ماضی کا 'روشنیوں کا شہر‘ عروس البلاد کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ہے جسے ''منی پاکستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے اور قیامِ پاکستان‘ 1947ء سے لے کر 1960ء تک قومی دارالحکومت بھی رہا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ اور سب سے بڑا ہوائی اڈا بھی کراچی میں ہے۔ افسوس! دو کروڑ کی کثیر آبادی کے شہر کے مسائل بھی بے شمار ہیں۔ ملک کو 70 فیصد ریونیو، زر مبادلہ، ملازمتیں اور پناہ دینے والے شہرِ ناپرساں کا المیہ یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت یہ کہتی ہے کہ کراچی ہمارا ہے مگر اس کے درد کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ جو بھی سیاسی جماعت حکومت سے باہر ہوتی ہے‘ وہ شہر کو درپیش مسائل کا خوب واویلا مچاتی ہے لیکن اقتدار میں آتے ہی تمام تر وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 1988ء سے مختلف ادوار میں اور گزشتہ 14 برس سے مسلسل سندھ پر حکومت کی ہے‘ اس کے باوجود اس شہر کو اس نے مسلسل نظر انداز کیے رکھا۔ 30 سال سے بلدیاتی اداروں پر قابض ایم کیو ایم نے بھی یہاں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کرائے۔ 2018ء میں یہاں کے شہریوں نے تبدیلی کے دلفریب نعرے میں آکر تحریک انصاف کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا مگر حالات مزید ابتر ہو گئے۔
اس میگا سٹی کا ایڈمنسٹریٹر کا مسئلہ کافی پرانا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں کراچی کو 18 ٹائونز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ بلدیاتی نظام میں تو تبدیلیاں آتی رہتی ہیں‘ مگر افسوس قومی اکانومی کی شہ رگ سمجھے جانے والے اس شہر کی قسمت نہ بدل سکی۔ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی، کراچی پورٹ، پورٹ قاسم، نصف درجن کنٹونمنٹ کے علاقے، سائٹ کا علاقہ، کچی آبادیاں، ریلوے، سٹیل مل کی حدود اور کہیں کہیں کے ایم سی کے زیر انتظام علاقے۔ متعدد حصوں میں بٹے ہوئے شہر قائد کو اختیارات کی جنگ نے کھنڈر بنا دیا ہے۔ درحقیقت کراچی کے مسائل کی بنیادی وجہ اس کے وسائل پر قبضہ ہے۔ یہاں کے مسائل سالہا سال گزرنے کے باوجود بھی حل ہونے کا نام نہیں لے رہے بلکہ اس کی مشکلات میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ نہ ختم ہونے والی محرومیوں اور مایوسیوں کے شکنجے میں پھنسے شہر کے باسی اپنے بیشتر شہری حقوق سے ہنوز محروم ہیں۔ اس شہر پر کیا کچھ نہیں بیتی؟ اور اب بھی یہ نت نئے مصائب میں مبتلا ہے۔ یہاں سکونت پذیر چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے بلوچوں، پشتونوں، پٹھانوں، پنجابیوں، اردو سپیکنگ مہاجرین کے اَن گنت مسائل ہیں جن کو حل کرنا قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاک فوج، رینجرز اور سکیورٹی اداروں کی کاوشوں کے نتیجے میں امن و امان میں کافی بہتری آ چکی ہے اور ایک بار پھر اس شہر کی رعنائیاں اور رونقیں لوٹ رہی ہیں۔ اس کے باوجود سٹریٹ کرائمز، لوٹ مار، چوری و ڈکیٹی کے واقعات میں اضافے نے شہریوں کو پریشان کر رکھا ہے، لہٰذا مکمل امن و امان کے لیے شہر کی شاہراہوں سے لے کر گلی‘ محلوں‘ چوکوں اور چوراہوں میں پیش آنے والے واقعات کی روک تھام بھی ضروری ہے۔ دیگر بنیادی مسائل میں غیرقانو نی تعمیرات کی بھرمار، قبضہ مافیا، بدترین لوڈشیڈنگ، صاف پانی کی شدید قلت، گندگی و غلاظت، خراب سیوریج سسٹم، پبلک ٹرانسپورٹ بالخصوص ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کے الگ و مخصوص بسوں کی کمی بڑے مسائل ہیں؛ چنا نچہ صوبائی و مقامی حکومت کو اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام جس طرح خطرناک انداز میں لٹک کر اور بسوں کی چھتوں کے اوپر سفر کرتے نظر آتے ہیں‘ وہ حکومتی نااہلی کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہے۔ گرین لائن بس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر سے جہاں شہری ٹریفک کے حوالے سے سخت مشکلات کا شکار ہیں‘ وہیں شہر میں فضائی آلودگی بھی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ شہر میں جاری مختلف منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کریں تاکہ عوام کو اس پریشانی سے نجات میسر آ سکے۔ ٹوٹ پھوٹ کی شکار سڑکیں بھی کراچی کا ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید حکومتی نظر میں کراچی والے کسی بھی توجہ کے مستحق نہیں ہیں۔
شہرِ قائد کے لوگ مسائل کے انبار میں رہنے پر مجبور ہیں، مگر کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ اکثریتی علاقوں میں غیر مساویانہ واٹر سپلائی سے عوام پانی کی بوند بوند کو ترستے رہتے ہیں۔ مفلسی و کسمپرسی کے عالم میں انہیں مہنگے داموں پانی خریدنا پڑتا ہے۔ یقینا ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسیوں کا پانی جیسی بنیادی ضرورت کیلئے ترسنا اربابِ اختیار کے لیے لمحۂ فکر ہے۔ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کی بدولت لوگ گندا پانی پی کر مختلف امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ نکاسیٔ آب بھی کراچی کے شہریوں کا اہم بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ نظام شہر کی ضرورت کے لیے ناکافی ہے۔ شہر کے محض 40 فیصد لوگوں کو سیوریج کے نظام کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ کراچی کی چھوٹے بڑے چوراہوں پر بسا اوقات سیلاب کی مانند جس طرح گٹروں کا گندا پانی بہہ رہا ہوتا ہے اور گاڑیاں اس میں تیر رہی ہوتی ہیں‘ وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ میگا سٹی کا انفراسٹرکچر بھی ناکافی ہے۔
جولائی‘ اگست 2022ء میں پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے دو تہائی ملک سمیت ملک کے سب سے بڑے شہر کو بھی ڈبو دیا تھا۔ نہ صرف گلی‘ محلوں اور کچی آبادیوں‘ بلکہ پوش علاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا تھا اور وہ دریا کا منظر پیش کر رہے تھے۔ اس سے قبل دو سال تک متواتر مون سون کی بارشوں نے کراچی میں تباہی کی ایسی داستان رقم کی کہ یہاں کی حکومت کی قلعی کھول دی۔ حالانکہ اگر کسی بھی ترقی یافتہ شہر میں بارشیں ہو تو کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کیونکہ ان کا بنیادی انفراسٹرکچر اتنا وسیع اور فعال ہوتا ہے کہ پانی کہیں کھڑا ہی نہیں ہونے پاتا جبکہ ہم اب بھی نکاسیٔ آب کے لیے برطانوی دور کی پائپ لائنوں پر انحصار کر رہے ہیں جو 1947ء سے پہلے‘ کراچی کی 46 ہزار آبادی کے لیے بچھائی گئی تھیں۔ دہائیوں پرانا یہ سسٹم اب ڈھائی کروڑ افراد کی ضروریات پوری کر رہاہے۔
اس وقت پورا شہر کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ بیچارے عوام غلاظت زدہ ماحول میں رہنے پر مجبورہے۔ کم آمدنی اور خراب صحت کے باعث تقریباً 70 فیصد گھرانے غربت کی زد میں رہتے ہیں۔ یہ مفلس خاندان بنیادی ضروریات اور صحت کی سہولتوں کی عدم فراہمی کے بغیر جی رہے ہیں۔ اگر بجلی کی بات کی جائے تو کراچی کے شہری بجلی کے ترسیلی محکمے کی وجہ سے اضافی اذیت کے شکار ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور ساتھ ہی اوور بلنگ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ کراچی کے کسی بھی کونے پر نظر دوڑائیں‘ ناجائز و غیر قانونی تعمیرات کی بھرمار دکھائی دے گی۔ ''نسلہ ٹاور‘‘ اس کی محض ایک مثال ہے۔ سرکاری زمینوں پر قبضے اور بغیر نقشوں کے فلیٹس و مکانات کی تعمیر نے نہ صرف شہرِ قائد کا حسن گہنا دیا ہے بلکہ اس کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں کے ایما پر دل کھول کر غیر قانونی تعمیرات کے این او سی جاری کیے گئے جبکہ کراچی میں 67 غیر قانونی رہائشی سکیمیں موجود ہیں۔
شہرِ قائد میں گرائونڈز، پارکس اور پبلک مقامات عنقا ہو چکے ہیں۔ سبزے، پودوں، درختوں اور جنگلات کی کمی نے ماحولیاتی آلودگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس وقت ورلڈ انڈیکس کے مطابق کراچی دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے جبکہ لاہور آلودگی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بدقسمتی سے انتہائی خوبصورت اور دلکش ساحلِ سمندر ناقص صفائی کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی کشش کھو رہا ہے اور اس کی حالتِ زار دیکھ کردل خون کے آنسو روتا ہے۔ ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں جانے سے کتراتے ہیں جبکہ دنیا کے مختلف ملکوں میں سمندروں کے ساحلوں کو صاف ستھرا اور دیدہ زیب بنانے پر توجہ دی جاتی ہے لیکن یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
مؤثر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں کچی آبادیوں کی کثرت ہے۔ گلوبل لِوْ ایبلٹی رپورٹ کے مطابق استحکام، صحت کی سہولتوں، ثقافت، ماحول، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے معیار کے حوالے سے کرائے گئے سروے میں کراچی کا 140 شہروں میں سے 134 واں نمبر ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ مسائل کی آماجگاہ بننے کے باوجود شہر قائد ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ صالح و ذمہ دارانہ قیادت کی سربراہی میں یہ شہر دنیا کا اے کلاس کاسمو پولیٹن سٹی بننے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ شاندار ماضی کے حامل قائد کے شہر کو دوبارہ اس کا اعلیٰ مقام دلانے اور اس کے شہریوں کو اذیت ناک زندگیوں سے نجات کیلئے قومی و صوبائی سیاسی قیادت اور رہنمائوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ 'مال مفت دل بے رحم‘ کے تحت کراچی کے وسائل کی بندر بانٹ کا سلسلہ بند کر دیں اور اس شہر کی حقیقی ترقی پر متوجہ ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved