تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     21-01-2023

دولت کی منصفانہ تقسیم کیوں ضروری ہے؟

وطنِ عزیز سمیت دنیا بھر میں عدم مساوات ایک خوفناک ترین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ کسی بھی سماج میں عدم مساوات اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم سے غربت بڑھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ عدم مساوات پر مبنی سماجی اور معاشی نظام میں دولت عام صارف کے ہاتھ سے نکل کر ان ہاتھوں میں مرتکز ہوتی ہے جو پہلے سے دولت مند ہوتے ہیں۔ یا ان کے پاس اپنی ضروریات سے زائد دولت ہوتی ہے۔ صارف اپنی روزمرہ کی بنیادی ضروریات جیسے آٹا‘ چینی اور زندگی کو بچانے والی ادویات کی خریداری پر مجبور ہوتا ہے۔ اپنی اور اپنے خاندان کی یہ ناگزیر ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے ہر حال میں پیسے کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ خواہ وہ یہ پیسہ انتہائی دشوار اور غیرانسانی ماحول میں جان توڑ مزدوری سے حاصل کرے‘ کسی سے قرض لے یا کوئی اور ذریعہ اختیار کرے۔ اور یہ پیسہ ضروریاتِ زندگی کی خریداری کے بدلے آخر میں ان افراد تک ہی جاتا ہے جن کے پاس پہلے سے بہت دولت ہے۔ آمدن اور دولت میں عدم مساوات مساوی مواقع کو متاثر کرتی ہے‘ چونکہ اس میں کم خوش قسمت طبقات کو تعلیم‘ صحت اور معاشی خوشحالی کے مواقع میں برابری میسر نہیں ہوتی۔ اس وقت پاکستان میں عدم مساوات ایک گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان میں پہلے سے امیر طبقات کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی عدم مساوات میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ چند سال پہلے کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں دس فیصد امیر ترین لوگ کل ملکی آمدنی کے ساٹھ فیصد کے مالک ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ملک میں ساٹھ فیصد لوگ ایسے ہیں‘ جن کا ملک کی کل آمدن میں حصہ دس فیصد سے بھی کم ہے۔ اس طرح غربت کا دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
ایک سماج میں دولت جتنی منصفانہ طریقے سے تقسیم ہوگی‘ اتنا ہی غربت میں کمی واقع ہوگی۔ لیکن پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے۔ یہ اسی ارتکاز کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے ساٹھ فیصد لوگ کل ملکی دولت کے صرف دس فیصد کے مالک ہیں۔ اور دس فیصد کل دولت کے ساٹھ فیصد کے مالک ہیں۔ اس طرح پاکستان دولت کے ارتکاز میں دنیا کے ان سترہ ملکوں سے بھی آگے ہے‘ جن میں دولت کا ارتکاز ہے‘ خوفناک طبقاتی تقسیم ہے اور وہاں کے دس فیصد لوگ کل دولت کے پچاس فیصد کے مالک ہیں۔ پاکستان میں قومی سطح کے علاوہ اگر علاقائی سطح پر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اور گہری ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر بلوچستان میں صورتحال یہ ہے کہ دس فیصد دولت مند 65فیصد دولت کے مالک ہیں۔ یہاں پانچ فیصد لوگ 54 فیصد دولت کے مالک ہیں اور ایک فیصد لوگ ایسے ہیں‘ جو کل دولت کے 32 فیصد کے مالک ہیں۔ جبکہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے ساٹھ فیصد لوگ دس فیصد دولت کے مالک ہیں۔ دوسری طرف اعداد و شمار اس بات کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ دولت کی منصفانہ تقسیم غربت کے خاتمے میں مدد دیتی ہے۔ چونکہ غریب لوگوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر کے قریب ہوتی ہے‘ اس لیے دولت اور آمدن کی منصفانہ تقسیم ان کو غربت کی یہ لکیر پار کرکے دوسری طرف جانے میں مدد دیتی ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور اس کی وجہ سے غربت صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ یہ مسئلہ بھارت میں بھی سنگین شکل میں بڑھ رہا‘ جو ہمارے خطے میں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ اس سلسلے میں آکسفیم کی ایک نئی رپورٹ بہت اہم ہے جو حال ہی میں بی بی سی نے بھی اپنے ایک آرٹیکل میں شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2021ء میں انڈیا کی مجموعی دولت کا 40.5 فیصد سے زیادہ حصہ ملک کے صرف ایک فیصد دولت مندوں کی ملکیت میں گیا ہے جبکہ غریب طبقہ زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022ء میں ملک میں ارب پتیوں کی تعداد 102 سے بڑھ کر 166 ہو گئی جبکہ غریب طبقہ زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات پوری کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
سروائیول آف دی ریچسٹ نام کی اس رپورٹ میں بھارت میں دولت کی تقسیم کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا کہ 2012ء سے 2021ء تک ملک میں آنے والی چالیس فیصد سے زیادہ دولت صرف ایک فیصد آبادی کے ہاتھوں میں مرتکز ہوئی‘ جبکہ اس دولت کا صرف تین فیصد نچلی سطح کی پچاس فیصد آبادی تک پہنچ سکا۔ 2022ء میں بھارت کے امیر ترین شخص گوتم اڈانی کی دولت میں چھیالس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ایک سو امیر ترین افراد کی مشترکہ دولت 660 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ 2022ء میں اڈانی بلومبرگ کے دولت کے انڈیکس میں دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص قرار پائے تھے۔ وہ ان لوگوں کی فہرست میں بھی سرفہرست رہے جن کی دولت میں عالمی سطح پر اس سال سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ آکسفیم نے کہا ہے کہ ملک کے غریب اور متوسط طبقے پر امیروں کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ملک میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس کا تقریباً 64فیصد نیچے کی 50فیصد آبادی سے آیا جبکہ صرف چار فیصد‘ دس فیصد دولت مندوں سے آیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق آکسفیم انڈیا کے سی ای او امیتابھ بہار نے کہا کہ بدقسمتی سے انڈیا تیزی سے صرف امیروں کا ملک بننے کے راستے گامزن پر ہے۔ بھارت کے پسماندہ طبقات ایک ایسے نظام میں مسلسل مشکلات کا شکار ہیں جو امیر ترین لوگوں کی بقا یا ان کے مفادات کو یقینی بناتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق فی الحال صرف دولت مند لوگ کم کارپوریٹ ٹیکس‘ ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر مناسب ٹیکس لگائے جائیں تو ملک کے ارب پتیوں کی پوری دولت پر محض دو فیصد ٹیکس اگلے تین سالوں تک بھارت کی غذائی قلت کی شکار آبادی کی بھوک مٹانے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ اور صرف ایک سو بھارتی ارب پتیوں پر2.5 فیصد ٹیکس لگانے سے تقریباً ایک سو پچاس ملین بچوں کو سکول میں واپس لانے کے لیے جو رقم درکار ہے‘ وہ حاصل ہو سکتی ہے۔ آکسفیم انٹرنیشنل کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر گیبریلا بوچر نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس افسانے یا نظریے کو ختم کر دیں کہ دولت مند لوگوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے سے کسی نہ کسی طرح نچلی سطح کے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدم مساوات کو کم کرنے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے دولت مندوں پر ٹیکس لگانا ضروری ہے۔ یہ اعداد وشمار بھارت کے ہیں‘ لیکن ان سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں وہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک پر صادق آتے ہیں۔ ٹیکس سرمایہ داری نظام اور نیو لبرل ازم کے اندر طبقاتی تقسیم کو کم کرنے کا ایک معلوم طریقہ ہے‘ بشرطیکہ ٹیکس کے ذریعے جمع کی گئی دولت کو غریب اور پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ مگر کسی بھی سماج میں دولت کی منصفانہ تقسیم اور آبادی کی ہر پرت کو برابر کے مواقع مہیا کیے بغیر عدم مساوات کے خوفناک مسئلے کا مستقل حل نہیں نکالا جا سکتا۔ اس کے لیے سماجی و معاشی ڈھانچے میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved