تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     22-01-2023

سب کچھ ایک ہی خاندان کے اندر!

درست ہے کہ معیشت کا دھڑن تختہ ہورہا ہے لیکن کیا کیا جائے‘ وزیر خزانہ نواز شریف کے سمدھی ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کی کوئی من گھڑت خبر نہیں۔ حزبِ اختلاف یہاں کوئی سیاسی نمبر بنانے کی کوشش نہیں کر رہی۔ یہ ٹرولنگ بھی نہیں۔ یہ پی ڈی ایم کے سابق وزیر خزانہ کا پی ڈی ایم کے موجودہ وزیر خزانہ کے بارے میں فرمودہ ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پارٹی رکن کی جانب سے غصے کی حالت میں دیا گیا بیان ہو لیکن یہ اس جماعت کی حقیقت حال کی واضح عکاسی کرتا ہے جو سیاسی طور پر شریف خاندان اور کمپنی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔پیپلز پارٹی بھی ایک خاندان پر بنیاد رکھنے والی جماعت ہے جو ایک باپ‘ بیٹی‘ شوہر اور بیٹے کے گرد گھومتی ہے۔ حتیٰ کہ چھوٹی جماعتیں‘ جیسا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اے این پی نے بھی اپنے وارثوں کو سیاسی مسند پر بٹھا دیا ہے۔
اس کا دفاع یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک ازکارِ رفتہ جواز ہے۔ اگر کہیں غلط ہو رہا ہے تو پاکستان اس کی پیروی کرنے پر کیوں مجبور ہے۔ نیز دیگر ممالک اس روایت کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی اگرچہ انتہا پسندانہ سوچ رکھتے ہیں لیکن ان کی کامیابی ایک ایسے چائے فروش لڑکے کی کہانی ہے جس نے راہول گاندھی کی موروثی سیاست کو چیلنج کیا۔ سری لنکا میں راجہ پاکسے خاندان کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ اب ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ شریف خاندان کے فرار کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ خاندان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان کی جمہوری تاریخ بڑی حد تک دو خاندانوں کی موروثی سیاست کا ٹکراؤ بن کر رہ گئی تھی۔ طویل عرصے تک اس صورتحال کے تسلسل نے ملک کی ترقی کو شدید زک پہنچائی۔ صرف ایک تیسری پارٹی کے میدان میں آنے کی وجہ سے ہی ان خاندانوں کے سیاسی تسلط پر سوالات اٹھنا شروع ہوئے ہیں۔ دو خاندانوں کی بلاشرکت غیرے سیاسی اجارہ داری کے بہت سے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
1۔ کم درجے کی برائی کی قبولیت: ایک ایسا ملک جس پر تین دہائیوں تک آمریت کے سائے لہراتے رہے ہوں وہ یقینا آئندہ کے لیے آمریت سے چوکنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود خاندانی ملکیت میں قائم ہونے والی حکومتوں کے جمہوری تاثر کوقبول کر لیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی پانچ بار حکومت میں رہی جب کہ مسلم لیگ (ن) کا مرکز میں یہ چوتھا دور ہے۔ وہ ہمیشہ ناقص حکمرانی‘ بدعنوانی اور نااہلی کے نمونے رہے ہیں۔ تاہم غیر آئینی مداخلت کی وجہ سے اپنی مدت پوری نہ کر سکنے کی دلیل کے پیچھے پناہ لیتے رہے۔ آخر کار 2008ء سے 2018ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)‘ دونوں کو پورے پانچ پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران ان کی کارکردگی اور حکمرانی مزید مایوس کن رہی۔ یہی وجہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں انہیں تحریک انصاف نے شکست سے دوچار کیا۔ آخرکار لوگوں کو جمہوری فریم ورک کے اندر ایک حقیقی متبادل مل گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے ایک طاقتور کی مدد سے تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے بے دخل کیا تھا لیکن اس نے ان کی ناقص کارکردگی کے آخری جواز کو بھی ملیا میٹ کردیا۔ انہوں نے نو ماہ میں پاکستان کی معیشت کو جس تباہی سے دوچار کیا ہے‘ کسی نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ یقینا یہ بہت خطرناک قیمت ہے جو ملک نے چکائی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے اس بیانیے کی بھی موت واقع ہوگئی کہ وہ غیر آئینی مداخلت کی وجہ سے کارکردگی نہیں دکھا پائے تھے۔
2۔ خاندان کی تیسری نسل کی ناکامی: کاروباری دنیا میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ خاندان سے چلنے والے کاروبار تبھی ترقی کرتے ہیں جب ملکیت میرٹ کی بنیاد پر غیر خاندانی افراد کے ساتھ شیئر کی جائے۔ مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ خاندانی کاروبار تیسری نسل کو منتقل کرنے کے بعد ناکام ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ نئی نسل دو اہم وجوہات کی بنا پر کارکردگی نہیں دکھا سکتی۔ سب سے پہلے اس لیے کہ انہوں نے کاروبار کو شروع سے نہیں بنایا ہوتا۔ وہ اپنے بزرگوں کی طرح کٹھن مشق سے گزرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ عیش و عشرت میں پیدا ہوتے ہیں اور اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ دوم وہ کاروبار کو سنبھالنا نہیں چاہتے جیسا کہ ان کے اجداد نے کیا تھا۔ اس طرح انتظامی امور تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں جو علیحدگی اور بندش کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستانی سیاست خاص طور پر دیہی علاقوں میں ''برادری‘‘ کے نظام پر مبنی ہے۔ وہاں سیاسی خاندان کئی دہائیوں سے اپنے دیہی ووٹروں کو کنٹرول کرتے رہے ہیں۔ تاہم شریف خاندان مقامی اور بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اپنے روابط کی وجہ سے اونچے عہدے اپنے قبضے میں رکھتا ہے۔ سابق گورنر پنجاب غلام جیلانی اور صدر ضیاء الحق کے ساتھ راہ ورسم بڑھاتے ہوئے نواز شریف 80ء کی دہائی میں پنجاب کے وزیر خزانہ‘ وزیراعلیٰ اور آخر کار 1992ء میں وزیراعظم پاکستان بنے۔ چونکہ یہ عہدے بڑے لوگوں کے ساتھ ان کے خاندانی روابط کا نتیجہ تھے‘ اس لیے انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزارتِ اعلیٰ دے دی۔ اس وقت سے لے کر اب تک سیاسی وراثت مریم نواز کو منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم تمام خاندانی اداروں کی طرح اب دوسری نسل کے کزن یعنی حمزہ بمقابلہ مریم کے درمیان تنازع ہے جس نے پارٹی کو کئی گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ بھٹو خاندان کی میراث بھی ایسی ہی ہے۔ بینظیر بھٹو نے اپنے شوہر اور بیٹے بلاول کو وصیت میں پارٹی دے دی۔ پی پی پی ایک مثال ہے کہ کس طرح کاروباری سلطنتوں کی طرح سیاسی سلطنتیں بھی ناکام ہو جاتی ہیں جب خاندانوں کو ایسی ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں جن کا انہوں نے انتخاب نہیں کیا یا اُن میں ان کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں تھی۔
3۔ استحقاق کا مرض: کسی چیز کا تسلسل اسے معمول اور روایت کا درجہ دے دیتا ہے۔ تقریباً یہی سمجھا جاتا تھا کہ ذوالفقار بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو اور بینظیر بھٹو کے بعد بلاول ہوگا۔ بھٹو کا ''سدا جیوے‘‘ کا نعرہ دو نسلوں تک زندہ رہا لیکن اس کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب بلاول زرداری کو اپنی والدہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھٹو کا لبادہ اُوڑھا دیا گیا۔ زمانہ بدل گیا۔ پاکستان کی اگلی نسل پرانے زمانے کی نسل نہیں۔ وہ اس حقیقت پر سوال اور مذاق اڑاتے ہیں کہ مریم اور بلاول یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ وہ پیسے‘ مراعات‘ عہدے اور ووٹ کے پیدائشی طور پر حق دار ہیں۔ عوام اور میڈیا نے نواز شریف سے عوام کا پیسہ ان کے خاندان کے پروٹوکول کے لیے استعمال کرنے پر سوالات شروع کیے تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ میری حکومت ہے‘ آپ کون ہیں پوچھنے والے۔ جب بلاول نیویارک گئے اور کئی دن غائب رہے تو لوگوں نے پوچھا کہ وزیر خارجہ کہاں ہیں اور سرکاری دورے پر کیسے غائب ہو سکتے ہیں۔ سوالات اٹھانے کی نئی روایت نے شریفوں اور بھٹوؤں کو پریشان کر دیا ہے۔ وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خاندان حکومت کے مالک ہیں اور یوں وہ ہر طرح کے استحقاق کے حق دار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بالکل پریشان نہیں ہوتے کہ وہ ٹیکس دہندگان کے پیسے خرچ کررہے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور قوم کو اس طویل سیاسی روایت کو قبول کرنا چاہیے۔ آج کے دور میں اس سے زیادہ بے سروپا بات اور کیا ہو سکتی ہے!
پارٹی کے ارکان کی ذہنیت بھی اطاعت گزاری کی طرف مائل کردی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے بھی بھٹو خاندان کی روایات کے سامنے جھکنا قبول کیا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں نے مریم نواز کی پارٹی کے سینئر نائب صدر کے طور پر تقرری کے سامنے سر جھکا دیا۔ خاندانوں کے سلسلۂ نسب کے سامنے اس طرح ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے یہ جماعتیں پھیلنے کے بجائے سمٹنے لگی ہیں۔ پیپلز پارٹی اب کراچی سے عملی طور پر مٹ چکی ہے اور صرف دیہی سندھ کی جماعت ہے۔ مسلم لیگ (ن) جو کہ بنیادی طور پر پنجاب کی جماعت تھی‘ اب اسے اپنے بنیادی حلقوں میں بھی قدم رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ تیسری نسل کا اصول کام کر رہا ہے۔ جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے لیے آپ کو ایک چائے والا ‘ بس ڈرائیور کا بیٹا‘ ایک کرکٹر ہونا چاہیے جس کے پاس پارٹی کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کا موقع ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ پارٹی کے اندر انتخابات اور پارٹی قوانین میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی۔ اب وقت آگیا ہے کہ طاقتور حلقے (عوام) ووٹ کی طاقت سے ان جعلی جمہوریوں کو سیاسی میدان سے نکال باہر کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved