العربیہ نیوز چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں وزیر اعظم شہباز شریف نے پاک بھارت تعلقات پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کی طرف سے بھارتی وزیر اعظم کو یہ پیغام ہے کہ آئیے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور خلوص اور سنجیدگی سے کشمیر جیسے سلگتے ہوئے تنازعات کو حل کریں۔ دونوں ملکوں کے درمیان امن کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت ہمسایہ ممالک ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کا ہمسایہ ہو کر ہی رہنا ہے‘ مگر یہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس طرح رہنا ہے۔ پُرامن طریقے سے خوش رہ کر یا لڑائی جھگڑوں میں وقت اور وسائل کا ضیاع کرتے ہوئے۔شہباز شریف نے کہا: ''ہم نے بھارت کے ساتھ تین جنگیں لڑی ہیں مگر ان سے ہماری بدحالی‘ غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اب ہمیں سمجھ آ گئی ہے اور امن میں رہنا چاہتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنے جائز تنازعات حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جہاں تک ہمارا (پاکستان) کا تعلق ہے ہم غربت ختم کرنا چاہتے ہیں اور ملک میں خوش حالی لانا چاہتے ہیں تاکہ عوام کو تعلیم‘ صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کر سکیں‘ نہ کہ ہم اسلحہ اور گولہ بارود کی تیاری پر اپنے وسائل ضائع کریں‘‘۔
وزیر اعظم کے اس انٹرویو کے ساتھ ہی ان کے دفتر سے ایک وضاحتی بیان بھی جاری ہوا جس میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ دراصل وزیر اعظم نے بھارت کو غیر مشروط طور پر بات چیت کی پیشکش نہیں کی‘ اور یہ کہ بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر اور دیگر مسائل پر بات چیت کے بارے میں پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ یعنی جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں اگست 2019ء میں کئے گئے اپنے یک طرفہ اقدامات کو واپس نہیں لیتا‘ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھے گا‘ اور یہ کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرارداد اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کے انٹرویو کے مندرجات شائع ہونے کے ساتھ ہی ان کے ترجمان کا وضاحتی بیان حیران کن یا غیر متوقع نہیں‘ کشمیر کا مسئلہ ملک کی اندرونی سیاست سے اتنا جڑا ہوا ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی یا سیاستدان اس پر کچھ کہتے ہوئے ڈرتا ہے کیونکہ مخالف پارٹیوں یا سیاستدانوں کی طرف سے مذمتی بیان فوری طور پر جاری ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کے ترجمان کے بیان کو سمجھنے کیلئے اسی تناظر میں رکھ کر دیکھنا پڑتا ہے تاکہ کوئی فریق اسے پاکستانی عوام کے سامنے توڑ مروڑ کر پیش نہ کر سکے‘ حالانکہ وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو میں کہیں بھی نہیں کہا کہ پاکستان غیر مشروط طور پر بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر اور دیگر مسائل کیلئے بات چیت پر تیار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسائل کو حل کرنے یا بات چیت پر ڈیڈ لاک توڑنے کیلئے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کو بھی کسی قسم کی شرائط کے بغیر مخالف فریق کے ساتھ ہمیشہ مشروط بات چیت پر آمادہ ہونا پڑا ہے‘ اس لئے کہ دونوں میں سے کسی کو بھی جبری ڈپلومیسی (Cohersive Diplomacy) سے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
1990ء کی دہائی کے اوائل سے ہی پاک بھارت مذاکرات اس بنا پر کئی برس تک معطل رہے کہ فریقین اپنی شرائط پر بات چیت کو آگے بڑھانا چاہتے تھے‘ لیکن بھارتی وزیر اعظم اندر کمار گجرال اور ان کے پاکستانی ہم منصب محمد نواز شریف کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں 1997ء میں دونوں ملکوں میں کمپوزٹ ڈائیلاگ پراسیس کے تحت مذاکرات کے سلسلے کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں فروری 1999ء میں اٹل بہاری واجپائی مشہور ''دوستی بس‘‘ پر سوار ہو کر لاہور آئے‘ مینار پاکستان پر حاضر ہوئے اور پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات حل کرنے اور تعاون کو فروغ دینے کیلئے اقدامات پر اتفاق کیا گیا اور کشمیر پر بھی بات چیت کیلئے روڈ میپ پر اتفاق کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اُس سال یعنی 1999ء میں ستمبر میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر پر فیصلہ کن مذاکرات کا آغاز ہونا تھا مگر اس سے قبل مئی 1999ء میں کارگل کے واقعہ نے اس کی نوبت نہ آنے دی۔ یاد رہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا ''اٹوٹ انگ‘‘ کہتاہے مگر اس کے باوجود اسے مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی جارحانہ سفارت کاری کے باوجود بین الاقوامی برادری نے مقبوضہ کشمیر کو کبھی بھی بھارت کا حصہ تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے ایک متنازع علاقہ سمجھا ہے جس کا حتمی حل ابھی باقی ہے اور وہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیریوں کی خواہشات اور جذبات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تلاش کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں ثالثی کی صورت میں بین الاقوامی برادری خاص طور پر ان ملکوں جن کے پاکستان اور بھارت سے قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں‘ کا کردار اور بھی بڑھ گیا ہے۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں انقلاب خصوصاً سوشل میڈیا کی وجہ سے کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی اطلاعات دنیا کے ہر کونے میں پھیل چکی ہیں۔ اس کی وجہ سے دنیا کی مسئلہ کشمیر میں دلچسپی ہی نہیں بلکہ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دوسرے‘ کورونا سے پہلے چین کے بعد جنوبی ایشیا معاشی ترقی میں دنیا میں سب سے آگے تھا۔ اس سے خطے میں دنیا کے مالدار ممالک کی تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان ممالک میں جاپان‘ امریکہ‘ روس‘ یورپی یونین کے علاوہ سعودی عرب‘ یو اے ای اور قطر بھی شامل ہیں‘ لیکن تجارت کے فروغ اور سرمایہ کاری کے تحفظ کیلئے امن ضروری ہے۔ یہ سب ممالک اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کیلئے جنوبی ایشیا میں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن چاہتے ہیں‘ جو انہیں معلوم ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس لئے خود ان ممالک میں ثالثی کے ذریعے پاکستان اور بھارت‘ دیگر الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد دینے کی خواہش موجود ہے۔ امریکہ اور چین اس کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔ پاکستان نے تو اس میں ہمیشہ رضا مندی ظاہر کی ہے اور اسی تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات سے بھی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی ہے‘ لیکن متحدہ عرب امارات کی حکومت اس پر راضی ہو بھی جائے اور اس کیلئے پاکستان اور بھارت کو باقاعدہ پیشکش بھی کرے تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مسئلہ قرار دیتا ہے جس کا حل‘ اُس کے خیال میں براہ راست دو طرفہ مذاکرات سے ممکن ہے۔ اگرچہ چین اور امریکہ کی طرح کئی اور ممالک بھی ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں مگر اس کا امکان اس پر ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں اس پر راضی ہوں جو کہ فی الحال نظر نہیں آتا۔ اس لئے بین الاقوامی برادری میں بھی یہ سوچ غلبہ حاصل کر رہی ہے‘مسئلہ کشمیر‘ جس کے حل پر جنوبی ایشیا کا امن اور ترقی منحصر ہے‘ صرف پاک بھارت دوطرفہ اور براہ راست مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی رائے عامہ اور خصوصاً وہ ممالک‘ جن کے دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں‘ پاکستان اور بھارت پر مذاکرات کے انعقاد کیلئے زور دے چکے ہیں۔ گزشتہ تقریباً ساڑھے تین سال سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ایک مکمل تعطل کی کیفیت چلی آ رہی ہے۔ دنیا کو اس پر تشویش ہے کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور کشیدگی تصادم میں تبدیل ہو کر کسی بڑی جنگ کا سبب بن سکتی ہے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسی صورتحال سے بچائو کی خاطر دنیا مسئلہ کشمیرکے حل اور پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی خواہش مند ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ خطے میں امن کی خاطر‘ مسئلہ کشمیر کے حل کی خواہش مند عالمی رائے عامہ سے فائدہ اٹھانے کیلئے مثبت سفارت کاری سے کام لے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے متحدہ عرب امارات کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کی درخواست کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved