ہم یہ کہتے تھک گئے کہ یہاں کچھ ٹھیک نہیں ہونا۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر دل میں یہ عقیدہ پیدا ہوا کہ جتنا ہو سکے موج مستی میں وقت گزاریں‘ قوم کے درد کو دل میں رکھنے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا۔ اجتماعی فکر کس کو ہے؟ کسی کو نہیں۔ اوپر سے لے کر نیچے تک حسبِ استطاعت بس اپنا منتر ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کیا اصلاح ہونی ہے‘ کیا بہتری آنی ہے؟
حالات اب یہی بتا رہے ہیں کہ ہم ٹھیک ہی کہتے تھے۔ ہماری اجتماعی نالائقی سے معاشی حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ رونے کا تو کوئی فائدہ نہیں‘ اب ہنسی آتی ہے۔ اور اپنے آپ کو یہ داد دینے کا دل چاہتا ہے کہ نالائقی تو تھی ہی لیکن اس نالائقی میں کمال نکلے۔ ایک صاحب جو وفاقی سیکرٹری فنانس رہ چکے ہیں‘ کچھ دن پہلے کراچی سے اسلام آباد کی پرواز پر ملے۔ کہنے لگے کہ آپ لو گ بھی عجیب ہیں‘ فضول کی سیاست پر نہ ختم ہونے والی گفتگو کیے جاتے ہیں جبکہ اصلی مسئلہ معاشی ہے۔ ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں لیکن کیا عجب بات ہے کہ کسی کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں‘ نہ ان کے پاس جو اوپر لائے گئے ہیں‘ نہ لانے والوں کے پاس اور نہ ہی خانِ اعظم عمران خان کے پاس۔ اثبات میں سرہلا دیا‘ اور کرتے بھی کیا۔ اس بات سے کوئی انکار ممکن ہے کہ ہمارے سارے ملک میں کسی کے پاس کوئی معاشی سوچ نہیں؟ ہمارے پاس صحیح طور پر معاشی ایکسپرٹ بھی نہیں۔ اسحاق ڈار چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں لیکن اپنے آپ کو دنیا کا اعلیٰ ترین اکانومسٹ سمجھتے ہیں۔ اسد عمر کو اکانومی کی الف ب نہیں آتی لیکن عمران خان کے فنانس منسٹر لگ گئے تھے۔ شوکت ترین سے اپنا بینک نہ چلا لیکن اکانومی کے نسخے قوم کو دے رہے ہیں۔ ایک دو ایسے اشخاص ہیں جو معیشت کو سمجھتے ہیں لیکن مقتدرہ کے زیادہ فرمانبردار ہیں اور اُس فرمانبرداری میں اُن کا سارا معاشی ہنر ختم ہو جاتا ہے۔ باہر کے ایک پاکستانی ہیں جن کی بطورِ اکانومسٹ عالمی شہرت ہے‘ عمران خان نے بطورِ مشیر اُن کا نام لیا بھی لیکن ملک میں شور مچ گیا کہ یہ تو غیرمسلم ہے۔ وہیں بات ختم ہو گئی۔
بات صرف معیشت کی نہیں‘ ہمارے عمومی رویوں کی ہے۔ جسے ریشنل سوچ یا تھِنکنگ کہا جاتا ہے‘ وہ یہاں پہ نہیں ہے۔ منطق پر مبنی بات نہ ہم سمجھ سکتے ہیں‘ نہ کہہ سکتے ہیں۔ اوپر سے نظریات کا لبادہ اپنے اوپر ایسا لپیٹا ہوا ہے کہ ریشنل تھِنکنگ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کل ہی رؤف کلاسرا نے لکھا تھا کہ بھیک مانگنی ہے لیکن اکڑ بھی دکھانی ہے اور پوری دنیا سے الجھے رہنا ہے۔ یہ ہمارا قومی رویہ ہے۔ تو بتائیں پھر حالات ٹھیک کیسے ہونے ہیں اور کس نے کرنے ہیں؟ ایک تو مختلف قیادتیں جو ہمیں نصیب ہوئیں‘ اپنی ذات سے زیادہ کی سوچ کبھی نہ رکھ سکیں۔ لیکن قوم بھی ایسی کہ بیوقوفیوں میں مبتلا رہنے سے کبھی پرہیز نہ کر سکی۔ جس سمت قوم کو لگایا اُسی سمت چل پڑی۔ جو نعرے لگوانا چاہے‘ پھیپھڑے پھاڑ کر اور خوشدلی سے قوم نے لگائے۔ اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ نہ حکمرانوں کو کچھ سمجھ ہے نہ غیور قوم کو۔ چلیں‘ کچھ دل کو تسلی تو دیں‘ ڈالر نہیں ہیں ہم ایٹمی طاقت تو ہیں حالانکہ اس مالی بحران میں ایٹمی طاقت ہونا کیا کام ہمیں دے سکتا ہے وہ ابھی تک ہم فیصلہ نہیں کر سکے۔ اور ڈالر نہیں‘ یقین تو ہے حالانکہ سوچ کے اُفق تھوڑا سا دھندلا گئے ہیں اور ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارا یقین کس بات پر ہے۔
البتہ اس مالی بحران میں دو اچھی چیزیں ہوئی ہیں۔ ایک تو ہندوستان کا ذکر سننے میں کہیں نہیں آ رہا۔ یوں سمجھیے مالی بحران وہ درگت ملک کی بنا رہا ہے کہ ہم ہندوستان کو بھول گئے ہیں۔ دوسری اچھی بات یہ ہے کہ نظریات کا ذکر قومی گفتگو سے غائب ہو چکا ہے۔ یہ سننے میں نہیں آ رہا کہ اگر نظریات کی رسی مضبوطی سے تھامیں رکھیں تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ شکر ہے اس گفتگو سے تو جان چھوٹی۔ اب قومی اعصاب پر نہ ہندوستان سوار ہے نہ ہمارے نظریات۔ اب ایک ہی چیز سوار ہے‘ ہمارا بیچارہ کشکول‘ جو بنا تو مضبوط لوہے کا تھا لیکن اب ہار ماننے کے قریب پہنچ چکا ہے کیونکہ اس میں کسی چیز کے پڑنے کی کھنکار آنا تقریباً بند ہو چکی ہے۔ دیہات اور محلوں میں یہ ہوتا رہتا ہے کہ کسی فرد یا خاندان کی مالی حالت بہت خراب ہو جائے تو قریب کے دکاندار ادھار دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ جس ملک کے بارے میں ہم کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مقصد کے لیے یہ ملک بنایا ہے‘ اب اس حالت کو پہنچ چکا ہے۔ آس پاس کے دکاندار کچھ دینے سے انکاری نہ ہوں تو کم از کم تنگ آ چکے ہیں۔
اور تو کسی چیز میں ہم عقلمند نہیں نکلے لیکن اتنی سمجھ آ گئی تھی کہ یہاں کچھ ہونا نہیں‘ اس لیے بہت پہلے نسخے تجویز کرنے کے کام سے ہم نے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ پر کیا کریں‘ رہنا یہیں ہے‘ جب تک چلتا ہے چلائیں گے۔ اتنی خوش قسمتی ضرور ہے کہ فضولیات کے لیے کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کیونکہ اب امید پہ نہیں جی رہے‘ فضولیات پر گزارہ ہو رہا ہے۔ فضولیات چلی جائیں تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ یہ افسردگی بھری شامیں اور فضولیات کا سہارا نہ ہو تو انسان کہاں جائے۔ شکرہے اُس پروردگار کا جس نے ہر بندے کی ضرورت کے مطابق کچھ نہ کچھ پیدا کیا ہوا ہے۔ کون سی چیز اس دنیا میں ہے جو خدا کی دین نہیں؟ سچ پوچھئے تو کچھ ہماری فضولیات ایسی ہیں کہ آسمانوں کی عظمت کی دلیل ان میں پنہاں ہے۔ مزید کیا کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال ایک لحاظ سے ہم جو اس عمر میں ہیں‘ ہماری پوزیشن آج کے نوجوانوں سے ایک لحاظ سے بہتر ہے۔ نوجوان تو یہی کچھ دیکھ رہے ہیں جو ان کے سامنے ہے یا جس سے گزر رہے ہیں۔ ہم کچھ سمجھ سکتے ہیں کہ گزرے سالوں میں جو کچھ ہم کرتے رہے‘ آج کے حالات ہماری کرتوتوں اور ہماری وارداتوں کا منطقی نتیجہ ہیں۔ یعنی آج کے حالات ویسے ہی کہیں سے نازل نہیں ہوئے۔ اجتماعی طور پر یہ ہماری کمال مہارت تھی کہ آج کے حالات ممکن بنے۔ ان حالات کا سہرا کسی اور کے سر نہیں ہمارے سر ہی ہے۔
ایک اور چیز کا رونا بھی رو لیں‘ مرزا غالب اور دیگر شعرا کے ہاتھوں جو عظیم اردو شاعری مرتب ہوئی‘ یہ اس زمانے کی دین تھی جب ہندوستان نیچے کو پہنچ چکا تھا اور غیرملکی تسلط اس پر قائم ہو رہا تھا۔ پاکستانی تاریخ میں بھی سب سے اچھی شاعری تب لکھی گئی جب استبداد کا راج تھا‘ کبھی ایوب خان کی اور کبھی کسی اور کی آمریت۔ فیض صاحب کی شاعری‘ جالب کی نظمیں جبرواستبداد کے زمانوں کی پیداوار ہیں۔ آج کا قحط دیکھیے کہ کچھ خاص نہیں لکھا جا رہا۔ آج کا کوئی فیض احمد فیضؔ نہیں‘ کوئی منیر نیازی اور جالبؔ نہیں۔ لیکن یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور میرج ہالوں کا جبر و استبدادکسی آمریت کی رعونت سے کم نہیں۔ آمریتوں میں زبانوں پر تالے لگ سکتے ہیں لیکن ذہن اپنی اڑان اڑنے میں آزاد ہوتے ہیں۔ نہ صرف آزاد ہوتے ہیں بلکہ ان حالات میں تصوراتی اڑان کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور شادی ہالوں کے جبرواستبداد کا اثر ذہنوں پر پڑتا ہے۔ ذہن موقوف ہو جاتے ہیں‘ سوچ کی اڑان رک جاتی ہے۔ یہی کچھ یہاں ہو چکا ہے۔ کلچرل لحاظ سے ہم ایک مردہ معاشرہ بن چکے ہیں اور ہمارے نئے دیوتا ان سوسائٹیوں اور ہالوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور مختلف انداز سے قوم ان دیوتاؤں کو سلام بھی کرتی ہے۔ ایسے میں کس چیز کو آپ روئیں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved