جب ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف صف بندی کرتی ہیں تو اعلانِ جنگ کی روایت کی پاسداری کی توقع کی جاتی ہے‘مگر جب دشمنی ہواور حریف ریاست اور اس کے عوام کو نقصان پہنچانا ہو تو اعلانِ جنگ کی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔ جنگوں میں نہ کوئی اصول ہوتے ہیں اور نہ ہی سچائی اور اخلاقیات کی پروا کی جاتی ہے‘ لیکن کچھ ریاستوں کی عورتوں کے خلاف‘ جو ہر ملک کی آبادی کا نصف ہوتی ہیں‘ سلوک کی بات کرنا چاہتا ہوں‘ جس کے نتائج کسی جنگ سے کم نہیں۔ افغانستان اور ہمارے قبائلی‘ ذات پات کے مارے معاشروں میں عورتوں کو بس زندہ رہنے کا حق دیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب افغانستان میں خواتین تعلیم اور خدمت کے شعبوں میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی ہم پلہ تھیں۔ گزشتہ صدی میں ظاہر شاہ کا چالیس سالہ دور اس ملک کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جا سکتا ہے۔ امن تھا‘ سلامتی تھی‘ اور ترقی کے ہر شعبے میں پیش رفت ہورہی تھی۔ بادشاہت یہاں کا روایتی‘ تاریخی اور قبائلی ثقافت کا عکاس ادارہ تھا۔ لوگوں کے دلوں میں بادشاہ کے لیے بے پناہ احترام تھا۔ غریب تو یہ ملک تب بھی تھا‘ مگر عوام سکون‘ اطمینان اور اپنے پرانے طور طریقوں کے مطابق زندگیاں گزار رہے تھے۔ افغانستان کو سرد جنگ کے دوران غیر جانبدار رکھا۔ سوویت یونین اور امریکہ‘ دونوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ جھکائو ایک طرف ہوجائے۔ اس مسابقت میں دونوں بڑی طاقتوں نے مختلف اہم قومی شعبوں میں معاونت جاری رکھی۔ امریکہ نے تعلیم اور زراعت کے شعبے میں کئی پروگرام مکمل کیے۔ اساتذہ کی تربیت کے انتظام کے ساتھ ساتھ افغانوں کے لیے امریکہ کی جامعات میں علم حاصل کرنے کے لیے وظائف کا اہتمام کیا۔ ایک دودریائوں پر بند باندھ کر جدید زراعت کی راہ ہموار کی۔ سوویت یونین کی دلچسپی افغان فوج اور نوکر شاہی کی تربیت اور ریاستی اداروں کو فعال کرنے کے علاوہ سڑکوں کی تعمیر میں تھی۔ مشرق اور مغرب کی امداد سے کئی تعلیمی ادارے اور جامعات کے دروازے نوجوانوں کے لیے کھلنے شروع ہوگئے۔ افغان خواتین تب کسی سے پیچھے نہیں تھیں۔ سرکاری دفتروں‘ ہسپتالوں اور مارکیٹوں میں اس طرح نظر آتیں جس طرح ہم پاکستان کے بڑے شہروں میں دیکھتے ہیں۔
وسائل محدود ہونے کے باوجود افغانستان جدت پسندی اور ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ جس طرح بڑی طاقتوں کی سرد جنگ میں غیر جانبداری اپنائی‘ اسی طرح ہمارے اور بھارت کے باہمی تنازعات اور جنگوں میں افغان نیوٹرل رہے۔ اس لفظ سے بچنے کی کافی کوشش کررہا تھا‘ کہ اب ہمارے ملک میں اس کے مطالب کچھ اور سمجھے جاتے ہیں لیکن خیر‘ ہم تو افغانستان کی بات کررہے ہیں۔ جامعہ پنجاب میں ستر کے عشرے کے اوئل میں شعبہ سیاسیات کے طلبہ نے کابل جانے کا پروگرام بنایا۔ درویش کے وسائل محدود تھے۔ خواہش کے باوجود اس کارواں میں شامل نہ ہوسکا۔ دوست کابل میں تین چار دن گزار کر واپس آئے تو ساتھ بیٹھ کر وہا ں کے حالات کی تصویر‘ ان کے سنائے ہوئے قصوں‘ کہانیوں کی روشنی میں اپنے ذہن میں بنانے کی کوشش کی۔ نہ جانے وہاں اُنہوں نے بالی ووڈ کی کتنی فلمیں دیکھیں یہاں جن کو دیکھنے پر آج کل کی طرح پابندی تھی۔ جن چند مناظر نے اُنہیں چونکا دیاا ور وہ کئی ماہ تک ششد رہے تھے‘ وہ کابل شہر میں خواتین بس ڈرائیور تھیں۔ باوردی افغان خواتین بڑے دھڑلے سے سرکاری بسیں شہر کے ایک حصے سے دوسرے تک چلاتیں۔ کوئی ان کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھتا‘ اور نہ کسی کی پیشانی شکن آلود ہوتی۔ اگر کوئی حیرت زدہ نظریں اُنہیں دیکھ رہی تھیں تو وہ پاکستان سے جانے والے ہمارے دوستوں کی ہی تھیں جو افغانستان کی سیر کررہے تھے۔ کچھ تو نصف صدی گزرنے کے بعد بھی اسی حیرانی کے عالم میں ہیں۔ انہیں چھیڑیں تو وہ بڑے رسان اور ذوق سے سناتے ہیں جیسے کوئی نیاشاعر اپنی بیاض کھول کر بیٹھ جائے۔ وہ ابھی تک حیران ہیں کہ کابل میں کچھ خواتین مغربی طرز کا سکرٹ زیب تن کیے بازاروں اور چائے خانوں میں دکھائی دیتی تھیں۔ کہاں وہ لباس اور کہاں آج کی طالبان کی فرماں روائی۔ اشتراکی دور اگرچہ ابتلا کا دور تھا‘ مجاہدین نے ہماری مدد اور مغربی دنیا کے سہارے حکومت اور اس کے روسی سرپرستوں کے خلاف جنگ شروع کررکھی تھی‘ عورتوں کو آزادیاں نصیب تھیں۔ ہم صرف بڑے شہر وں کی بات کررہے ہیں۔ دیہی علاقوں اور قبائل میں ان کا حال وہی تھا جو اَب ہے اورہمارے دیہات میں ہے۔
امریکہ نے افغانستان میں بیس سالہ جنگ لڑی‘ مگر ریاستی اور معاشرتی تجدیدِ نو اور ترقی کا عملی بھی پہلو بہ پہلو جاری رہا۔ نئی جامعات‘ یہاں تک کہ امریکن یونیورسٹی آف افغانستان کا قیام بھی عمل میں آیا۔ نوجوانوں اور عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع میسر آئے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ترقی کے لیے کسی دوسری ریاست میں فوجی مداخلت لازمی ہے۔ سامراجی نظام نے بھی کئی مثبت اثرات ہمارے معاشروں پر چھوڑے ہیں۔ افغانستان میں امریکی جنگ کی کہانی کے کئی پہلو ہیں۔ ہم ان کی بات ابھی نہیں کرہے۔ صرف عرض کرنا مقصود ہے کہ افغانستان میں تعلیم یافتہ‘ مڈل کلاس‘ باہنر اور باصلاحیت نیا طبقہ پیدا ہواجو امریکی فوجوں کے انخلا کے ساتھ ہی ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بسا۔ لاکھوں اب بھی ایسے ہیں جو پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور مغربی ممالک کے ویزے کے حصول کی سرتوڑ کوشش میں ہیں۔ جو نظام حکومت افغانستان کے طالبان لائے ہیں‘ اس میں سکول اور یونیورسٹی جانے والی لڑکیوںاور دیگر ملازمت پیشہ خواتین کے لیے کچھ نہیں۔ مالی اور دیگر مشکلات اپنی جگہ‘ مگر بچیوں کو سکول جانے سے روکنے اور جامعات کو بند کرنے اور سرکاری اور نجی شعبے میں ملازمت کرنے والی خواتین کو گھر بیٹھنے پر مجبور کرنے کی حکمت سمجھ سے باہر ہے۔ ہمارے دو ہمسایہ اسلامی ممالک نے عورتوں کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کر رکھی ہے۔ ایک میں تعلیم اور ملازمت پر تو کوئی پابندی نہیں‘مگر لباس اور سماجی میل جول پر سخت پہرے داری نے گھٹن کا ماحول پیدا کررکھاہے۔ جو حال افغانستان میں طالبان نے کر رکھا ہے‘ شاید ہی دنیا کاکوئی اور ملک ہو جس نے خواتین کے تمام حقوق چھین لیے ہوں۔ پتہ نہیں ہمارے یہ محترم کس زمانے اور کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔
اپنے دیس میں بھی عورتوں کے حقوق کی پامالی عام ہے‘ مگر جس طرح ہمارے ہاں کرپشن قانونی طریقے سے ہوتی ہے‘ اسی طرح عورتوں سے جائیداد ہتھیانے کے لیے بھی قانونی طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ اگر وہ کام نہ آئیں تو پھر ہمارے لوگ بھی سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ شہر‘ تہذیب‘ تعلیم اور ترقی کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ شہر بنے تو تہذیب کے دھارے میں بھی رنگ آیا۔ شہروں کی حد تک تو ہم سب مردو اور عورتیں کچھ آزادی سے سانس لے سکتے ہیں۔ مگر جونہی اپنے پرانے ٹھکانوں کی طرف دیہاتوں میں جاتے ہیں‘ منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ جہاں جہاں علم اور ترقی کی روشنی نے سینوں کو منور کیا ہے‘ دیہات ہوں یا شہر‘ خواتین نے کچھ نہ کچھ آزادیاں حاصل کرلی ہیں۔ مغرب بھی تو جنسی مساوات مثالی نہ سہی مگر گزشتہ ایک سوسال میں اس لحاظ سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ انسان‘ مرد ہوں یا عورتیں‘سب برابر ہیں۔ تو پھر یہ غیر اعلانیہ حقوق پر ڈاکے کیوں ؟ قلم بھی خاموش ہے‘ دل کی دھڑکن بھی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں بھی کون سی آزادی حاصل ہے کہ اس سوال کا جواب دیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved