گزشتہ کئی مہینوں سے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا شور تھا، متعدد بار بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوا مگر بعد میں ان انتخابات کو ملتوی کر دیا گیا۔ سب سے زیادہ جماعت اسلامی یہ چاہتی تھی کہ بلدیاتی انتخابات ہوں اور اقتدار عوام کے نمائندوں کو منتقل ہو جائے۔ بلدیاتی حکومتیں اگر اختیارات رکھتی ہوں تو عوام کی قسمت بدل سکتی ہیں، مگر پاکستان میں نہ تو بلدیاتی حکومتیں بااختیار ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس مناسب فنڈز ہوتے ہیں کہ وہ عوام کے لیے کچھ کر سکیں۔ کراچی میں بلدیاتی انتخاب سے بہت سی جماعتیں اور بہت سے سٹیک ہولڈرز بھاگ رہے تھے مگر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے اس حوالے سے عدالت سے رجوع کیا، بالخصوص جماعت اسلامی نے بہت محنت کی اور سب کو یہی لگ رہا تھا کہ اس بار کراچی کے مقامی انتخابات میں میدان جماعت اسلامی ہی مارے گی۔ اس سے پہلے بھی کراچی کی مقامی حکومتوں میں جماعت اسلامی کے کئی بڑے نام گزرے ہیں جنہوں نے شہرِ قائد کی بہت خدمت کی۔ ان میں نعمت اللہ خان کا نام سرفہرست ہے۔ عبدالستار افغانی کو بھی لوگ اب تک یاد کرتے ہیں۔ اس بار جب حافظ نعیم الرحمن میدان میں اترے تو انہوں نے خوب محنت کی۔ ڈور ٹو ڈور کمپین کی، عوام میں گھل مل گئے، ان کی داد رسی کی اور یہ سب میئرشپ کی دوڑ سے پہلے بھی ہورہا تھا۔ جماعت اسلامی جہاں بہت منظم ہے‘ وہاں ان کے فلاحی ادارے بھی عوام کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ جماعت سیاست سے زیادہ فلاحی کاموں اور دین کی ترویج میں مصروف رہتی ہے اور میری ذاتی خواہش ہے کہ ایسے دیندار اور پڑھے لکھے لوگ سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔
حافظ نعیم الرحمن عوامی سیاست دان ہیں‘ وہ ہر جگہ عوام کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ بہت سے خاموش ووٹرز اس لیے بھی جماعت اسلامی کو ووٹ دیتے ہیں کہ یہ ایک دینی جماعت ہے اور دینی تعلیمات کی نشرو اشاعت اور ترویج میں سرگرم رہتی ہے۔ اگر ہم کراچی کی دیگر جماعتوں کی طرف دیکھیں تو اردو سپیکنگ طبقے کے زیادہ تر لوگ ایم کیوایم اور اس کے مختلف دھڑوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اب ایم کیو ایم کے تمام دھڑے بظاہر متحد ہو چکے ہیں مگر اچانک یہ جماعت بلدیاتی انتخابات سے پیچھے ہٹ گئی۔ یہ ایک عجیب فیصلہ تھا کیونکہ انتخابی عمل سے پیچھے ہٹ جانا جمہوری نظام اور سیاسی جدوجہد کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ملکی تاریخ میں کوئی بھی جماعت آج تک الیکشن کے بائیکاٹ سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکی۔ جن بھی جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا‘ ان کا فیصلہ بعد میں غلط ہی ثابت ہوا؛ تاہم ایم کیو ایم نے اگر یہ فیصلہ کیا تھا تو ضرور اس کے پیچھے کوئی حکمتِ عملی ہو گی۔ البتہ جب ایم کیوایم انتخابی عمل سے پیچھے ہٹی تو یہ امکان روشن ہوگیا کہ اب جماعت اسلامی کراچی میں واضح اکثریت حاصل کر لے گی کیونکہ یہ جماعت کراچی میں کافی عرصے سے بھرپور مہم چلائے ہوئے تھی اور عوامی خدمت میں بھی پیش پیش تھی۔ دیگر جماعتوں بالخصوص ایم کیوایم، این اے پی، (ن) لیگ اور جے یو آئی ایف کی بلدیاتی انتخابات میں عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ مقابلہ صرف پی پی پی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے درمیان تھا؛ تاہم پی ٹی آئی ان انتخابات میں تیاری کے ساتھ نہیں اتری۔ شاید وہاں پر یہ جماعت متحد نہیں ہے اور اگر یہی حال رہا تو عام انتخابات میں کیا ہوگا‘ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ کچھ دن کراچی میں قیام کریں اور سندھ میں پی ٹی آئی کے تنظیمی سٹرکچر پر نظرِثانی کریں۔
تحریک انصاف کی کراچی میں کارکردگی بالخصوص بلدیاتی الیکشن میں پرفارمنس بالکل بھی متاثر کن نہیں رہی۔ الیکشن کے بعد یہ کہہ دینا کہ ہماری تیاری نہیں تھی‘ ووٹرز اور عوام کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ ہر جماعت کو ہر الیکشن میں حصہ لینا چاہیے‘ جمہوری عمل میں سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی بہت افسوسناک ہے۔ ادھر پنجاب کی کرسی کے لیے تو گھمسان کا رن پڑا رہا لیکن کراچی جیسے بڑے شہر کی میئر شپ میں عدم دلچسپی پر مجھے ایم کیو ایم، اے این پی اور مسلم لیگ (ن) پر شدید حیرت ہے۔ البتہ جماعت اسلامی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس سے یہ امید بھی ابھری ہے کہ اگر آئندہ عام انتخابات شفاف طریقے سے ہوئے تو جماعت اسلامی ایک بار پھر بڑی قوت بن کر وفاق اور صوبوں میں چھا جائے گی۔ حالیہ سیلاب میں جماعت اسلامی کی رفاہی تنظیم نے بہت کام کیا اور ہر کسی نے اس کی تحسین کی۔ یہ فلاحی جماعت عوام کی امداد اور چندوں پر ہی چل رہی ہے اور یہ عوام کا اعتماد ہے جو وہ جماعت اسلامی پر کرتے ہیں‘ ورنہ اب زیادہ تر لوگ سیاسی جماعتوں سے دور رہتے ہیں اور انتخابی عمل سے بھی قدرت فاصلہ رکھتے ہیں۔ وہ روٹی‘ کپڑا اور مکان کی دوڑ میں پھنسے ہوئے ہیں بلکہ اب ان چیزوں کا حصول بھی ان کے لیے مشکل تر ہو گیا ہے۔
جب کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے تو جماعت اسلامی کا پلڑا بھاری تھا لیکن پھر گیم تبدیل ہوگئی اور سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات میں میدان مارنے لگی۔ ضرور عوام اس کی کارکردگی سے خوش ہوں گے‘ اسی لیے اس کو مینڈیٹ ملا؛ تاہم اس کے سیاسی حریف اس پر دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ویسے ہماری سیاسی روایت یہی رہی ہے کہ جس صوبے میں جس جماعت کی حکومت ہو‘ وہیں الیکشنز میں اسی جماعت کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ عوام تو خیر کسی کھاتے میں آتے ہی نہیں۔ ایک مدت ہوئی‘ ان کا مینڈیٹ چوری ہورہا ہے‘ وہ ووٹ کسی اور کودیتے ہیں اور نکلتا کسی اور کے نام ہے۔ جب تک ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا جائے گا‘ معاملات حل نہیں ہوں گے۔ سب کا اپنا اپنا مینڈیٹ اور اپنا اپنا حلقۂ اثر ہے۔ بلاشبہ اندرونِ سندھ میں پیپلز پارٹی بہت بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے مگر حیرت مجھے اس چیز پر ہوئی کہ جماعت اسلامی کی جیت کو ہار میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ کراچی میں اس کی محنت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے اس کو ووٹ دیا‘ پھر بھی اس کا بھاری اکثریت سے نہ جیتنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا اور انتخابی عمل پر شکوک و شبہات اٹھاتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ابھی تک معاملہ حل نہیں ہوا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ آر اوز کی طرف سے دھاندلی کی گئی۔ فارم 11 اور فارم 13 میں نتیجہ مختلف ہے۔ ڈھائی سال بعد شہر میں الیکشن ہوا‘ وہ بھی لگ بھگ سات بار ملتوی ہونے کے بعد‘اس پربھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب پی پی پی اورجماعت اسلامی کے درمیان اتحاد کے لیے مذاکرات بھی ہورہے ہیں‘ امید ہے کہ جلد ہی کوئی اچھا نتیجہ نکل آئے گا اور یہ دونوں جماعتیں مل کر کام کریں گی۔اس وقت کراچی کی ترقی کے لیے کام کرنا بہت ضروری ہے۔ کسی دور میں مسلم لیگ (ن) ایک وفاقی جماعت سمجھی جاتی تھی مگر اب اس کا گڑھ پنجاب بھی اس کا نہیں رہا۔ اس بار تو کسی نہ کسی طرح وہ وفاق میں حکومت بنانے اور وزارتِ عظمیٰ سمیت اہم وزارتیں لینے میں کامیاب رہی مگر اس کی سیاست کہاں جارہی ہے‘ اس کو وہ بہتر جانتی ہے۔ مسلم لیگ ایک بڑی سیاسی جماعت ہے‘ پس پردہ رہ کر ڈیل کرنے کے بجائے اس کو آن گرائونڈ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی قیادت کو باہر بیٹھنے کے بجائے ملک میں واپس آنا چاہیے ورنہ اس کا نظریاتی ووٹر اس سے ناراض ہوجائے گا۔
کراچی کے نئے سیاسی منظرنامے میں اس وقت دوسٹیک ہولڈرز‘ پی پی پی اور جماعت اسلامی سامنے آئے ہیں۔ ان کے مابین مذاکرات اور ملاقاتیں ہورہی ہیں؛ تاہم ابھی تک کچھ فائنل نہیں ہوسکا۔ بلدیاتی حکومتوں کے پاس زیادہ اختیارات اور فنڈز نہیں ہوتے‘ اس لیے مل جل کر کام کرنے ہی میں بہتری ہے۔ کراچی اس وقت مختلف النوع مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ روشنیوں کا شہر غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگاری‘بدامنی‘ آلودگی اور انفراسٹرکچر کی تباہی کا شکار ہے۔ ان مسائل کا حل جلد نکالنا ہوگا، خاص طور پر سٹریٹ کرائمز نے عوام کا امن و سکون برباد کردیا ہے‘ اس کو آہنی ہاتھوں فوری روکنا ہوگا۔ تمام جماعتیں مل کر بیٹھیں اور شہرِ قائد کو درپیش مسائل کا حل نکالیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved