کوئی ہے جو ملک میں لگے سیاسی تماشے کے نتیجے میں عوام کو مزید تماشا بننے سے روک سکے؟ پنجاب میں نگران سیٹ اَپ کے لیے فریقین ایک دوسرے کے نام تو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ اکثر نام سن کر تو باقاعدہ سر پیٹنا ہی بنتا ہے‘ اُف خدایا! اتنے نگرانوں میں کوئی ایک بھی نگہبان نہیں جس کا نام سنتے ہی دِل گواہی دے کہ ہاں! یہی ہے وہ شاہکار جس کا تھا انتظار۔ جس پر نہ دھاندلی کا الزام لگ سکتا ہے اور نہ ہی پنکچر لگانے کا۔ جو غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کروا کر اقتدار کی امانت انہیں سونپنے کی اہلیت رکھتا ہو جنہیں عوام حکمرانی کا مینڈیٹ دیں گے۔کسی کو تو توفیق ہو کہ وہ کہے کہ میں نگران نہیں‘ نگہبان بننا چاہتا ہوں۔ ماضی کے سبھی انتخابات سے پہلے نگران بن کر الیکشن کروانے والے حکمرانوں پر جانبداری اور دھاندلی سمیت کیسے کیسے الزامات لگتے چلے آئے ہیں اور چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ ان الزامات کا بوجھ اٹھانے کی قیمت وصول کرنے والوں نے کسی دور میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سہ ماہی خدمات کے عوض کلیدی عہدوں اور وسائل کی بندر بانٹ تو بنتی ہے۔ ماضی میں 35پنکچر کا شور اُٹھا لیکن اس بار تو اگر ٹیوب بچ جائے تو بڑی بات ہے۔
مفادات اور تعلقات سے جڑی نگرانی جانبداری اور دھڑے بندی کیوں نہ کرے؟ سہولت کاری اور ضرورت مندی کے جس عہد میں ہم زندہ ہیں‘ وہاں اہداف کا حصول ہی مقصدِ حیات بن کر رہ گیا ہے اور ان کی زندگیاں کیا‘ نسلیں بھی سہولت کاری اور ضرورتوں کی دلالی کو نصب العین بنا چکی ہیں۔ نسل در نسل اپنے آباؤ اجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یہ کیسے کیسے روپ اور بہروپ دھارے کچھ سمجھ ہی نہیں آنے دیتے کہ ان کا اصل چہرہ کون سا ہے؟ گورننس جیسی عطا کو اپنی کسی ادا کا چمتکار سمجھنے والے خاک حقِ حکمرانی ادا کر سکتے ہیں۔ جہاں نگران سیٹ اَپ کے نام سامنے آنے کے بعد ان کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کا نتیجہ چشمِ تصور سے دیکھا جا سکے وہاں کیسی نگرانی‘ کہاں کی حکمرانی اور انتخابی نتائج بارے تو پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی‘ بس نام ہی کافی ہے‘ ان کا نام ہی کام کی ضمانت ہے۔ تواتر سے باور کرواتا چلا آرہا ہوں کہ جو کچھ بتایا اور دِکھایا جا رہا ہے اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ زمینی حقائق کو جھٹلانے والے اس ڈھٹائی سے جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جا رہے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے:
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
جہاں سرکاری طور پر جھوٹ بولنے کا رواج ہو‘ جھوٹ سرکاری بھاشا ہو‘ گمراہ کن اعداد و شمار اور دلفریب جھانسوں کو راج نیتی کا گُر سمجھا جاتا ہو‘ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کو بہترین گورننس ثابت کرنے کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہو‘ وہاں حکمران پانچ سال کے لیے منتخب ہو کر آئیں یا تین ماہ کی نگرانی کے لیے‘ یہ نگہبانی کے تصور کی سراسر نفی ہے۔ ایجنڈوں اور اہداف کی نگرانی کے لیے حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے جگاڑ اور اپنے اپنے زور لگا رہی ہیں کہ کسی طرح ان کا بندہ تختِ پنجاب کا نگران بن کر اُن سبھی آسانیوں کا سامان کر ڈالے جو کوئے اقتدار کے لیے درکار ہیں۔ شفاف الیکشن اور غیر جانبدار رہنے کے دعوے کرنے والے نگران حکمرانوں کی تاریخ کا جائزہ لیں یا نئے نگران امیدواروں کی بے تابی کا‘ سبھی کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ:
وہ ہیں مصروفِ انتظام مگر
جانے کیا انتظام کر رہے ہیں
اگلے چند روز میں نگران سیٹ اَپ آ جائے گا‘ انتخابی شیڈول جاری ہو جائے گا‘ انتخابی سرگرمیاں روز بروز زور پکڑتی چلی جائیں گی‘ سیاسی سرکس میں نئے آئٹمز کھڑکی توڑ رش لیتے رہیں گے‘ کانٹے دار مقابلوں اور سیاسی دنگل کے بعد انتخابی نتائج آنا شروع ہو جائیں گے‘ جیتنے والے فتح کو عوام اور جمہوریت کی جیت قرار دیں گے‘ ہارنے والے دھاندلی اور جھرلو جیسے الزامات لگا کر انتخابی نتائج چیلنج کرتے نظر آئیں گے۔ کچھ ارکان اسمبلیوں میں اور کچھ سڑکوں پر یہی تماشے دہراتے نظر آئیں گے۔ انتخابی عذر داریوں کے کیس دائر کرکے نئے انتخابات کا مطالبہ بھی سننے کو ملے گا۔ برسرِ اقتدار آنے والے ایسے مطالبوں کو غیرجمہوری قرار دے کر ماضی کی بدترین طرزِ حکمرانی کے سبھی ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑتے نظر آئیں گے۔ حالاتِ پریشاں عوام کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث ہوں گے۔ یہ سبھی محض پیش گوئیاں نہیں ہیں بلکہ وہ پورا سچ ہے جس سے حکمران اور عوام سبھی ہر دور میں آنکھیں چراتے رہے ہیں۔
پون صدی سے آنکھیں چرانے والے تاریخ اور آئندہ نسلوں کے چور بن چکے ہیں‘ چرانے والوں نے کیا نہیں چرایا؟ کب نہیں چرایا؟ جس کا جہاں داؤ لگا اس نے پورا داؤ لگایا‘ جس کا جہاں ہاتھ پڑا اس نے برابر ہاتھ دِکھایا۔ قومی خزانہ ہو یا ملکی وسائل‘ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے عوام کا ماضی اور حال چرانے والے اب مستقبل پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے نئی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ تعجب ہے! کس قدر صفائی سے صفایا کیا گیا ہے کہ ملک و قوم کے خزانے اور وسائل پر برابر ہاتھ صاف کرنے والوں کے ہاتھ بھی صاف ہیں اور دامن بھی صاف۔ ہر دور میں شوقِ اقتدار پورے کرنے والے کس ڈھٹائی سے اپنی ہی پھیلائی ہوئی تباہیوں اور بربادیوں کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے نسل در نسل شریکِ اقتدار رہنے والوں کی نیت اور ارادوں سے لے کر کیسے کیسے پول کھلتے چلے جارہے ہیں۔ اس مشقِ ستم کا کوئی تو اَنت ہونا چاہیے۔ ملک و قوم سے بد عہدی اور کھلواڑ کا کوئی تو انجام ہونا چاہیے۔ سج دھج کر اسمبلیوں کے اجلاسوں میں جانے والے ہوں یا سبھی مراعات لے کر اسمبلیوں سے بھاگ جانے والے‘ ان کے شب و روز کا ایک ایک لمحہ سرکاری خرچ پر بسر ہوتا ہے۔
ایوان کے اجلاسوں کے سبھی مناظر گواہ ہیں کہ انہیں نہ عوام سے سروکار اور نہ ہی عوام کے مسائل سے‘ ایوان کا تقدس تو نجانے کب سے پامال کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ پارلیمنٹ سمیت سبھی صوبائی اسمبلیاں غیر مؤثر اور بے معانی ہو کر رہ گئی ہیں۔ قومی اسمبلی میں زیر التوا پی ٹی آئی کے استعفے منظور ہونے کے بعد متوقع ضمنی انتخابات میں درجنوں حلقوں سے صرف عمران خان ہی اُمیدوار ہوں گے اور ایک نشست رکھ کر باقی نشستیں عوام کے منہ پر دے ماریں گے۔ گوڈے گوڈے قرضوں میں ڈوبے ملک میں ناقابلِ برداشت انتخابی اخراجات کے باوجود الیکشن کو مذاق ہی بنا دیا گیا ہے۔ جہاں عوامی مینڈیٹ کی خرید و فروخت کی سرِعام منڈی لگتی ہو‘ ضرورتوں کی دلالی اور وفاداریوں کی تبدیلی ان کی سرشت میں شامل ہو‘ وہاں پارلیمان کا احترام اور بالادستی کیونکر ممکن ہے۔
کوئی ہے جو یہ تماشا بند کروا سکے‘ پون صدی سے جاری تباہیوں اور بربادیوں پر کوئی بند باندھ سکے‘ نسل در نسل شوقِ حکمرانی اور لوٹ مار کو حرام قرار دے سکے‘ مکافاتِ عمل اور جزا و سزا کے تصور کو بحال کر سکے۔ مملکتِ خداداد کو اب نگرانوں کی نہیں نگہبانوں کی ضرورت ہے‘ نگران تو ایجنڈوں اور مفادات کے نگران ثابت ہوتے چلے آئے ہیں۔ کاش! کوئی معجزہ‘ کوئی چمتکار ایسا ہو جائے کہ مدتوں سے سوئی غیرتِ قومی جاگ اٹھے اور کوئی مسیحا ایسا آجائے کہ جسے بجا طور پر نگہبان کہا جا سکتا ہو۔ ہنرمندانِ ریاست و سیاست کو خبر کیوں نہیں کہ ملک میں بسنے والوں کی اکثریت اب مخصوص اقلیت سے عاجز اور تنگ آچکی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved