چلیں قصہ تمام ہوا‘ پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا کی اسمبلی بھی اپنے انجام کو پہنچی جبکہ قومی اسمبلی کے 35اراکین کے استعفے منظور کرکے پی ڈی ایم نے قومی اسمبلی کو مزید لنگڑا لولا بنا دیا ہے۔ سیاست ہے‘ یہ سب تو ہوتا ہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایسی چالیں چلتی ہیں‘ اپنی اَنا کے زور پر خود پسندی کے فیصلے بھی لیتی ہیں لیکن اس کے لیے ماحول بھی دیکھتی ہیں کہ آس پاس ان کے حلقوں میں کیا ہو رہا ہے‘ عوام کس حال میں ہیں؟ کیا ان کی روٹی‘ دوا اور بنیادی ضروریات پوری ہورہی ہیں؟ کیا اُن کے سیاسی فیصلے عوام کی مشکلات میں اضافہ کریں گے یا ان کے لیے آسانی کا ساماں کریں گے؟ ہماری حکمران اشرافیہ تو بالکل بے نیاز ہے۔ عدم استحکام سے دوچار ایک ملک‘ جہاں نو سال میں زرِ مبادلہ کے کم ترین ذخائر رہ گئے ہیں جو بمشکل تین ہفتے کی درآمدات پوری کر سکتے ہیں‘ جہاں آئی ایم ایف محض ایک ارب ڈالر جاری کرنے کے لیے ترسا رہا ہے‘ جہاں بندرگاہ پر ادویات‘ تیل‘ دالوں‘ سبزیوں‘ مرغیوں کی فیڈ سے بھرے جہاز کھڑے ہوں لیکن ان کی ادائیگی کے لیے ایل سیز کھولنے کے پیسے نہیں‘ وہاں سیاستدان اپنے تماشے لگا کر عام بندے کی تکالیف کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ وہ عام شہری جو زرعی ملک کا باسی ہونے کے باوجود آٹے کے تھیلے کے لیے قطاروں میں لگنے پر مجبور تھا‘ اس مصیبت سے جان نہ چھڑوا پایا تھا کہ پتا چلا اب وہ علاج کی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہوگیا ہے۔ صرف لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کی رُوداد سنیے‘ جہاں آپریشن کے آلات اور ادویات ختم ہونے سے آپریشن تھیٹر بند ہوگئے ہیں۔ ایمرجنسی کی صورتحال یہ ہے کہ سرنجیں‘ پٹیاں‘ سرجیکل آلات‘ ڈرپ سیٹ اور کینولہ (cannula) وغیرہ بھی دستیاب نہیں۔ سٹی سکین کی ایکسرے فلمیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ مریض پریشان اور ورثا خوار ہو رہے ہیں کہ کریں تو کریں کیا؟ اس میں سے بیشتر سامان مارکیٹوں سے غائب ہو چکا ہے کیونکہ ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے شعبۂ صحت کا بنیادی سامان بھی بیرونِ ممالک سے پاکستان نہیں پہنچ پا رہا۔ اسی طرح خیر پور سندھ میں پچھلے 10 روز میں چھ بچے سردی سے ٹھٹھر کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ بچے سیلابی پانی کے کنارے کئی ماہ سے اپنے والدین کے ساتھ خیموں میں رہنے پر مجبور تھے‘ جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں کیونکہ یہ غریب لوگ کسی کی ترجیح نہیں۔
سیاسی قائدین خود سوچیں کہ ایسا ملک جہاں ماہرین دیوالیہ پن کے ابتدا کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں اور جہاں عوام اس فکر میں غلطاں ہیں کہ ناشتے میں آٹا زیادہ استعمال ہوگیا تو رات کو کیا کھائیں گے‘ وہاں وہ ملک کی خاطر کر کیا رہے ہیں؟ اقتدار میں رہنے اور آنے کا اتنا شوق ہے کہ سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے لیکن جو انہیں اقتدار میں لاتے ہیں‘ جن کے کندھوں کو استعمال کرکے یہ اعلیٰ ایوانوں میں پہنچتے ہیں‘ انہی کو یہ نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ عوام کا صبر یہ کب تک آزمائیں گے؟ آخر پاکستان کو ایسا کون سا مسئلہ درپیش ہے کہ اگر تمام سٹیک ہولڈرز ساتھ بیٹھ جائیں تو وہ حل نہیں ہو سکتا؟ معیشت کا شعبہ دیکھ لیں‘ وہ زبوں حالی کا شکار صرف اس لیے ہے کیونکہ شارٹ کٹ کے ذریعے اس کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی نہ کہ معیشت کو اوپر لے جانے کے لیے بنیادی اجزا پر اتفاقِ رائے پیدا کیا گیا۔ مثلاً اگر تمام سیاسی جماعتیں مل کر فیصلہ کر لیں کہ گھاٹے میں جانے والے سرکاری اداروں مثلاً پی آئی اے‘ ریلوے اور سٹیل ملز وغیرہ جو ہر سال اربوں روپے کے خسارے میں جاتے ہیں اور جنہیں چلانے کے لیے حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے‘ انہیں پرائیوٹائز کردیا جائے۔ جس بھی پارٹی کی حکومت انہیں پرائیوٹائز کرے تو حزبِ اختلاف مخالفت برائے مخالفت کے مصداق اس پر سیاست نہ کرے کیونکہ اس کھیل سے نقصان قومی خزانے کو ہو رہا ہے۔ اسی طرح فیصلہ کر لیا جائے کہ بجلی بنانے کے لیے مہنگی آئی پی پیز سے جان چھڑوانے اور گردشی قرضوں سے نمٹنے کے لیے پن بجلی اور شمسی توانائی کو فوقیت دی جائے گی۔ زرعی اصلاحات کی جائیں‘ کھیتی باڑی کی ماڈرن تکنیکیں استعمال کی جائیں‘ اچھا بیچ اور کھاد ملک میں ہی بنایا جائے۔ زرعی رقبوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے پر فوراً پابندی لگادی جائے تاکہ زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم‘ دالیں اور سبزیاں جو ہمیں بیرونِ ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہیں‘ اس سے ہماری جان چھوٹے۔ کپاس‘ جسے ہم چند سال قبل تک برآمد کرتے تھے‘ اس کی دوبارہ بوائی کے لیے کسانوں کو سہولتیں دی جائیں تاکہ جنوبی پنجاب اور سندھ جہاں شوگر مافیا نے اپنے منافع کے لیے کپاس کی جگہ گنے کی بوائی کے لیے کسانوں پر اجارہ داری قائم کررکھی ہے‘ اسے ختم کیا جا سکے۔ درآمدات کی حوصلہ شکنی اور برآمدات کے فروغ کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔ بھارت سمیت افغانستان اور ایران سے تجارتی راہداریوں کے معاہدے کیے جائیں۔ تنازعات کو 20 برسوں کے لیے منجمد کردیا جائے اور تمام تر توانائیاں ملکی دولت بڑھانے پر لگائی جائیں۔ حکمرانوں‘ بیوروکریسی کی تعیشات بند کی جائیں۔ درآمدی گاڑیوں‘ بڑے بڑے دفاتر‘ بے جا الاؤنسز لینے پر پابندی لگائی جائے۔ وفاقی کابینہ 20 وزرا سے زیادہ نہ ہو کیونکہ جب اٹھارہویں ترمیم کے بعد اہم محکمے صوبوں کو دیے جا چکے ہیں تو وفاق میں وزرا کی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ بیوروکریسی کے لال فیتے ختم کیے جائیں‘ ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے اور زائد سرکاری ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ جیسی سکیموں کے ذریعے فارغ کردیا جائے۔ ٹیکس کا کلچر عام کیا جائے اور بڑے جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ یہ سب اقدامات کرنا بالکل ممکن ہے‘ اگر سیاستدان اور بیورو کریسی سمیت دیگر بڑے ادارے قومی مفاد میں اس پر اتفاقِ کرلیں۔ اگر بنگلہ دیش ہم سے الگ ہو کر ہم سے آگے نکل سکتا ہے تو اس کی ترقی کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کچھ بنیادی اصلاحات اور فیصلے لے کر اپنی کایا پلٹ دی۔ بھارت میں مودی سرکار کے ون ونڈو آپریشن کی پالیسی نے فارن انویسٹمنٹ اور مقامی کاروباری افراد کے لیے نئی راہیں کھول دیں اور بھارت کو معاشی پاور کے راستے پر ڈال دیا۔ ویتنام جیسا ملک سالانہ سو ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کررہا ہے‘ ہم آخر کیوں نہیں اس ملک کی پالیسیوں کو پرکھتے اور اسے اپنانے کی کوشش کرتے؟ ایک ہم ہیں کہ اپنی تباہی کرتے کرتے خود کو افغانستان کی صف میں کھڑا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جس ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو‘ وہاں ایسے سنگین حالات پیدا کرنے کا مطلب اپنے ہاتھوں خود اپنی تباہی کرنا ہی ہوتا ہے۔ اب بہت ہو چکا‘ پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے اب اپنا تن من‘ دھن لگانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کر ہی لیا تو ہم کیوں کفرانِ نعمت کرنے پر مصر ہیں؟ اب اس ملک کو چلانا‘ کسی ایک پارٹی کے بس میں نہیں رہ گیا۔ اگر کسی کو غیر جمہوری حکومتوں کا شوق ہے تو وہ بھی شوق پورا کرلے‘ یہ ملک اب غیر جمہوری حکومتوں سے بھی نہیں چل سکتا۔ آگے بڑھنے کے لیے سب کو مل بیٹھنا ہوگا‘ کوشش کریں گے تو بات بن جائے گی۔ اگر نہیں‘ تو پھر اپنی تباہی کا تماشا خود بھی دیکھتے رہیے اور دنیا کو بھی دیکھنے دیجئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved