بہت کچھ ہے جو زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اہلِ خانہ سے ہمارا تعلق زندگی بھر کا ہے۔ یہی معاملہ رشتہ داروں اور احباب کا بھی تو ہے۔ ہم بہت سے معاملات کو زندگی بھر کے لیے اپناتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ وہ معاملات زندگی بھر کے لیے ہیں۔ ہم‘ آپ معاشی جدوجہد بھی تو زندگی بھر کرتے ہیں۔ اگر کسی ادارے میں ملازم ہیں تو وہ ماحول بھی تو زندگی بھر ساتھ رہتا ہے۔ ادارے بدلنے کی صورت میں بھی بہت کچھ ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ ایک دور تھا کہ لوگ کسی ایک ادارے، کمپنی، دفتر، فیکٹری یا دکان میں عمر کا بڑا حصہ کھپا دیا کرتے تھے۔ خاکسار ذاتی طور پر ایسے چند افراد کو جانتا ہے جنہوں نے ایک ہی دکان کی نوکری میں پچیس سال لگادیے۔ تب زندگی کی رفتار سست تھی۔ لوگ ہلنا جلنا زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ لوگ معاشی میدان میں زیادہ تجربے کرنے سے بھی گریزاں رہتے تھے۔ ڈر لگا رہتا تھا کہ اگر نوکری چھوڑنے کی صورت میں دوسری نوکری جلد نہ ملی یا مطلب کی نہ ملی تو کیا ہوگا۔ یہ خوف بلا جواز تھا مگر تب یہ بات کم ہی لوگ سمجھ پاتے تھے۔ میڈیا کے شعبے میں بھی لوگ تیس‘ تیس سال ایک ہی ادارے میں گزار دیا کرتے تھے۔
اگر کوئی شخص کسی ادارے میں عمر کا ایک بڑا حصہ لگادے تو کیا وہاں موجود لوگوں سے الگ تھلگ رہ سکتا ہے؟ یا ماحول کو یکسر نظر انداز کرسکتا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے عمومی سطح پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہم زندگی بھر کچھ لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں مگر اُن سے پوری طرح واقف ہونا پسند نہیں کرتے۔ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والوں کے درمیان گھریلو یا خاندانی سطح کے تعلقات اُستوار ہوسکتے ہیں مگر ایسا ہوتا نہیں۔ لوگ کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں مگر یہ بات تو ماننا ہی پڑے گی کہ یوں کھنچے کھنچے اور اُلجھے اُلجھے رہنا کسی بھی اعتبار سے اچھا معاملہ نہیں ہے۔ جن کے ساتھ ہم کام کرتے ہیں اُن سے تعلقات کس سطح تک ہونے چاہئیں اور اُن میں کس حد تک دلچسپی لینی چاہیے یہ تو خیر ایک الگ موضوع ہے، سرِدست ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو معاملہ زندگی بھر کا ہے اُس کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں اور کس نوعیت کا طرزِ عمل اپناتے ہیں۔ ہماری معاشی جد و جہد زندگی کے ایک بڑے حصے پر محیط ہوتی ہے۔ اگر ہم کسی دفتر میں ہیں اور وہاں تیس سال کام کرتے ہیں تو عمر کا کم و بیش ایک تہائی حصہ اُسے دے دیتے ہیں۔ دفتر کے لوگوں سے ہمارا تعلق یومیہ بنیاد پر ہوتا ہے اور وہ بھی ڈھائی‘ تین عشروں تک مگر پھر بھی ہم معاملات کو بہتر بنانے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ نظر انداز کردہ حقیقت ہمارے وجود کی حقیقی تشفی و تسکین کے حوالے سے انتہائی مضر ہے۔
ایپل کمپنی کے بانی آنجہانی سٹیو جابز نے کہا تھا ''معاشی جد و جہد ہماری زندگی کے ایک بڑے حصے پر محیط ہوتی ہے۔ اپنے کام سے واقعی مطمئن ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ وہ کام کریں جسے آپ عظیم گردانتے ہیں۔ آپ کس کام کو عظیم گردانتے ہیں؟ ہر وہ کام عظیم ہوتا ہے جس میں انسان بھرپور دلچسپی لیتا ہے۔ کسی کام کے عظیم ہونے کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ اُس سے کسی کو بلا جواز نقصان نہ پہنچ رہا ہو۔ عظیم کام کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے‘ وہ یہ کہ آپ وہ کام کریں جس میں بھرپور دلچسپی لیتے ہوں یا پھر یوں ہے کہ جو کام بھی کررہے ہیں اُس سے پیار کریں، اُس میں بھرپور دلچسپی لیں۔ اگر آپ تاحال اس منزل تک نہیں پہنچ پائے تو ہمت نہ ہاریے۔ وہاں تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھیے۔ اس معاملے میں آپ کو ہمت بھی نہیں ہارنی اور اصولوں پر سمجھوتا بھی نہیں کرنا‘‘۔ ذرا اپنے مشاہدے سے کام لیجیے اور ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بھرپور کامیابی اُنہی کے حصے میں آتی ہے جو اپنے کام سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ کام سے پیار کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی آپ کو اچھا لگتا ہے اُسے اپنا پیشہ یا کیریئر بنالیجیے۔ جب کوئی انسان اپنے مشاغل کو پیشہ یا کیریئر بناتا ہے تب کام کرنے کا لطف کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں زیادہ اور اچھا کام ممکن ہو پاتا ہے۔ کسی بھی کام کا معیار اُسی وقت بلند ہوتا ہے جب وہ دل سے کیا جائے۔ دل سے اور دل جمعی سے کام اُسی وقت ہو پاتا ہے جب کیا جانے والا کام آپ کو اچھا لگتا ہو۔ اور کام وہی اچھا لگتا ہے جو مشغلہ رہ چکا ہو۔ مختلف پیشوں سے وابستہ ایسے تمام افراد آپ کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار ملیں گے جو بچپن اور لڑکپن کے مشغلے کو پیشے میں تبدیل کرکے چل رہے ہیں۔
معاشی جد و جہد چونکہ زندگی بھر کا معاملہ ہے اس لیے بھرپور توجہ کا مستحق ہے۔ ہم بالعموم اپنی معاشی جدوجہد یا زندگی کے معاشی پہلو کو خاطر خواہ توجہ کا مستحق نہیں سمجھتے۔ یہ لاپروائی نقصان دہ ہے۔ جو معاملہ عمر کے ایک تہائی سے تعلق رکھتا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ نظر انداز کردیا جائے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اپنی زندگی سے کسی حد تک بے وفائی بلکہ ''غداری‘‘ کا مرتکب ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے سب سے اہم اپنے معاملات ہوتے ہیں۔ اپنے اہم نوعیت کے معاملات کو نظر انداز کرنے کا مطلب دنیا کو یہ دکھانا ہوتا ہے کہ آپ میں لاپروائی پائی جاتی ہے اور اپنا احساس بھی کماحقہٗ نہیں ہے۔ کسی بھی انسان کو بنیادی طور پر اس حوالے سے پہچانا اور سراہا جاتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں کس حد تک سنجیدہ اور مخلص ہے۔ اگر کوئی اپنے اہلِ خانہ کو نظر انداز کرکے دنیا کو سدھارتا پھرے تو لوگ اسے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ اگر کوئی اپنے دوستوں کو مشکل میں چھوڑ کر پرایوں یا اجنبیوں پر متوجہ ہوتا پھرے تو کون اسے احترام کی نظر سے دیکھے گا؟ لوگ اُنہیں بھی احترام کی نظر سے نہیں دیکھتے جو دنیا کا بھلا کرنے کے چکر میں اپنے وجود کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ طے کیجیے کہ آپ کو کس طور جینا ہے‘ محض رسمی کارروائی اور خانہ پُری کے طور پر یا پھر کچھ بننے اور کرنے کی خاطر۔ اگر آپ واقعی اپنے وجود کو بامقصد بنانا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ زندگی کے معاشی پہلو کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہ کریں۔ معاشی پہلو یعنی کمانے کا عمل۔ آپ کو اپنے پیشے یا شعبے سے محنت اور لگاؤ ہی نہیں بلکہ عشق ہونا چاہیے۔ جو لوگ اپنے کام سے عشق کرتے ہیں وہ دور سے پہچانے جانتے ہیں۔ سوال صرف زیادہ دولت کمانے کا نہیں۔ زیادہ دولت کا حصول زیادہ کام کرنے سے ممکن ہے مگر پہلے مرحلے میں یہ تو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ آپ کو اپنے کام سے عشق ہے۔ کام سے عشق بھی لوگ اچھی طرح شناخت کرنا جانتے ہیں۔ جو لوگ اپنے شعبے سے بھرپور لگاؤ رکھتے ہیں اور پوری توجہ سے کام کرتے ہیں وہ اپنے بارے میں بہت اچھا تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ زیادہ کمانے کے لیے محض زیادہ کام کرنا لازم نہیں۔ یہ بھی ناگزیر ہے کہ آپ کام پورے من سے کریں، اُس میں بھرپور دلچسپی لیں اور اُس کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اجرت یا معاوضے سے کچھ زیادہ دینے کی کوشش کریں۔ لوگ اُن کی کارکردگی زیادہ یاد رکھتے ہیں جو محض اجرت یا معاوضے کے بقدر کام نہ کریں بلکہ تھوڑا سا زیادہ کام کرکے اپنے اخلاص کو ثابت کریں۔
جب انسان اپنے کام سے عشق کرتا ہے تب وہ معاوضے یا اجرت سے کہیں زیادہ معیار کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔ جب معیار کی فکر لاحق رہتی ہو تب کام ڈھنگ سے بھی ہوتا ہے اور لوگوں کو پسند بھی آتا ہے۔ ایسے میں معاوضے کا بڑھنا فطری امر ہے۔ ہم معاشی میدان میں جو کچھ کرتے ہیں وہ آمدن کے لیے ہوتا ہے مگر پہلے مرحلے میں آمدن کی فکر زیادہ لاحق نہیں ہونی چاہیے۔ کام کا معیار بلند ہوگا تو آمدن خود بہ خود بڑھے گی۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے معاشی عمل سے دنیا کو، اپنے ماحول کو، اُس میں موجود لوگوں کو کیا دے رہے ہیں۔ اپنے معمولات سے وابستہ معاشی سرگرمیوں کو دلکش بنائیے، دل جمعی سے کام کیجیے اور دنیا کو بتا دیجیے کہ آپ اپنے کام سے عشق کرتے ہیں۔ یہی وصف آپ کو ہر دل عزیز بناسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved