تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-01-2023

نون لیگ‘ بیانیے کی تلاش میں

آج کے پاکستان میں‘ بیانیے کی سیاست کا آغاز نواز شریف صاحب نے کیا تھا۔ کیا المیہ ہے کہ آج خود نون لیگ کو ایک بیانیے کی تلاش ہے۔
میں اس جماعت کی سیاست کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس عورت کا خیال آتا ہے‘ قرآن مجید نے جس کی مثال دیتے ہوئے‘ اس کے انجام سے بچنے کی نصیحت کی: ''تم اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت خوب مضبوط کاتا‘ پھر خود ہی اسے تار تار ادھیڑ کے رکھ دیا‘‘۔ (النحل:92) عورت کا ذکر تمثیل کے اسلوب میں ہے۔ مراد ایک کردار ہے‘ کوئی خاص خاتون نہیں۔
یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ نون لیگ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ آج مگر میں اس بات کا ذکر‘ ایک قصۂ پارینہ کے طور پر کر رہا ہوں۔ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ صوبے میں یہ جماعت کہاں کھڑی ہے۔ خیبر پختونخوا میں نون لیگ نے جناب امیر مقام کو پوری جماعت کا قائم مقام سمجھ لیا۔ ان کے اخلاقی وزن کو بہت جانا کہ انہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دیا لیکن علامہ اقبال کے اس فرمان کو یکسر نظر انداز کیا کہ جمہوریت میں 'بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘۔ بلوچستان میں بھی اس کا وجود مشتبہ ہے۔ پنجاب کی قیادت بلا شرکتِ غیرے نون لیگ کے پاس تھی مگر آج یہاں بھی یہ اندیشہ ہائے دور دراز میں گھری ہوئی ہے۔
عوامی حمایت یا عصبیت‘ مستقل نہیں ہوتی۔ سماجیات کے ماہرین کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ عصبیت پیدا کیسے ہوتی ہے؛ تاہم وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ ختم کیسے ہوتی ہے۔ ان کا نتیجۂ فکر یہ ہے کہ اس کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ اس کا پہرا دینا پڑتاہے۔ سماجی ارتقا سے اس کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ قبائلی عصبیت اور ایک جمہوری معاشرے میں پیدا ہونے والی سیاسی عصبیت میں فرق ہے۔ اس عصبیت کو ڈھلنے میں دیر نہیں لگتی کہ اس کی بنیاد رنگ ونسل پر نہیں‘ سیاسی رویوں پر ہے۔ قیادت نظروں سے اوجھل ہو تو ان کے نقوش دھندلانے لگتے ہیں۔ وقت انتظار نہیں کرتا‘ اثرات مرتب کرتا اور گزر جاتا ہے۔ اس کے ماتھے پر جلی حروف میں لکھا ہے؎
نہ تھا اگر تُو شریکِ محفل‘ قصور میرا ہے یا کہ تیرا
مرا طریق نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر‘ مئے شبانہ
2014ء میں‘ پاکستان کی سیاست ایک بڑی تبدیلی سے گزری۔ یہ تبدیلی جوہری نہیں تھی‘ صرف خدو خال میں تھی۔ اس سال مگر یہ ہوا کہ مراکزِ اقتدار میں جو کھیل پسِ پردہ کھیلا جاتا تھا‘ اب برسرِ زمین کھیلا جانے لگا۔ 2018ء کے انتخابات‘ اس کشمکش کا نقطۂ عروج تھا۔ اقتدار کے کھلاڑی لباسِ فطرت میں تھے اور سب کے سامنے تھے۔ ریاستی ادارے‘ عوامی قوت کے خلاف متحد ہو گئے۔ یہ اتحاد بھی نیا نہیں تھا لیکن اس بار اس کی سج دھج کچھ اور ہی تھی۔ ہائی کورٹ کے معزز جج‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنی نوکری داؤ پر لگاتے ہوئے دہائی دی۔ ان کی نوکری چلی گئی‘ ان کی آواز لیکن نہیں سنی گئی۔ تاہم‘ تاریخ کے صفحات پر یہ گواہی ثبت ہوگئی ہے۔ اب آنے والی نسلیں جان سکتی ہیں کہ اس ملک کے ساتھ کیا کیا ہوتا رہا۔
اس پس منظر میں پہلی بار نواز شریف صاحب نے ان کرداروں کا نام‘ سرِ عام لیا جنہوں نے ملک کو عدم استحکام کے راستے پر ڈالا۔ ملک کے دوسرے صوبوں میں اس حوالے سے کوئی ابہام نہ تھا۔ پنجاب البتہ ہمیشہ مخمصے میں رہا۔ نواز شریف صاحب نے پنجاب کو یکسو کیا۔ اب پنجاب بھی سب کے ساتھ کھڑا تھا۔ نواز شریف صاحب اور مریم نواز کے لیے سارے ملک کے عوام نے درِدل کھول دیا۔ ان کا بیانیہ چل نکلا۔ باپ بیٹی نے اس کی قیمت ادا کی۔ جیل کی سختی اور مقدمات کی بھرمار۔
پھر یہ ہوا کہ نواز شریف صاحب ملک سے باہر چلے گئے۔ ایک دوسرا بیانیہ‘ نون لیگ میں ان کے بیانیے کا متبادل بنا۔ اس بیانیے نے نواز لیگ پر ایوانِ اقتدار کے دروازے کھول دیے۔ عمران خان صاحب وزارتِ عظمیٰ کے ایوان سے نکلے اور شہباز شریف صاحب نے ان کی جگہ لے لی۔ نواز شریف صاحب کا بیانیہ پس منظر میں چلا گیا۔ وہ خود پہلے ہی منظر پر نہیں تھے۔ کچھ دنوں کے بعد مریم صاحبہ بھی چلی گئیں۔ اب حکومت تو تھی‘ نون لیگ کہیں نہیں تھی۔
حکومت بیانیے سے نہیں‘ کارکردگی سے چلتی ہے۔ بیانیے کا عَلم اپوزیشن کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب اب اپوزیشن میں تھے۔ انہوں نے ایک بیانیہ گھڑا اور اس کا پھریرا جلسوں میں لہرانے لگے۔ اس بیانیے نے چند ماہ میں جتنے رنگ بدلے‘ وہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ دوسری طرف مگر حکومت کے پاس کوئی بیانیہ نہیں تھا۔ نون لیگ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تنظیم اور اقتدار میں علیحدگی کی قائل نہیں۔ شہباز شریف صاحب نون لیگ کے صدر ہیں اور ساتھ ملک کے وزیراعظم بھی۔ رانا ثنا اللہ پنجاب کے صدر ہیں اور ملک کے وزیر داخلہ بھی۔ اب یہ لوگ حکومت چلا سکتے تھے یا بیانیہ۔ ان کا انتخاب ظاہر ہے کہ حکومت ہی ہو سکتی تھی۔ پارٹی کو وقت وہ دے نہیں سکتے تھے کہ یہ کوئی جزوقتی نہیں‘ ہمہ وقتی کام ہے۔ یوں بیانیے کی سیاست ختم ہو گئی۔
نواز شریف صاحب اور عمران خان صاحب کے بیانیے ایک نہیں ہیں۔ نواز شریف صاحب کا بیانیہ یہ تھا کہ مقتدرہ کا اقتدار کے بناؤ اور بگاڑ سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ ملک کا حکمران کون ہو۔ عمران خان صاحب کا بیانیہ یہ ہے کہ مقتدرہ کا اقتدار کی سیاست سے تعلق ہونا چاہیے اور وہ میری پشت پر کھڑی رہے۔ وہ موجودہ حکومت کو ختم کرے اور انتخابات کرائے۔ چونکہ مقتدرہ کی قیادت نے ان کا اُس طرح ساتھ نہیں دیا جیسے وہ چاہتے تھے‘ اس لیے ان کی نظروں میں معتوب ٹھیری۔ نہ صرف معتوب بلکہ غداری کی مرتکب۔
عمران خان صاحب کے مقابلے میں لیکن اس وقت کوئی دوسرا بیانیہ موجود نہیں ہے۔ حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ وہ بیانیہ نہیں بنا سکتی۔ عمران خان بھی جب تک حکومت میں رہے‘ وہ اس بیانیے کا اظہار نہیں کر سکے‘ جس کے آج علم بردار ہیں۔ نون لیگ کا مخمصہ بھی یہی ہے کہ اقتدار کا حصہ ہوتے ہوئے‘ ووٹ کو عزت دینے کی بات نہیں کر سکتی۔ جب نون لیگ کا صدر ملک کا وزیراعظم ہے تو ووٹ کو مزید کس عزت کی ضرورت ہے؟نون لیگ کے سامنے اب چیلنج یہ ہے کہ حکومت میں رہتے ہوئے‘ اس کا بیانیہ کیا ہو؟ حکومت جو کہہ سکتی تھی‘ اس کا وقت گزر چکا۔ اب تو صرف کارکردگی پر بات ہوگی۔ نون لیگ کو سوچنا ہے کہ مریم نواز صاحبہ ملک میں آ کر عوام سے کیا کہیں؟ نون لیگ کا مؤقف ہے کہ ہم نے ریاست کے لیے سیاست کو قربان کیا۔ اس جملے کا مفہوم کیا ہے؟ اگر آپ کا انتخاب ریاست تھا تو پھر اس کی داد مورخ سے لیجیے یا آخرت میں اللہ تعالیٰ سے۔ سیاست تو قربان ہو گئی۔
آج ملکی سیاست کی حرکیات میں کوئی تبدیلی نہیں۔ اقتدار کا حقیقی مرکز اپنی تاریخی حیثیت سے دست بردار ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس سیاست میں اب کیسے لوٹنا ہے؟ عوام سے کیا کہا جائے؟ نیا بیانیہ کیا ہو؟ نون لیگ ان سوالوں کا جواب دیتی دکھائی نہیں دیتی۔ سعد رفیق اتنے مایوس ہیں کہ سیاست چھوڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ پارٹی کسی نے بنائی نہیں۔ یہاں مکمل خاموشی ہے۔ کہتے ہیں لندن میں بیانیہ تشکیل پارہا ہے۔
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved