لیجنڈ (Legend) خالد عباس ڈار کے بیشتر فقرے پورے مضمون پر بھاری ہوتے ہیں۔ نگران سیٹ اَپ اور آئندہ سیاسی منظرنامہ زیرِ بحث تھا‘ محفل زوروں پر تھی، اچانک بولے ''اکثر خواتین کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ بھلے کوئی بھی ہانڈی پکا لیں‘ ذائقہ بتئوں (بینگن) کا ہی آتا ہے‘‘۔ بالکل اسی طرح انتخابی نتائج کسی کے بھی حق میں آئیں‘ فتح کسی کا بھی مقدر بنے‘ شکست ہمیشہ کی طرح عوام کی ہو گی۔ حکمران نگران ہوں یا آئندہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کرنے والے‘ عوام کو ذائقہ بینگن کا ہی ملے گا۔ وزیراعظم کوئی بن جائے‘ وزارتِ اعلیٰ کسی کے ہاتھ لگ جائے‘ عوام کے نصیب میں تو بس بینگن ہی رہ گئے ہیں۔
مملکتِ خداداد کی تاریخ کو اگر تین ادوار میں تقسیم کر کے بغور جائزہ لیا جائے تو آئندہ ربع صدی کا منظرنامہ چشمِ تصور سے بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ وطنِ عزیز کو معرضِ وجود میں آئے بمشکل پچیس برس ہونے کو تھے کہ جب ملک دولخت ہو گیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ زمینی حقائق آشکار ہونا شروع ہوئے تو یہ عقدہ بھی کھلتا چلا گیا کہ ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کی جو داستان نصاب میں اور گھول کر پلائی گئی تھی‘ وہ اَدھورا سچ تھی۔ جس مشرقی پاکستان کو ہم کم تر اور بوجھ گردان کر علیحدگی کی ساری ذمہ داری اُس پر ڈالتے رہے‘ اس میں مغربی اشرافیہ کا قصور بھی کم نہ تھا۔ عوامی مینڈیٹ کو جب ضد اور بوئے سلطانی کا سامنا ہوتا ہے تو وہ سانحات بھی جنم لیتے ہیں جن کی قیمت قوموں کو نسل در نسل چکانا پڑتی ہے۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور بنگلہ دیش کہاں پہنچ گیا ہے۔ لمحوں کی خطائیں صدیوں تک بھگتنا پڑتی ہیں۔ بنگلہ دیشی ٹکے کے آگے ہمارا روپیہ ٹکے ٹوکری ہو جائے تو معیشت کا موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس سانحے سے سبق سیکھنے کے بجائے ہم اپنی غلطیوں کے وکیل اور مقدمے کے منصف بھی خود ہی بن گئے اور اسی گمان میں نصف صدی گنوا بیٹھے‘ نہ پورا سچ بتایا اور نہ ہی اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے انہیں سدھارنے کی کوشش کی۔
اسی طرح اگلے پچیس برس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ ہم گھاس پھوس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ پاکستان ایٹمی طاقت تو بن گیا لیکن گھاس پھوس قوم کا مستقل مقدر بنتی چلی گئی۔ اس دور میں عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی ایسی ریت پڑی کہ 1977ء میں انتخابی نتائج پر وسیع پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگنے کے باوجود وہی مائنڈ سیٹ برقرار رہا۔ اس پر احتجاج اور مزاحمت کی ایسی لہر اٹھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار بھی بہا کر لے گئی۔ نتیجتاً جنرل ضیاء الحق حکومت کا تختہ اُلٹ کر برسرِ اقتدار آئے تو 90 دن کے اندر انتخابات کروا کر اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپنے کا وعدہ کیا مگر یہ نوے دن اس قدر طوالت اختیار کر گئے کہ 11 برس بعد ایک فضائی حادثے کے نتیجے میں ان کا اقتدار ختم ہوا جبکہ اس دوران غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی سیاسی پنیری تیار کی گئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے سسٹم کو ایسا لپیٹا مارا کہ سبھی کچھ ملیامیٹ ہوتا چلا گیا۔ اِس پر ستم یہ کہ مملکتِ خداداد کی قومی عمر کا نصف سے زائد عرصہ اسی پنیری کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسمبلیوں میں منڈی لگانے سے لے کر قانون اور ضابطوں کو تابع کرنے تک‘ اپنے واجبی کاروبار کو ہوشربا بلندیوں تک پہنچانے سے لے کر بے تحاشا مال و دولت اکٹھا کرنے تک‘ سربلند کو سرنگوں کرنے کے لیے ریاستی طاقت اور قانون کا من پسند استعمال کرنے سے لے کر خواص کا ضمیر مارنے کے لیے سرکاری وسائل اور ملکی خزانے کی بندر بانٹ تک‘ اہم عہدے نورِ نظر اور منظورِ نظر کے رحم وکرم پر چھوڑنے سے لے کر میرٹ اور گورننس کی درگت بنانے تک‘ سبھی بدعتوں کو رواج و دوام دینے کا سہرا اسی سیاسی پنیری کے سَر ہے۔
افغانستان پر روسی حملے کے بعد افغان مہاجرین کے لیے پاکستان کو فری زون قرار دینے سے لے کر کھلے عام کاروبار اور جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے کھلی چھٹی دینے تک کا خمیازہ ہم آج تک مسلسل بھگت رہے ہیں۔ افغان جنگ کے خوفناک نتائج سمیت ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا کریڈٹ بھی اسی پالیسی کا مرہون منت ہے۔ کھلے عام اسلحہ کی فراوانی سے فرقہ واریت‘ دہشت گردی اور تشدد کو اس طرح بڑھاوا دیا گیا کہ نہ بازار و مساجد محفوظ رہیں اور نہ ہی تعلیمی ادارے۔ خاک اور خون کی یہ داستان اتنی طویل اور درد ناک ہے کہ ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہوں۔ طولِ اقتدار کے لیے کیسے کیسوں کے منہ کو بوئے سلطانی کا خون لگا ڈالا۔ نہ ختم ہونے والی خواہشات اور وسیع اختیارات نے معاشرے میں وہ عدم توازن پیدا کیا کہ اخلاقی قدریں اور معاشرتی اقدار نہ صرف لیر و لیر ہوتی چلی گئیں بلکہ ہوسِ زَرّ کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ کیا عوام اور کیا حکمران‘ سبھی اندھا دھند بھاگنے لگے اور ملک بھر میں آج بھی اسی میراتھن کا سماں ہے۔
تیسرا اور آخری مرحلہ نئے ایڈیشن کے ساتھ مزید تباہیوں اور بربادیوں سے بھرا پڑا ہے۔ قومی اداروں اور عدلیہ سے ٹکرائو کے باوجود دو تہائی اکثریت اور بھاری عوامی مینڈیٹ کے زعم میں مبتلا شریف برادران خود کو ناقابلِ تسخیر تصور کر بیٹھے تو اُسی پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی ناکام کوشش میں دھر لیے گئے‘ جسے انہوں نے خود انتخاب کیا تھا۔ حکومت کا تحتہ اُلٹ جانے کے بعد قید و بند کے چند مہینوں کے بعد ایک معاہدے کے تحت جلا وطنی کو ترجیح دے کر سعودی عرب جا پہنچے۔ اس دوران اندرونِ ملک حالات اس طرح تبدیل ہوئے کہ نائن الیون کا واقعہ رونما ہونے کے بعد پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکی نے وہ کام کر دِکھایا کہ ''ڈو مور‘‘ کے مطالبے سے قبل ہی وہ کچھ بھی کر ڈالا جس پر غیرتِ ملی اور حب الوطنی آج بھی شرمسار ہے۔
ضیاء الحق کے زمانے کی افغان جنگ ہو یا پرویز مشرف کے دور کی افغان پالیسی‘ دونوں کے اثراتِ بد آج ملکی سالمیت کو خطرات سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ اسی دوران الیکٹ ایبلز کو اکٹھا کر کے کنگز پارٹی کو مسلم لیگ (ق) کی برانڈنگ کی ساتھ اقتدارمیں لایا گیا۔ طاقت کے زعم اور مفاد پرست قسم کے مشیروں نے پرویز مشرف کو اس بند گلی میں لاکھڑا کیا کہ وہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو وطن واپس آنے سے نہیں روک سکے۔ بینظیر بھٹو کی ایک المناک حادثے میں شہادت کے بعد حالات اس قدر بے قابو ہو گئے کہ آصف علی زرداری کو اقتدار سونپ کر موصوف نے وطن سے باہر جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ نظریۂ ضرور ت کے تحت آصف زرداری اور نواز شریف بڑا بھائی اور چھوٹا بھائی بن کر اقتدار اور وسائل کی تقسیم کے فارمولے کے تحت شریکِ اقتدار ہو گئے لیکن شراکت کی یہ ہنڈیا جلد ہی بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد اقتدار کا ہُما ایک بار پھر نواز شریف کے سر بیٹھ گیا لیکن اداروں سے محاذ آرائی اور چھیڑ چھاڑ کی لت نے وہ دن دِکھایا کہ بطور وزیراعظم نااہل ہو کر کوئے اقتدار سے نکالے گئے۔
عمران خان کی کپتانی میں تبدیلی کا سونامی کوئے اقتدار میں داخل ہوا تو لوٹوں اور کھوٹوں نے ان کی بھی حکومت ڈبو دی۔ نظریۂ ضرورت کے تحت سب سے بڑے ڈاکو جیسے الزامات کے باوجود اقتدار کو مقدم سمجھا جاتا رہا۔ پون صدی کا خلاصہ اور نوحہ یہ ہے تو اگلے پچیس سال میں کون سی توپ چلائی جائے گی؟ معیشت وینٹی لیٹر پر ہو تو سبھی کچھ نزع کے عالم میں آ جاتا ہے۔ نزع کا وقت کون اور کب تک ٹال سکتا ہے۔ عجب وحشت ہے کہ:
در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں
خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved