رہے۔ ہمارے نصیب میں جیسے اب رونا دھونا ہی باقی رہ گیا ہے، چاہے وہ معیشت کا معاملہ ہو یا پھر کھیلوں کا‘ خصوصاً ہاکی کا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہاکی کو ہم اپنا قومی کھیل قرار دیتے ہیں لیکن اپنے کھوئے ہوئے فخر کو دوبارہ حاصل کرنے میں بالکل بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ 29جنوری تک آپ ہاکی کی ٹیموں کو اپنے پڑوسی ملک میں ورلڈ کپ کھیلتے ہوئے دیکھیں اور ساتھ ہی اپنے ملک کی ہاکی کے لیے دعائے خیر بھی کریں کہ اب صرف دعاؤں کا سہارا ہی باقی رہ گیا ہے۔ جیسے ہم دن رات ملکی حالات میں بہتری کی دعائیں کررہے ہیں‘ ویسے ہی ہاکی کی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کی بحالی کی بھی دعا کیجئے۔ جیت نہ سہی‘ کاش وہی وقت لوٹ آئے جب ہماری قومی ٹیم کم از کم ان ٹورنامنٹس میں شرکت کیا کرتی تھی۔ اربابِ اختیار کو بھی چاہیے کہ ذرا سوچیں! آخر ہم کرنا کیا چاہتے ہیں؟ کیا عہدے اور پیسہ ہی ہمارے لیے سب سے بڑا مقصد بن چکے ہیں؟ کیا ہمیں اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کس طرح کا ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved