گزشتہ دنوں بھارت کی ایک خاتون پروفیسر نے بھارتی دارالحکومت دہلی میں واقع پاکستانی سفارتخانے کے ایک عہدیدار پر ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ویزا لینے کیلئے سفارتخانے میں گئی تو اس سے انتہائی ذاتی نوعیت کے سوال پوچھے گئے۔ مذکورہ خاتون نے بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو خط لکھ کر اس معاملے کی انکوائری کی درخواست کی۔ ایس جے شنکر ان دنوں پہلے ہی سرخیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں کیونکہ چند روز قبل انہوں نے روایتی بھارتی بیانیہ دہراتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی تھی جس پر پاکستانی دفترِ خارجہ نے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا پاکستان مخالف بیانات بھارتی سیاست کا وتیرہ بن چکے ہیں۔ اس کے چند روز بعد ہی بھارتی پروفیسر کا مذکورہ معاملہ سامنے آ گیا جس پر پاکستانی دفترِ خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خاتون کے الزامات کی جانچ کی جا رہی ہے؛ تاہم اس کی ٹائمنگ بڑی حیران کن ہے۔ مذکورہ خاتون پروفیسر کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وہ 2021ء میں پاکستانی سفارتخانے میں گئی تھی جبکہ ان دو سالوں میں اس نے نہ تو سفارتخانے کے شکایت سیل میں اور نہ ہی پاکستانی سفیر کو اس معاملے میں کوئی شکایت درج کرائی بلکہ دو سال بعد اس نے بھارت کے وزیر خارجہ کو خط لکھ کر یہ معاملہ اٹھانے کا کہا۔ اب دفتر خارجہ اس معاملے کو دیکھ رہا ہے اور واضح طور پر یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس ضمن میں پاکستان فارن آفس کی پالیسی زیرو ٹالرنس ہے۔
اس کیس کو ایک لمحے کے لیے یہیں چھوڑ کر ذرا بھارت کی ایک خبر پر نظر ڈال لیں۔ خبر ہے کہ ''بھارت کی معروف خاتون ریسلر ونیش پھوگاٹ کی جانب سے ڈبلیو ایف آئی (ریسلنگ فیڈریشن انڈیا) کے سربراہ صدر برج بھوشن سنگھ سمیت دیگر کوچز پر خواتین ریسلرز کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات پر بھارت بھر میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ ونیش پھوگاٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے سامنے کم از کم 10 فی میل کھلاڑیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ریسلنگ فیڈریشن نے ان کا جنسی استحصال کیا‘‘۔ اس وقت جب پورے بھارت میں خواتین کھلاڑیوں کو ہراساں کرنے پر مظاہرے ہو رہے ہیں‘ گودی میڈیا کو ایک ایسے کیس کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے جو شروع سے آخر تک مشتبہ ہے۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر برسانے والے بھارتی میڈیا اور حکومت کو شاید یاد نہیں رہا کہ کابل میں بھارتی سفارتخانے کے دفاعی اتاشی بریگیڈیئر ایس کے نرائن کی افغان خواتین سے شرمناک حرکات پوری دنیا میں بھارت کے سیاہ چہرے کو آشکار کر چکی ہیں۔ بریگیڈیئر نرائن پر لگنے والے الزامات نے کابل اور قندھار میں بھارتی سفارتکاروں کے مکروہ دھندے کو سب کے سامنے عیاں کر کے رکھ دیا تھا۔ ایک افغان طالبہ کا کہنا تھا کہ اس سمیت اب تک نہ جانے کتنی معصوم بچیاں بھارتی تعلیمی اداروں میں سکالرشپ حاصل کرنے کی کوششوں میں بھارتی سفارتخانوں میں اہلکاروں کی ہوس کا نشانہ بن چکی ہیں۔ بریگیڈیئر نارائن کو تو افغانستان سے ملک بدر کر کے نکال دیا گیا تھا مگر بجائے اس کے اپنی ان حرکات پر یہ اور اس کے ساتھی اہلکار شرمسار ہوتے‘ اپنی نجی محفلوں اور دوستوں کو بھیجے گئے میسجز میں یہ بڑے فخر سے اپنی مکروہ حرکات کا اعتراف کر کے ان کی وڈیوز بھی شیئر کرتے رہے۔اس واقعے کے بعد افغانستان میں بھارتی شہریوں‘ سفارتی عملے اور فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں چھوٹے بچوں‘ بچیوں سے زیادتی اور ان کی وڈیوز بنائے جانے کا ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا۔ یہیں پر بس نہیں‘ کئی وڈیوز کو دیکھنے کے بعد انکشاف ہوا کہ اس گھنائونے کام میں بھارتی سفارتخانہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ 2021ء کے اوائل میں ایک نیا سکینڈل سامنے آیا۔ ہوا یوں کہ افغانستان کا دورہ کرنے والے بھارتی سیاح دیپ ڈیسائے نے کابل میں ایک نابالغ بچی سے زیادتی کی اور اس واقعے کی وڈیو بھی بنا لی۔ یہ واقعہ 28 دسمبر 2020ء کو پیش آیا۔ اس بچی کو دھمکایا گیا کہ وہ اس واقعے سے متعلق اپنے خاندان کو نہ بتائے مگر افغانستان میں اپنے قیام کے دوران دیپ نے خود ہی یہ وڈیو ایک ویب سائٹ پر شیئر کر دی جو وائرل ہو گئی۔ اس پر شور مچا تو افغان پولیس حرکت میں آئی اور مقدمہ درج ہوا جس کے بعد دیپ ڈیسائے کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کیس کے دوران افغان میڈیا اور پولیس نے بتایا کہ یہ پہلا کیس نہیں‘ پہلے بھی کئی بھارتی اس طرح کے کیسز میں پکڑے جا چکے ہیں۔
بھارت کے گودی میڈیا اور اس کے فارن آفس کی یاد دہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ بھارت کی کرکٹ ٹیم زمبابوے کے دورے پر تھی تو ایک مشہور کرکٹر نے ایک مقامی خاتون سے زیا دتی کی تھی۔ اس واقعے پر پورے زمبابوے میں ایک ہلچل مچ گئی تھی جس پر زمبابوے پولیس نے اس کھلاڑی کو گرفتار بھی کر لیا تھا مگر بعد ازاں معاملہ سیٹل ہو گیا تھا اور وہ کھلاڑی فخر سے مسکراتا ہوادوبارہ ٹیم شامل کر لیا گیا تھا۔ بھارت کے ایک مشہور اوپنربلے باز اور 2011ء کی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم میں شامل ایک بائولر پر بھی ایسے الزامات لگ چکے ہیں جبکہ پانچ سو سے زائد وکٹیں لینے والا بھارت کا ایک فرسٹ کلاس کرکٹر ان الزامات کے تحت چھ سال جیل کی سزا بھی کاٹ چکا ہے۔ امرتسر ایکسپریس کا واقعہ بھارت میں کون بھول سکتا ہے۔ اس ٹرین میں بھارتی فوج کاایک یونٹ بھی سوار تھا جو چھٹیوں کے بعد مقبوضہ کشمیر جا رہا تھا۔ چلتی ٹرین میں ایک چودہ سالہ بچی کو شراب پلا کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اسے ٹرین سے نیچے پھینک دیا گیا۔ کھیتوں میں کام کر رہے چند سکھ کسانوں کی نظریں اس لڑکی پر پڑیں تو انہوں نے اسے ہسپتال پہنچایا۔ جب اس واقعے پر شور مچا تو سارا معاملہ کھل گیا اور تین بھارتی فوجیوں کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ہیومن رائٹس ایشیا کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطا بق مقبوضہ کشمیر میں تعینات چھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی اور بارڈر سکیورٹی فورس اہلکار 7 ہزار سے زائد خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ نہ تو کوئی انہیں پوچھنے والا ہے اور نہ ہی روکنے ٹوکنے والا۔
بھارتی فوج کے میجر جنرل اے کے لال کی کہانی کون بھول سکتا ہے جس کاا پنی ایک جونیئر افسر سے زیادتی کرنے پر کورٹ مارشل ہوا تھا لیکن اس خبر کو میڈیا پرجاری نہیں کیا گیا کہ اس طرح بھارتی فوج کے مورال پر برا اثر پڑے گا لیکن ایسی خبریں زیا دہ دیر تک کہاں پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میجر جنرل اے کے لال کے حوالے سے اس قسم کی کئی شکایات اس کی مقبوضہ کشمیر کی تعیناتی کے دوران بھی سامنے آئی تھیں مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل اجے چودھری‘ جو میانمار( برما) کے سفارتخانے میں تعینات تھا‘ کو جب 24 کروڑ مالیت کی ہیروئن سمگلنگ کرنے کے جرم میں کورٹ مارشل کیا گیا تو دورانِ تفتیش جوں جوں کیس آگے بڑھتا رہا‘ اس کے اعترافات کی فہرست دیکھ کر سب کے ہوش اڑ گئے کہ یہ کرنل بھارتی سفارتخانے میں آنے والی درجنوں بلکہ سینکڑوں برمی خواتین سے زیا دتی کر چکا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ بھارتی فوج کو یہی تربیت دی جا تی ہے کہ تم لوگ جہاں بھی جائو‘ وہاں سب کچھ تمہاری ملکیت ہے اور وہاں رہنے والے تمہارے غلام اورمحتاج ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اقوام متحدہ کے امن مشنز کیلئے جانے والے بھارتی فوجی مقامی خواتین کی آبرو ریزی کرنا بھی اپنا حق سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس سلسلے میں 2009 ء میں کانگو میں امن مشن کیلئے جانے والے بھارتی فوجیوں نے کیا گھنائونا کھیل کھیلا‘ پوری دنیا جانتی ہے۔ کانگو کی درجنوں لڑکیوں کا کیس جب میڈیا کے سامنے آ گیا تو وہاں ایسا زبردست احتجاج شروع ہوا کہ امن مشن کیلئے گئے بھارتی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل اور دو میجروں سمیت چودہ اہلکاروں کو کانگو سے نکال دیا گیا۔ 'را‘ نے اس بے عزتی کا بدلہ بھارت میں پڑھنے والے چھ کانگو طلبہ کو قتل کر کے لیا۔ اس پر کانگو میں امن مشن پر آئے ہوئے باقی کے بھارتی فوجیوں کو نکالنے کیلئے احتجاج ہونے لگا۔ بھارتی آرمی کو ''آرمی آف ریپبلک ریپس‘‘ کا لقب دے کر اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر سخت احتجاج کیا گیا جس کے بعد دیگر اہلکاروں کو بھی کانگو سے نکال دیا گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved