’’زرداری صاحب !ہماری شکست کی وجہ آپ ہیں، اگر آپ سیاست کو سمجھ پاتے تو ہم الیکشن جیت کر آپ کے سامنے بیٹھے ہوتے‘‘۔ تند اور تلخ لہجے میں کہی گئی اس بات نے آصف علی زرداری اور زرداری ہاؤس کے ہال میں موجود تمام لوگوں کو چونکا دیا۔ یہ خیال اگرچہ وہاں بیٹھے کئی لوگوں کے ذہن میں تھا لیکن اس طرح کوئی کھُل کر کہہ ڈالے گا، یہ کسی نے سوچا نہیںتھا۔ ’’جو جیت چکے ہیں ان کی رائے بھی آپ نے معلوم کرلی ہوتی تو مناسب تھا، ویسے آپ بتائیے تو سہی کہ آپ مجھے شکست کا ذمہ دار کیوں سمجھتے ہیں؟ـ‘ ‘زرداری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کرکہا۔ ’’اس لیے کہ آپ نے میاں نواز شریف کو انتخابی مہم میں اپنا مخالف سمجھا ہی نہیںبلکہ الیکشن سے کچھ پہلے آپ رائے ونڈ بھی چلے گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے یہ جانا کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں شریف برادران کے ساتھ صلح کر لی ہے‘‘۔ کہنے والے کی دلیل وزنی تھی اور ساری نظریں اب آصف علی زرداری پر لگی تھیں کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں لیکن اس طرف صرف انگریزی محاورے کے مطابق ایک کھلی مسکراہٹ تھی۔اس اجلاس میں زیادہ تر وہی لوگ تھے جو 2008ء کا الیکشن کچھ ہی دن پہلے ہارچکے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت، کچھ پرانے کارکنوں کو شکست کا صدمہ اور کچھ آصف علی زرداری کے مختلف طرزِقیادت کی وجہ سے‘ کھُل کر تحفظات کا اظہار کررہے تھے۔ کسی پارٹی راہنما پر کم فہمی کی وجہ سے الیکشن ہار دینے کا الزام ایسا نہیں جسے آسانی سے برداشت کیا جاسکے ، لیکن زرداری نے یہ الزام نہ صرف برداشت کر لیا بلکہ کہنے والے کو بعد میں اپنے قریب بھی رکھا۔ اس الیکشن کے نتائج نے پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی تو بنا دیا تھا لیکن یہ اکثریتی جماعت نہیں بن پائی تھی۔ زرداری صاحب کی قیادت پر کارکنوں کا اعتماد پختہ نہ تھا اور نہ ہی دیگر سیاستدانوں کو اندازہ تھا کہ ان کے ساتھ معاملات کیسے آگے بڑھیں گے۔ مفاہمت کا مطلب ابھی پارٹی کارکنوں کو معلوم تھا اور نہ ہی سیاسی جماعتیں اس نظریے سے کچھ اخذ کرپارہی تھیں۔ بدلے ہوئے حالات میں انہیں نئے لائحہ عمل کے تحت آگے بڑھنا اور کارکنوں کو بڑھانا تھا۔ یہ سب کچھ کیسے ہو گا ، اس کا سوائے آصف علی زرداری کے کسی کو علم نہیں تھا۔ ایک مسکراہٹ تھی جس کے پیچھے سب کچھ چھپا ہوا تھا۔ آصف علی زرداری نے کچھ عرصے بعدگورنر پنجاب سلمان تاثیر مرحوم کو اپنی مسکراہٹ میں چھپے منصوبے کے اگلے مرحلے سے آگاہ کیا۔ہوا یوں کہ 5جولائی 2008ء کو پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس دبئی میں ہونا تھا۔ اجلاس میں شرکت کے لیے سلمان تاثیر بھی وہیں تھے۔ اگلے دن 6جولائی کو زرداری صاحب نے انہیں بتایا کہ جنرل مشرف پیپلزپارٹی حکومت کو نہیں چلنے دیں گے اور نہ جمہوریت کو، اس لیے ان کا جانا ضروری ہے۔ سلمان تاثیر کا خیال اس کے برعکس تھا، ان کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف نے جس بنیاد پر اقتدار سنبھالا، وہ آج بھی اسی طرح قائم ہے اس لیے مشرف کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نظام کو تباہ کردے گی۔ تاثیر مرحوم کی دلیل کی بنیاد چند دن پہلے بھوربن میں ہونے والی ایک میٹنگ تھی جس میں صدر جنرل مشرف نے کچھ ایسی باتیں کی تھیں جو اس تاثر کی نفی کرتی تھیں کہ انہیں لانے والے ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ یہ سن کر آصف علی زرداری نے صرف اتنا کہا’’ تم دیکھ لینا ٹھیک دو مہینے کے اندر اندر مشرف صدارت چھوڑ دے گا‘‘۔ اس پر دونوں میں ایک دوستانہ شرط لگ گئی۔ سلمان تاثیر نے بات آگے بڑھائی ’’ پھر اگلا صدر کون ہوگا؟‘ ‘’’تم بتاؤ کسے ہونا چاہیے؟‘‘پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین نے جواب میں ایک سوال کردیا۔ سلمان تاثیر نے ممکنہ صدر کے خواص پر ایک لمبی تقریر کی اور چند ناموں کا ذکر بھی کردیا۔ اس پر آصف علی زرداری نے ہنستے ہوئے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر کہا:’’یار تمہیں میں نظر نہیں آتا‘‘۔ سلمان تاثیر یہ سن کر سناٹے میں آگئے، ان کے ذہن میں دور دور تک یہ خیال نہیں تھا کہ کبھی آصف علی زرداری بھی صدر بننے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ ان کی خاموشی کے دوران زرداری صاحب مسلسل مسکراتے رہے۔ آخر اپنے حواس مجتمع کرکے تاثیر نے کہا :’’آپ کے ساتھ ماضی کا بہت سا بوجھ ہے، اس بوجھ کے ساتھ اگر آپ صدارت سنبھالتے ہیں تو خواہ مخواہ مشکلات کھڑی ہوجائیں گی‘‘۔ زرداری کا کہنا تھا کہ میرے سواکوئی بھی صدر وہ دباؤ برداشت نہیں کرپائے گا جو اس پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پڑے گا۔ پھر آئین کو قصرِصدار ت کے پنجے سے چھڑا کر واپس پارلیمنٹ میں لانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی با اعتماد شخص ہی صدر ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آئین کو درست کرنے کے دوران ہی کوئی اٹھاون ٹو بی کا پستول تان کر کھڑا ہوجائے گا۔ سترہ اور اٹھارہ اگست کی درمیانی شب سلمان تاثیر کو زرداری صاحب کا فون آیا اور انہوں نے خبر سنائی کہ کل مشرف صدارت سے استعفٰی دے رہا ہے اور تم شرط ہار چکے ہو۔ تاثیر نے کہا ہارا نہیں ہوں ، ابھی فیصلے میں کچھ گھنٹے باقی ہیں۔ اگلے دن وہی ہوا جو زرداری نے فون پر بتایا تھا۔ صدر مشرف نے استعفیٰ دے دیا اور شرط کا فیصلہ ہوگیا۔ صدر آصف علی زرداری نے صدارتی امیدوار ہونے کا اعلان کیا تو کہرام برپا ہوگیا۔ ان کا ماضی کھنگال کھنگال کر ان کے دامن پر گندگی پوتنے کی کوشش ہوئی۔ پاکستان بھر میں اس خبر کو اگر کسی نے اطمینان سے سنا تو وہ میاں محمد نواز شریف تھے۔ انہوںنے مخالفت تو کی کیونکہ زرداری صاحب نے انہیں اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا تھا لیکن اپنی مخالفت کو جمہوری دائرے میں رکھتے ہوئے ان کے مقابلے میں اپنے صدارتی امیدوار کا اعلان کردیا۔ہوتے ہوتے 9ستمبر 2008ء کو آصف علی زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ سلمان تاثیر حیرت زدہ تھے کہ اتنی غیر یقینی سیاسی صورتحال میں کس طرح آصف علی زرداری نے دو مہینے کے اند ر اندر اپنے اہداف حاصل کرلیے تھے۔ گورنر پنجاب نے نو منتخب صدر کو فون پر مبارکباد دی اور شرط میں اپنی ہارتسلیم کرلی۔ نو منتخب صدر نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا’’وقت آنے پر شرط بھی پوری کروا لوں گا، ابھی مجھے کچھ اور کام کرنے ہیں‘‘۔ ان کاموں میں سر فہرست نظام حکومت میں صدر کے کردار کو محدود کرنے کے لیے دستوری ترمیم تھی۔ اس کام کی اہمیت کا اندازہ یوں لگائیے کہ اس میں رکاوٹیں ڈالنے اور پھر بعد میں اس کام کی تکمیل کی سزا دینے کے لیے جو کچھ ہوا‘ اس کا آغاز میمو گیٹ سکینڈل سے ہوا اور انتہا شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اسلام آباد میں سہ روزہ دھرنے میں ہوئی۔ پاکستان میں جمہوری استحکام کے ’ڈراؤنے‘ خواب نے ملک کے اندر اور باہر بہت سے لوگوں کی نیندیں حرام کررکھی تھیں۔اس خواب کی تعبیر کے لیے صدر زرداری نے سامنے اور نواز شریف نے پس پردہ رہ کر جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ نوکیلے پتھروں سے بھرے اس راستے پر چلتے ہوئے ان دونوں نے خاصا سیاسی نقصان اٹھایا لیکن اس کا فائدہ آج پوری قوم اٹھا رہی ہے۔ اسلام آباد سے واشنگٹن تک نجانے کتنے پیرانِ مغاں ہیں جوصدر زرداری کی ایمبولینس میں رخصتی کے مناظر دیکھنے کے لیے اپنی آنکھیں پھوڑ چکے ہیں اور صدر زرداری انتہائی وقار سے اپنے جانشین کو جمہوریت کی مشعل تھما کر رخصت ہوگئے ہیں۔ جمہوریت کو تسلسل دے جانا ایسا کارنامہ ہے جسے تاریخ پاکستان میں صدر آصف علی زرداری کے نام سے یاد رکھا جائے گا، لیکن انہوں نے جو حکومتی نظام اس مقصد کے لیے تشکیل دیا اس کی ناکامی نے گزشتہ پانچ سال میںہر کامیابی کو گہنا کے رکھ دیا۔ان کی اختیار کردہ مفاہمت کی پالیسی نے جمہوریت کو غیروں کی دستبرد سے تو محفوظ رکھا لیکن اس کا اطلاق جب حکومتی وظائف پر ہوا تو اس کے نتائج تباہ کُن نکلے۔ زرداری صاحب نے کہا تھا کہ ’’ہم تاریخ بنانے آئے ہیں، شہ سرخیاں نہیں‘‘۔ وہ اپنے قول پر حرف بحرف پورے اترے۔ انہوں نے تاریخ تو بنا دی لیکن ان کی حکومت شہ سرخیوں کی زد میں ہی رہی۔ شہ سرخیوں کو بے حیثیت سمجھنے کے باوجود تاریخ کی کتاب میں جو باب آصف علی زرداری پر ہے اس کا عنوان یہی ہوگا، ’’ ایک زرداری ، سب پہ بھاری‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved