کسی بھی شعبے میں کی جانے والی جدوجہد کے حوالے اہم ترین بات کیا ہے؟ ثابت قدم رہنا‘ ڈٹے رہنا۔ کامیابی اُنہی کا مقدر بنتی ہے جو ڈٹے رہتے ہیں‘ میدان نہیں چھوڑتے۔ سارا کھیل ڈٹے رہنے کا ہے۔ ہر شعبہ انسان کے سامنے کئی چیلنج رکھتا ہے۔ ہر چیلنج انسان کو پکارتا ہے‘ دعوتِ فکر و عمل دیتا ہے۔ فکر و عمل کی پختگی‘ گہرائی اور گیرائی ہی طے کرتی ہے کہ انسان کہاں تک جائے گا‘ کیا کر پائے گا‘ کیا کر دکھائے گا۔
زندگی کسی کے لیے بھی آسان ہوتی ہے نہ مشکل۔ ہمارے لیے جینا آسان ہوگا یا مشکل یہ تو ہمیں طے کرنا ہے۔ آج ہر شعبے میں پیش رفت اور مسابقت کا یہ عالم ہے کہ اپنی صلاحیت کا تعارف پیش کرنا تو بہت آسان ہے مگر کچھ بننا‘ کچھ کر دکھانا بہت مشکل۔ لوگ ابتدائی مرحلے ہی میں سب کچھ چاہتے ہیں۔ شہرت بھی‘ دولت بھی اور عزت بھی۔ یہ ممکن نہیں۔ جامع اور ہمہ گیر کامیابی صرف اُن کے حصے میں آتی ہے جو ثابت کرتے ہیں اُن میں کچھ کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور سکت بھی۔ علاوہ ازیں صبر و تحمل سے کام لینے کی صلاحیت بھی۔ صبر کا عمومی مفہوم ہے برداشت کرنا‘ آنسو پی کر خاموش رہنا‘ صورتحال یا حالات کو جھیلنا۔ صبر کا حقیقی مفہوم یہ نہیں۔ برداشت کرنے کا مطلب ہے صورتحال کی پیدا کردہ ہر سختی اور مشکل کو جھیلتے ہوئے اپنی جگہ کھڑے رہنا اور میدان نہ چھوڑنا۔ کھیل میں کوئی ہارتا ہے اور کوئی جیتتا ہے۔ جیت بالعموم اُن کی ہوتی ہے جو ہمت نہیں ہارتے‘ میدان میں رہتے ہیں اور ڈٹے رہتے ہیں۔ جب کھیلنا ہی ٹھہرا تو پورے من سے کیوں نہ کھیلا جائے؟ والٹ ڈزنی کے نام سے کون واقف نہیں؟ امریکہ میں ڈزنی لینڈ اُنہی کا قائم کردہ ہے۔ والٹ ڈزنی نے کہا تھا ''ہارنے اور جیتنے میں بنیادی فرق صرف میدان میں ڈٹے رہنے کا ہے‘‘۔ جو ڈٹا رہا وہ کامیاب ہوا۔ جو ہمت ہار گیا وہ ہار گیا۔ ہم عمومی سطح پر کسی بھی کامیاب انسان کو دیکھ کر اُسے سراہتے ہیں اور اُس جیسا بننا چاہتے ہیں۔ اُس جیسا یعنی کامیاب اور خوش حال مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ یہاں تک پہنچنے میں اُس پر کئی عالم گزرے ہوں گے۔ کامیابی کسی کے لیے بھی بچوں کا کھیل نہیں۔ کوئی اگر بڑے گھر میں پیدا ہوا ہے تب بھی کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کے لیے اُسے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ بعض اوقات بڑے گھروں کے بچوں پر کچھ بننے اور کر دکھانے کے حوالے سے دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ راستے ہی میں ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور کچھ زیادہ نہیں کر پاتے! عام آدمی کا بچہ کچھ بننے اور کر دکھانے کی منزل تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کرتا ہے مگر خیر‘ اُس پر یہ دباؤ تو نہیں ہوتا کہ اپنے ہی گھر میں کسی کو نیچا دکھانا ہے‘ اُسے کچھ زیادہ بننا ہے۔ برگد کی گھنی چھاؤں میں بہت سے پودے ہو سکتے ہیں مگر وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتے۔
نئی نسل کو یہ بات خاص طور پر یاد رکھنی چاہیے کہ ہر شعبے میں ہر نو وارد کو الجھنوں ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو ابھی کچھ بنا ہی نہیں ہوتا اُس میں لوگوں کو بھلا کیوں اور کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ لوگ تو اُنہیں پہچانتے ہیں جو کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ بالکل اسی طور کسی نو وارد کو اہمیت نہ دینا بھی کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ ہر نو وارد کو اس مرحلے سے گزرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہ بات معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی گھر میں سکھائی جائے تو اچھا۔ سکول کی سطح پر بھی سکھائی جا سکتی ہے اور کریئر کاؤنسلنگ کے وقت بھی۔ کسی بھی نوجوان کو یہ نکتہ ہر حال میں یاد رکھنا ہے کہ ابتدائی مرحلہ دشوار ہی ہوتا ہے۔ اگر کسی کو ابتدائی مرحلے میں بے مثال نوعیت کی کامیابی نصیب ہو جائے تو اسے کامیابی سے کہیں بڑھ کر دردِ سر ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ پھر ہر معاملے میں ویسی ہی یعنی ابتدائی کامیابی کو دہرانے کی توقع وابستہ کی جاتی ہے اور یوں کھل کر کام کرنا بہت حد تک ممکن نہیں رہتا۔
ہر شعبے میں کامیاب ترین افراد کے حوالے سے آپ کو ایسی بہت سی کہانیاں سننے اور پڑھنے کو ملیں گی جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کامیاب افراد کو بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے کئی جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑا۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ ہر کامیاب انسان کو بہت سے جاں گُسل مراحل سے گزرنے کے بعد ہی کامیابی ملتی ہے۔ ہر شعبے میں اعصاب شکن مسابقت پائی جاتی ہے۔ جو بھرپور عزم کے ساتھ آیا ہو اور ڈٹے رہنے کی ذہنیت رکھتا ہو وہی کامیاب ہو پاتا ہے۔ فی زمانہ ہر شعبے میں آگے بڑھنے والوں کو طرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ بالکل فطری ہے کیونکہ دنیا کا کاروبار اسی طور چلتا آیا ہے اور اسی طور چلتا رہے گا۔ ہر شعبے میں وہی لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں جو اپنے پورے وجود کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں اور پسپا ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ پسپائی کی گنجائش ضرور ہوتی ہے مگر صرف حکمتِ عملی کے طور پر۔ کبھی کبھی بڑے حملے کی تیاری کے ایک مرحلے کے طور پر لشکر پسپا بھی ہوتا ہے۔ ایسا ہی انفرادی سطح کے معاملات میں بھی ہوتا ہے۔ دیرپا پسپائی انسان کو کمزور کردیتی ہے۔ اگر حکمتِ عملی کا تقاضا ہو تب بھی پسپائی مختصر وقت کے لیے ہونی چاہیے۔ لوگ انہیں پسند کرتے اور سراہتے ہیں جو میدان میں رہتے ہوئے جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میدان سے نکل جانے والوں کو احترام کی نظر سے کوئی بھی نہیں دیکھتا۔
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرف مسابقت ہی مسابقت ہے۔ جو لوگ مقابلے میں حصہ نہیں لینا چاہتے ان کے لیے کوئی چیلنج ہوتا ہی نہیں۔ نچلے درجے کی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ انسان کو مقابلے میں حصہ لینے کی زحمت سے بچا لیتا ہے۔ جب لڑنا ہی نہیں ہے تو کسی بھی بات کا کیا خطرہ؟ تمام خطرات ان کے لیے ہوتے ہیں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہر دردِ سر صرف ان کے لیے ہوتا ہے جنہیں چیلنجوں سے نمٹنا ہو۔ اور پھر بھرپور کامیابی بھی انہی کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے۔ خوفزدہ‘ بد دِل یا مایوس ہوکر میدان سے نکل جانے والوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طور کچھ لوگ میدان میں قدم ہی نہیں رکھتے۔ کسی بھی معاشرے میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جو تمام شعبوں میں جاری بھرپور مسابقت دیکھ کر طے کر لیتے ہیں کہ زیادہ آگے نہیں جانا‘ اپنے کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے جینا ہے۔ کمفرٹ زون یعنی جو کچھ مل چکا ہے یا مل سکا ہے اسی پر اکتفا کرنا‘ خوش رہنا اور اسی کیفیت میں زندگی گزار دینا۔
فی زمانہ کم و بیش ہر شعبہ غیر معمولی مشق اور مشقّت کا طالب ہے۔ آج کوئی بھی اپنی صلاحیت کو آزما سکتا ہے‘ دنیا کو بتا سکتا ہے کہ وہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ مرحلہ بہت آسان ہے۔ ایک دور تھا کہ گانے والوں کو موقع نہیں ملتا تھا۔ اب کوئی بھی اپنا گانا ریکارڈ کرکے دنیا کے سامنے رکھ سکتا ہے۔ یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ مسئلہ ہے اچھا گانے کے قابل ہو پانا اور دنیا سے اپنے آپ کو منوانا۔ یہ گویا جُوئے شیر کا لانا ہے۔ کل تک اداکاری کے حوالے سے اپنے آپ کو منوانا مشکل کام تھا مگر اب نہیں۔ ڈھائی تین عشروں پہلے معاملہ یہ تھا کہ اداکاری کے مواقع کم مل پاتے تھے۔ تب اپنی اداکاری کو فلمانا بھی مشکل تھا۔ اب یہ بچوں کا کھیل ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ اس حوالے سے تجربے بھی کر رہے ہیں۔ بہت سے مشہور اداکاروں کے کامیاب مکالموں پر لوگ ادا کاری کرکے سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر رہے ہیں تاکہ دنیا کو اپنی صلاحیت کے بارے میں بتا سکیں۔ بات یہیں تک آسان ہے۔ ڈھنگ کی اداکاری کل بھی مشکل تھی اور آج بھی مشکل ہے۔
آج دنیا ہر معاملے کا خاصی باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز پر آپ کو لاکھوں افراد بنیادی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ملیں گے۔ یہ سب کچھ محض شوق کی سطح پر ہے۔ لوگ چند ایک آئٹمز تک محدود رہتے ہیں اور پھر ان کا جوش و جذبہ دم توڑنے لگتا ہے۔ اہمیت سنجیدہ ہوکر آگے بڑھنے اور میدان نہ چھوڑنے کی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved