آج کی دنیا میں تفاعل بہت تیز ہے۔ تفاعل یعنی کسی بھی حوالے سے پائے جانے والے افعال کا ایک دوسرے سے ملاپ یا تصادم۔ کسی بھی عمل کا ردِعمل سامنے آتے بھی دیر نہیں لگتی۔ انٹرنیٹ نے دنیا کو سکیڑ دیا ہے۔ کل تک جو دنیا تھی وہ اب ایک بڑے شہر کا درجہ رکھتی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت تسلیم کرتے ہی بنتی ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک‘ شہر یا معاشرہ الگ تھلگ نہیں۔ سب کا مفاد بھی ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور معاشرت بھی ایک دوسرے کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ ہم اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ آئیڈیاز کے دور میں بھی جی رہے ہیں۔ آج ہر طرف آئیڈیاز کی بہار ہے۔ ہر شعبے میں نئے تصورات ابھر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ندرت اور جدت کی سطح پر ہو رہا ہے۔ اب کچھ نیا تو ایجاد نہیں ہو رہا تاہم جو کچھ ایجاد ہوچکا اور ہماری زندگی کا حصہ ہے اُسے بہتر بنانے کی تگ و دَو جاری ہے اور جاری ہی رہے گی۔ یہ مشق دنیا کو تنوع سے بھر رہی ہے۔ آج کم و بیش ہر معاملے میں اس قدر تنوع ہے کہ انسان دیکھ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ ویسے اب کسی بھی معاملے میں حیران ہونے کی کچھ زیادہ گنجائش رہی نہیں۔
انٹرنیٹ کی بدولت اب آئیڈیاز کی اشاعت بھی ممکن ہے اور تبادلہ بھی۔ ہر شعبے میں ایسا بہت کچھ بنایا جارہا ہے جو نئے آئیڈیاز کی مرہونِ منت ہے۔ یہ آئیڈیاز تیزی سے ابھرتے ہیں اور کوئی نہ کوئی شکل پاکر دنیا کے سامنے آجاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود مواد کی مدد سے دنیا بھر میں سوچا جارہا ہے اس لیے آئیڈیاز کی بھرمار ہے۔ لوگ پائیدار بنیاد پر سوچیں یا نہ سوچیں، فوری بنیاد پر تو سوچ ہی رہے ہیں اور جو کچھ ذہن کے پردے پر نمودار ہو رہا ہے وہ کوئی نہ کوئی فوری شکل پاکر سامنے بھی آرہا ہے۔ ہر وقت دنیا بھر میں کروڑوں افراد کچھ نہ کچھ سوچ ہی رہے ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پورٹلز کے ذریعے اپنی بات دنیا کے سامنے رکھتے ہیں۔ زمانے کی (اور بالخصوص انٹرنیٹ کی) تیز رفتاری بلکہ برق رفتاری اس بات کی متقاضی ہے کہ جو کچھ سوچا جائے اُسے اپنی ذات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ تیزی سے پھیلایا جائے۔ ایک زمانہ تھا کہ آئیڈیاز کو بچاکر رکھا جاتا تھا۔ تب سوچنے کی رفتار بھی کم تھی اور خیالات کی اشاعت کی بھی زیادہ گنجائش نہ تھی۔ کوئی بھی چیز اُس وقت بہت سوں تک پہنچ پاتی تھی جب اُسے طباعت کے مرحلے سے گزارا جاتا تھا۔ آج معاملہ بہت مختلف ہے۔ اب اخبارات و جرائد کے علاوہ ویب سائٹس بھی ہیں اور بلاگز بھی۔ اگر کسی مستند ویب سائٹ پر کچھ شائع کرنے کا موقع نہ ملے تو کوئی بات نہیں‘ انسان اپنے خیالات کو خود بھی دنیا کے سامنے رکھ سکتا ہے۔ اپنی ویب سائٹ بنائی جاسکتی ہے اور کسی ویب سائٹ یا بلاگ کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے۔ اِسی کا نام ڈیسک ٹاپ پبلشنگ ہے۔ اب کسی بھی خیال کو پھیلتے دیر نہیں لگتی۔ کوئی بھی جو کچھ سوچتا ہے وہ کسی بھی معروف سوشل میڈیا پورٹل کے ذریعے بہت تیزی سے لاکھوں‘ کروڑوں افراد تک پہنچا سکتا ہے۔
آئیڈیاز کی بھرمار نے اب ناگزیر کردیا ہے کہ جو کچھ بھی سوچا جائے اُسے بہت تیزی سے اور بروقت منظرِ عام پر لایا جائے۔ اس معاملے میں تاخیر انسان کو بعد میں پچھتانے کا وقت بھی نہیں دیتی۔ سوچنے اور لکھنے والوں کی دنیا اب کسی خیال کو زیادہ دیر چھپائے رکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ دنیا بھر میں جو کچھ لکھا جارہا ہے اُسے پڑھنے والے بھی کروڑوں میں ہیں۔ لکھنے والے اب بہت تیزی سے سوچتے ہیں۔ سوچنے کی رفتار نئے آئیڈیاز کو بھی تیزی سے سامنے لارہی ہے۔ اب کسی بھی خیال کو تادیر اپنے پاس رکھنے کی گنجائش اس لیے نہیں رہی کہ وہی بات کسی اور کے ذہن میں بھی آسکتی ہے اور وہ اُسے چابک دستی سے بروقت پیش کرکے بھرپور داد پاسکتا ہے۔ آج فکشن کی دنیا بھی بہت بدل چکی ہے۔ فکشن یعنی تصوراتی تحریر۔ بیشتر فکشن رائٹرز حقیقی زندگی ہی سے کردار اور واقعات لے کر کہانی ترتیب دیتے ہیں اور پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ خالص فکشن اب مفقود ہے۔ حقیقی زندگی ہی سے واقعات اور کردار لے کر کہانی ترتیب دی جائے تو زیادہ مقبولیت پاتی ہے۔ ایک زمانہ ماہناموں کا تھا۔ تب بڑے حجم کے جریدے بھی ہوا کرتے تھے اور چھوٹے حجم کے ڈائجسٹ بھی۔ ہفت روزہ جرائد اور اخبارات کے ہفتہ وار ایڈیشنز میں بھی کہانیاں اور ناول شائع ہوا کرتے تھے۔ تب مختصر کہانی کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ ناول پڑھنے کا رجحان قوی تھا۔ کہانیاں پڑھنے والے بھی کم نہ تھے؛ تاہم ایک ڈیڑھ صفحے کی کہانی کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ اِتنی مختصر سی تحریر میں کہانی کا حق ادا نہیں ہو پاتا تھا۔ کسی ایک پوائنٹ کو بنیاد بناکر چونکانے والی چھوٹی سی کہانی لکھنے کا فیشن انگریزی ادب سے آیا ہے۔ ایسی کہانیاں فوری کھپت کا مال ہیں یعنی پڑھیے اور تھوڑا سا لطف پانے کے بعد بھول جائیے۔
آج فکشن کا معاملہ بھی بہت بدل گیا ہے۔ فکشن اب فلم اور ڈرامے کی شکل میں بھی بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور کروڑوں ناظرین کے دلوں میں جا گزیں ہو جاتا ہے۔ ناولوں کا زمانہ بہت حد تک جاچکا ہے۔ چند ایک ممالک اور ہمارے ہاں بھی چند ایک علاقوں میں ناول پڑھنے کا چسکا رہ گیا ہے۔ ایک نشست میں ختم ہو جانے والی کہانیوں کی بھرمار ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تو مائیکرو فکشن بھی عام ہے یعنی ایسی چھوٹی سی کہانی جو چائے یا کافی کے وقفے میں بھی آسانی سے پوری پڑھی جاسکے۔ تین چار سو الفاظ کی کہانی میں کوئی بھی مصنف کیا بیان کرسکتا ہے اِس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ آئیڈیاز اب اِتنی تیزی سے پھیلتے ہیں کہ کسی کے ذہن میں کوئی نیا آئیڈیا ابھرا ہے تو لازم ہے کہ اُسے نوک پلک سنوار کر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں دیر نہ لگائی جائے۔ اگر تھوڑی سی بھی دیر ہو جائے تو وہی آئیڈیا کوئی اور پیش کردے گا کیونکہ بہت کچھ پڑھنے، دیکھنے اور سُننے کے بعد دنیا بھر میں لاکھوں افراد سوچنے پر مائل ہوتے ہیں۔ اب کوئی بھی آئیڈیا کسی کے بھی ذہن میں پروان چڑھ سکتا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ کسی بھی خیال کو بلا جواز طور پر زیادہ دیر تک محفوظ یا الگ تھلگ نہ رکھا جائے بلکہ کسی نہ کسی شکل میں دنیا کو سامنے رکھ دیا جائے۔
سرِدست لکھ مارنے کا رجحان عام ہے، اچھا لکھنے کا رجحان جب آئے گا تب آئے گا۔ لوگ لکھنے بلکہ لکھتے رہنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ معیاری تحریر بہت تلاش کرنے پر ملتی ہے۔ سوشل میڈیا پر پایا جانے والا مواد اُتھلے پانیوں جیسا ہے۔ اُس میں گہرائی ہے نہ گیرائی۔ وقتی تاثر قائم کرنے والی یہ تحریریں دیکھتے ہی دیکھتے ذہن کے پردے سے غائب ہو جاتی ہیں۔ ایک مسئلہ تو مواد کی بہتات کا ہے۔ بہتات میں معیار کہاں سے ہوگا؟ اضافی مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بھی معیار کی فکر نہیں کرتے۔ وہ صرف پڑھتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ صرف پڑھنا کافی نہیں ہوتا، معیاری مطالعہ ہی کسی کام کا ہوتا ہے۔ آئیڈیاز کی بنیاد پر لکھنے والے سرسری تاثر والی تحریریں دیتے ہیں۔ ایسی تحریریں چند لمحات میں تاثر سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اس روا روی میں کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پارہا۔ لکھنے والے لکھنے کا حق ادا نہیں کر رہے اور پڑھنے والے بھی محض فیشن یا دکھاوے کے طور پر پڑھ رہے ہیں۔ آئیڈیاز اس لیے ہوتے ہیں کہ اُنہیں پروان چڑھایا جائے۔ کوئی اچھا خیال ہم سے توجہ مانگتا ہے۔ لازم ہے کہ اُسے ذہن میں خوب پروان چڑھایا جائے۔ چند آئیڈیاز کو ملا کر بھی ایک بڑا خیال پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ تمام ہی آئیڈیاز کو محض ابتدائی شکل میں آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ بعض اوقات کسی بڑی تحریر کا آئیڈیا سوجھتا ہے۔ اُس پر کام کیا جائے تو چھوٹی موٹی کتاب بھی معرضِ وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ آئیڈیاز ہوں یا کچھ اور، ''تو چل، میں آیا‘‘ والی ذہنیت انسان کو سطحی زندگی کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔ ٹھوس اور پائیدار انداز سے کچھ بھی کرنے کے لیے انسان کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اب لوگ ایسی محنت کی لگن سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ٹھوس اور پائیدار سوچ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام سنجیدگی اختیار کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved