قانون کی حکمرانی کی عالمی فہرست میں پاکستان کا نمبر بہت نیچے آتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس پہ کوئی گفتگو‘ کوئی مباحثہ نہیں ہو رہا حالانکہ اس ملک کو در پیش بیشتر مسائل کی وجہ ہی قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے۔
قانون کی حکمرانی کی کچھ بنیادی شرائط ہیں‘ جن کو پورا کیے بغیر قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا‘ لیکن ان شرائط کو بھی پورا کرنے کے لیے کسی سماج میں قانون کی حکمرانی کا شعور اور ادراک ضروری ہے۔ قانون کی حکمرانی کا تصور تو بہت پرانا ہے مگر جدید دور میں قانون کی حکمرانی کے ساتھ جس شخص کا نام جڑا ہے وہ البرٹ وین ڈائسی ہے جسے عام طور پر لوگ اے وی ڈائسی کے نام سے جانتے ہیں۔ ڈائسی آکسفورڈ یونیورسٹی اور لندن سکول آف اکنامکس میں انگریزی قانون کا پروفیسر تھا مگر اس کی شہرت کی اصل وجہ آئین کے مطالعے پر اس کی شہرۂ آفاق کتاب (Introduction to the Study of the Law of the Constitution) تھی جو پہلی بار 1885ء میں شائع ہوئی۔ ڈائسی نے ''قانون کی حکمرانی‘‘ کی اصطلاح کو مقبولِ عام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اگرچہ یہ اصطلاح بہت پرانی ہے اور سترہویں صدی سے استعمال ہوتی آ رہی ہے۔ اسی طرح قانون کی حکمرانی کا تصور تو صدیوں پرانا ہے اوریہ تصور تقریباً ہر قدیم تہذیب میں موجود رہا ہے۔ سب سے پہلے اس تصور کی موجود گی کے شواہد قدیم یونانی تہذیب میں ملتے ہیں۔ اس تہذیب کے سیاہ ادوار میں بھی‘ جو نویں سے بارہویں صدی قبل مسیح میں گزرے‘ قانون کی حکمرانی کا تصور موجود رہا۔ اس کے علاوہ قدیم میسوپوٹیمیا‘ ہند اور روم کی قدیم تہذیبوں میں بھی قانون کی حکمرانی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے‘ لیکن عام طور پر قانون کی حکمرانی کے تصور کو ان یونانی فلاسفرز کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ بہترین حکومت وہ ہوتی ہے جسے بہترین لوگ چلاتے ہیں۔ افلاطون کا یہ ''بہترین آدمی‘‘ ایک مثالی فلسفی بادشاہ تھا جو قانون سے بالا تر ہوتا ہے‘ لیکن افلاطون ''بہترین آدمی‘‘ کے بارے میں یہ حسنِ ظن رکھتا تھا کہ وہ قانون کا احترام کرے گا‘ مگر ارسطو نے اس '' بہترین آدمی‘‘ کے تصور کو بالکل قبول نہیں کیا۔ اس کے خیال میں کسی ایک شخص کی حکمرانی کے بجائے قانون کی حکمرانی بہتر رہے گی۔ اس میدان میں اگلا قدم رومن مفکر سیسرو نے اٹھایا۔ مارکوس سیسرو ایک رومن قانون دان اور فلاسفر تھا۔ اس نے روم میں سیاسی بحران کے دوران وہ اصول وضع کیے جو آگے چل کر رومن ایمپائر کے قیام کی بنیاد بنے۔ سیسرو نے کہا کہ آزادی کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب شہری قانون کے خادم ہوں۔ ایک مجسٹریٹ جو قانون نافذ کرتا ہے‘ ایک جج جو اس کی ترجمانی کرتا ہے اور ہم سب قانون کے خادم ہیں اور آزادی کی ضمانت کے بدلے میں اس سے اپنی وفا داری کا عہد کرتے ہیں۔ اسی طرح قدیم چینی تہذیب میں بھی قانون کی حکمرانی کا ایک الگ تصور موجود تھا۔ قدیم چینی فلسفے میں چھ مکاتبِ فکر بہت مقبول ہوئے‘ ان میں ایک ''لیگل ازم‘‘ بھی تھا جس کو مقامی زبان میں ''فاجیا‘‘ کہا جاتا تھا۔ تیسری صدی عیسو ی میں چین میں لیگل ازم کافی مقبول ہوا لیکن ان کا ماٹو '' رُول آف لا‘‘ کے بجائے ''رُول بائی لا‘‘ تھا۔ یعنی یہ فلاسفر قانون کی حکمرانی کے بجائے قانون کے ذریعے حکمرانی کا پرچار کرتے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بادشاہ اور دوسرے بڑے عہدیداروں کو قانون سے بالا تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت کو صرف قانون کے تحت حکمرانی کرنی چاہیے اور قانون سازی کا اختیار صرف لارڈز کو ہونا چاہیے۔ یہ قانون کی حکمرانی کی فلسفیانہ روایات ہیں۔ اگر فلسفیانہ روایات سے نکل کر سیاسی روایات کو دیکھا جائے تو اس تسلسل میں اینگلو سیکسن بادشاہ الفرڈ دی گریٹ کا نام آتا ہے۔ اس بادشاہ نے نویں صدی میں اپنی بادشاہت کے قوانین میں ترامیم کیں۔ اس نے تمام قوانین کو مربوط کر کے ''Doom book‘‘ کی شکل میں جمع کیا۔ اس نے Doom book میں لکھا کہ ہر شخص کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے خواہ وہ امیر ہو یا غریب‘ دشمن ہو یا دوست ہو۔ اس سلسلے کو 1215ء میں سٹفین لینگٹن نے آگے بڑھایا۔ اس نے بادشاہ جان کے خلاف انگلینڈ کے بیرنز کو جمع کیا اور قدیم آزادیوں کی حفاظت کی تحریک چلائی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تصور قدیم دور سے موجود تو تھا مگر سیاسی سطح پر ''قانون کی حکمرانی‘‘ کی باقاعدہ اصطلاح 1500ء میں استعمال ہونا شروع ہوئی۔ آگے چل کر اس کا باضابطہ استعمال 1610ء میں جیمز اوّل کے نام ہاؤس آف کامنز کی درخواست میں ہوا‘ مگر جدید لٹریچر میں اس اصطلاح کو Samuel Rutherford نے 1644ء میں استعمال کیا۔ اس طرح ''بادشاہ قانون ہے‘‘ کے قدیم تصور کی جگہ ''قانون بادشاہ ہے‘‘ کا جدید تصور عام ہونا شروع ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ قانون کی نہیں آدمیوں کی ایمپائر کی جگہ آدمیوں کی نہیں قانون کی ایمپائر کا تصور بھی اجاگر ہوا۔ سترہویں صدی کے آخر میں جان لاک نے اس موضوع پر مزید تفصیل سے لکھا۔ اس نے لکھا کہ انسان کی فطری آزادی کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی بالا دستی سے آزاد ہو۔ وہ کسی دوسرے انسان کی مرضی یا قانون سازی کے اختیار کے تحت نہ ہو بلکہ اس پر صرف فطری قانون کی حکمرانی ہو۔ اسی طرح امریکہ کی تشکیل کے وقت قانون کی حکمرانی کا تصور کافی مقبول ہوا۔ اس وقت تھامس پین جیسے لوگوں نے لکھا کہ امریکہ میں قانون بادشاہ ہے نہ کہ بادشاہ قانون ہے۔ انہوں نے لکھا کہ مطلق العنان حکومتوں میں بادشاہ قانون ہے اور آزاد حکومتوں میں قانون کو بادشاہ ہونا چاہیے۔ آگے چل کر 1780ء میں جان ایڈمز نے قانون کی حکمرانی کے اصول کو قویلتھ آف میسی چیوسٹس کے آئین میں شامل کیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ قانون کی حکمرانی کا جدید تصور دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔
جدید دور میں قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہری قانون کا پابند ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ قانون کی حکمرانی‘ اس کی موجودہ صورت حال اور اس اعتبار سے دنیا کی رینکنگ کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے۔ اس فورم کے نزدیک قانون کی حکمرانی کے لیے کچھ بنیادی اصولوں کی پاسداری شرط ہے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ حکومت کے عہدیدار اور اہلکار قانون کے سامنے جواب دہ ہوں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ملک کے قوانین واضح ہوں اور ان کی مناسب تشہیر ہو۔ یہ قوانین شفاف ہوں‘ بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرتے ہوں اور ہر انسان کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہوں۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ قوانین کو نافذ کرنے اور ان کے اطلاق کا طریقۂ کار صاف‘ شفاف اور مؤثر ہو اور ہر شہری کو قانون تک رسائی حاصل ہو۔ قانون تک رسائی کے لیے اہل‘ خود مختار قانونی نمائندے موجود ہوں‘ عدلیہ کے اہلکار مناسب تعداد میں ہوں اور ان کے پاس مطلوبہ وسائل موجود ہوں۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بنیادی اصول کہیں نظر نہیں آتے۔ ملک کے نظام انصاف میں عام شہری کی نمائندگی کرنے والے وکلا کی اہلیت کا سوال ہو‘ عدالتی اہلکاروں کی تعداد اور ان کو مہیا وسائل کی بات ہو یا قانون کے نفاذ کے لیے صاف و شفاف طریقہ کار کا سوال ہو‘ جواب میں غربت اور وسائل کی کمی کا رونا رو کر دامن جھاڑ لیا جاتا ہے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب تک یہ بنیادی شرائط پوری نہیں کی جاتیں پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خواب محض خواب ہی رہے گا‘ اور عوام کسی نیک اور رحم دل بادشاہ کی راہ تکتے رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved